جی این کے اردو
محمد انیس الرحمٰن خان
7042293793
پیر طریقت حضرت سید شاہ الحاج غلام ربانی قادری قدس سرہٗ کی ولادت باسعادت ہندوستان کے مشہور شہررانچی میں سال ۱۴۳۱ھ مطابق ۹۱۹۱ء کو بہار کے مشہور بزرگ سید شاہ محمد بدرالدین قادری پھلواروی قدس سرہٗ کے مریدو خلیفہ حضرت سید شاہ ابراہیم علی قادری ؒ اور سیدہ برات النساء کے گھر ہوئی۔جب کہ آپؒ کا وصال ۶۱ ذی قعدہ ۳۲۴۱ھ مطابق ۱۳ جنوری ۲۰۰۲ء کو ہوا۔ اسی مناسبت سے ہر سال حضرت کا عرس ۶۱ ذی قعدہ کو شان وشوکت سے منایا جاتاہے۔ بیعت وخلافت:۔ کم عمری میں ہی حضرت کی طبیعت راہ حق کی متلاشی اور اپنے جد امجد کے سلسلے کی طرف مائل تھی، اس لئے جلد ہی آپؒ نے سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری پھلواروی قدس سرہ ٗکے دست حق پرست پر بیعت کر لی۔ آپؒ کی جستجوئے حق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپؒ نے اپنی اولاد کو اپنے والدین کے حوالے کر کے ارشاد فرمایا کہ میری جگہ میرے لخت جگرسید عارف حسن کو ہی تسلیم کریں اور مجھے خدا طلبی میں سیاحت کی اجازت دیں۔ مختلف جگہوں اور مرحلوں سے گزرتے ہوئے دہلی، پنچاب سے ہو کر لاہور تک کا سفر کیا۔ کچھ عرصے کے بعد آپؒ کو اپنے صاحبزادے اوربعد میں والد گرامی کے انتقال کی خبر ملی تو والدہ اورا ہل خانہ کی ذمہ داری نبھانے کے لئے واپس گھر تشریف لائے۔آپؒ صبر کے ساتھ مرضی مولیٰ پرراضی رہ کر اپنے کام میں مصروف رہے۔ اس کے لئے آپؒ نے موجودہ ریاست جھارکھنڈ کا انتخام کیا اور ہزاری باغ و بوکارو کے تعلمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے پس ماندہ علاقوں کو اپنا میدان عمل بناکر سلسلہ قادریہ کی ترویج واشاعت کے ساتھ لوگوں کی فلاہ وبہبود میں محو ہوگئے۔سفرحج اور اجازت وخلافت:۔ آپ اپنی زندگی میں نہ صرف خود دو مرتبہ حج کی سعادت سے سرفراز ہوئے، بلکہ اپنے ساتھ اپنے معتقدین، مریدین اور رشتہ داروں کو بھی اس مقدس سفر میں ساتھ رکھا۔ پہلی مرتبہ ۵۷۹۱ء میں پانی کے جہاز سے مع اہلیہ محترمہ اور مریدین کی جماعت کے ساتھ گئے، جس کی یاد آج بھی ان کے مریدوں کے درمیان نہ صرف باقی ہے، بلکہ اس یادکو وہ اور ان کی اولادکسی خزانہ کی طرح اپنے سینے میں محفوظ کر کے وقتافوقتا فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ مریدوں سے بات کرنے پر بخوبی ہوتاہے۔ آپؒ دوسری مرتبہ ۳۸۹۱ء میں حج کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔آپؒ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میں حضرت بابا فرید گنج شکرؒ،حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ،حضرت شیخ علی ہجوری ؒکی بارگاہ میں حاضری کے بعد کربلائے معلی اور بغداد شریف میں غوث الاعظم کی بارگاہ میں بھی حاضری کا شرف حاصل کیا۔ جہاں آپ کی دلچسپی،مجاہدانہ عظمت اور فقیرانہ انداز کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے بزرگ اور خادم غوث الوریٰ حضرت السید احمد عاصم الگیلانی القادری بغدادی قدس سرہٗ نے آپ کو وہ سلسلہ بھی منتقل فرمایا جو خاندانی طور پر وہاں موجود ہے۔
خدمت خلق اورکشف و کرامت:۔اپنے والد کے کام کو فروغ دیتے ہوئے آپؒ نے بوکارو اور ہزاری باغ کے کئی پسماندہ علاقوں میں مساجد،سڑکیں، بجلی،پانی، تعلیم گاہ کا انتظام کیا۔ آپ ؒ ہمیشہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکر لوگوں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی تصور کرتے ہوئے اس کا ہر ممکن حل تلاش کرتے۔ چنانچہ محترمہ عصمت زوجہ مولوی غیاث الدین کہتی ہیں کہ ہم لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب تھی حضرت کو کھانے کے طور پر دینے کے لئے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا،کسی طرح ایک گلاس دودھ پیش کرپاتے تھے، بخوشی آپؒ قبول فرماکر دن رات ہم لوگوں کی فکر اور امداد میں لگے رہتے اور فرماتے گھبراؤ نہیں۔یہ میرے حضرت کی دعاکا اثر اور ان کا فیض ہے کہ بوکارو اسٹیل کارخانہ کی آمد ہوئی اور ہم سب کو سرکاری نوکری اور معاوضہ ملا۔آج ہمارے گاؤں میں مالی فروانی کا یہ حال ہے کہ تقریباً ہر گھر میں حاجی ہیں۔ بوکارو میں بگھیاری مسجد کے موذن جناب آزاد انصاری نے بتایا کہ یہ مسجد بھی میرے حضرت کی ہی بنوائی ہوئی ہے جب مسجد کے کنواں کی کھودائی ہورہی تھی تو ایک بڑا سا پتھرسامنے آگیا، کوئی بھی انسان اس پتھر کو کاٹنے کے لئے کنواں میں اترنے کو تیار نہیں تھا۔ جب اس کی خبر حضرت کو ہوئی تو وہ خود اپنی کمر میں رسا باندھ کر کنواں میں اُتر گئے اور پتھر کا ایک حصہ کاٹتے ہی کنواں میں پانی آگیا۔ ان ہی کا یہ فیض آج بھی جاری ہے کہ سارے علاقے میں پانی کی قلت ہوتی ہے مگر کنواں کا وہ حصہ جس میں پتھر کاٹا گیا تھا اس میں ہمیشہ پانی دستیاب رہتا ہے، جس سے خلق خدا آج بھی اپنی پیاس بجھاتی ہے۔
مولوی غیاث الدین، خورشید انصاری اور محترمہ عصمت وغیرہ نے بتایا کہ مریدین کی جماعت کے ساتھ حضرت بڑکا بون کے ایک جنگل سے رات کے وقت گزر رہے تھے، مریدوں پر شیر اور دیگر درندوں کا خوف حاوی تھا۔ اسی اثنا حضرت نے فرمایا کہ تم لوگ شیر دیکھنا چاہتے ہو؟مریدوں میں خاموشی چھاگئی آپؒ نے گھنے جنگل کی طرف اپنی ٹارچ جلائی سامنے ایک شیر کھڑا تھا، آپؒ نے ٹارچ کی روشنی شیر کی طرف سے آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے ارشاد فرمایا شیر کا شکا ر ایسے ہی کیا جاتا ہے۔ دوبارہ شیر پر ٹارچ کی روشنی ڈال کر اشارہ کیا تو شیر ایک طرف کو چلاگیا اور ہم لوگوں کی جان میں جان آئی۔ حاجی رحمت علی کے صاحبزادے شمشیر علی نے بتایا کہ میرے مامو فخرالدین انصاری کی طبیعت بہت خراب تھی، چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا، کوئی علاج کارگر نہیں ہو پارہا تھاہم سب لوگ پریشان تھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا،کیا جائے۔اسی اثنا مرحوم مولوی غیاث الدین صاحب نے کہا کہ اب ہمارے درمیان تو ہمارے پیر حضرت نہیں ہیں لیکن ان کی چھڑی موجود ہے تمیں اس سے فیض حاصل کرنا چاہئے۔یہ کہتے ہوئے انہوں نے حضرت کی وہ چھڑی فخرالدین مامو کو دے دی۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور پیر مُرشد کے فیض سے وہ بہت جلد صحت یا ب ہوکر اپنی ذمہ داری نبھانے لگے۔
توسیع سلسلہ قادریہ مع دیگر سلاسل:۔نبیرہئ حضرت سید شاہ الحاج غلام ربانی قادری ؒ (دست گرفتہ سید شاہ ڈاکٹر محمد طیب ابدالی ؒ خانقاہ صوفیہ اسلام پور،بہار) سیدمحمد شائق اقبال چشتی قادری نے اپنی مذہبی اور دنیوی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد اپنے نانا جان کے مشن کو فروغ دینے میں دن رات مشغول ہیں۔جس کا اثر بہارو جھارکھنڈ سے ہوتا ہوا جموں وکشمیر،دہلی،مغربی بنگال، مہاراشٹر،احمد آباد، حیدرآباد اور کرناٹک میں صاف دیکھا جاسکتا ہے۔مذکورہ ریاستوں میں بغیر کسی مذہب وملت کی تفریق آپ کے مریدین و معتقدین موجود ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداداعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر وں، انجینئروں اور آئی اے ایس جیسے مشکل ترین امتحانات کی تیاری کرنے والوں کی ہے۔ وضاحت کرتا چلوں کہ سید محمد شائق اقبال چشتی کی دلچسپی تعلیم و تعلم کو عام کرنے میں ہے ان کی خواہش ہے کہ ان کا کوئی بھی مرید و معتقد علم سے غافل نہ رہے کیوں کہ علم وہ شمع ہے جس کی روشنی میں انسان خود کو پہچانتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لئے وہ خود بھی ذاتی طور پر اپنی دیگر مصروفیات کے باجود لوگوں کو مذہبی اور دنیوی تعلم کی طرف ہر ممکن راغب کرتے ہیں، کبھی ان کی معاشی امداد کرکے تو کبھی تعلیمی مشوروں سے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے کرناٹک کے فصیل بند شہر بیجاپور کے انتہائی تعلیمی، معاشی اور سماجی طورپر پسماندہ علاقے افضل پورٹکے میں “درس گاہ” نامی ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد بھی رکھی ہے۔ جس میں عصری اور مذہبی تعلیم پر خاص توجہ دی جارہی ہے،یہاں عمر وجنس کی قید نہیں ہے۔یہاں کے مقامی بچے جن کو ٹھیک سے انگریزی زبان کا اے بی سی بھی نہیں آتا تھا، درس گاہ میں داخلہ لے کر محض چند ہی دنوں میں انگریزی زبان میں اپنا تعارف پیش کررہے ہیں۔ یہاں ماہر استاد کی نگرانی میں قرآن مقدس کی بھی تعلم مع تجوید دی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تعلیمی ادارہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جھارکھنڈ کے طلبہ بھی اہلیتی امتحانات کی تیاری کرنے کے لئے یہاں مقیم ہیں۔