افسانہ افسانوی نثر

افسانہ نمبر 1، ہجر کے فیصلے از ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم

2022: ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ

افسانہ نمبر 1۔

۔ہجر کے فیصلے

ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی

کولکاتا،(انڈیا)

بینر عمران یوسف

اُس کے جواب سے دل کے نگر میں ایسا زلزلہ آیا کہ وجود لرز کر رہ گیا۔ایسا اِس لیے کہ اس کاEpicenter دل کے بہت قریب تھا۔!! آج کم و بیس پندرہ سال بعد میں اُس سے ملنے جارہا تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اِس اجنبی شہر میں اُس سے میری ملاقات ہوجائے گی۔ گھر سے چلتے وقت مجھے یاد آئی۔اُسے موگرے کا پھول بہت پسند تھا لیکن اب موگرے کا پھول دینے کا وقت نہیں تھا اِس لیے ایک قیمتی ٹافی کا پیکٹ خرید لیا۔ہریشن روڈ جو اب مہاتما گاندھی روڈ کہلاتا ہے سے ہوتے ہوئے اپنی کار کولینن سرانی میں موڑ دیا۔سنڈے ہونے کی وجہ سے لینن سرانی بالکل خالی خالی سا ہے ۔بچے بیچ سڑک پر کرکٹ کھیل رہے ہیں۔کبھی کبھی کار اور دوسری سواریاں سڑک پر فراٹے کے ساتھ گذر جاتی ہیں۔ٹرافک سگنل کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے۔سردی کافی ہے۔کہرا چھایا ہوا ہے۔کہرے کی وجہ سے کار کے ونڈ اسکرین پر کہاسے کی تہہ جم جاتی ہے ۔اِس لیے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وائپر کو چلانے پڑتا ہے۔اچانک مجھے کافی پینے کی خواہش ہوئی۔ ایک ڈھابے کے سامنے کارکھڑی کی۔ڈھابے کے سامنے پیڑ پر ایک گوریاّبون ویلیا کی شاخ پر چپ چاپ شبنم کے قطروں میں بھیگ رہی ہے۔جس سے میں ملنے جارہا تھا اُس سے میری ملاقات سلّی گوڑی میں اُس وقت ہوئی تھی جب ہم وہاںانجینئر نگ کالج میںتعلیم حاصل کررہے تھے۔ پانچ برس کی مدّت میں ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر الگ ہوجانا پڑاتھا اور پھر میں اُسے مکمل طور پر بھول جانے کا وعدہ اور ارادہ کرکے وہا ں سے لوٹا تھالیکن مقدّر کے ستارے کب اور کیسے گردش کریں یہ کوئی نہیں جانتا۔! نوکری ملنے کے پندرہ برسوں کے بعد میرا تبادلہ اِس اجنبی شہر میںہوا ۔دفتر میں بیٹھا بلڈنگ کنسٹرکشن کے پلان کی فائل کو نپٹا رہا تھا کہ میری نگاہ دروازے کی طرف اُٹھی۔ سامنے ایک عورت اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔میں حیرت سے اُسے دیکھنے لگا۔وہی گہواں بدن جیسے میدے کی روٹی پر ایک چٹکی گلابی رنگ لگادیا گیا ہو،ستوان ناک،چوڑی پیشانی،گلابی گلابی ہونٹ، گھنیرے بال جس سے اب کہیں کہیںسفیدی جھانکنے لگی تھی،دھانی شوٹ اور شلوار میں ملبوس سلونا سریواستو……!!پہلے تو مجھے دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے رُکی ۔پھراُس نے حیرت سے کہا۔ ’’کیسے ہیں آپ…؟‘‘ اتنا کہہ کر اُس نے بڑے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور بلڈنگ پلان میز پر رکھ دیا۔میں تھوڑی دیر کے لیے مہبوت ہوگیاکہ یہ تقدیر کا کون سا تماشہ ہے۔؟پھر حواس کو قابو میں کرتے ہوئے رسمی گفتگو کے بعد میں نے کہا۔ ’’کافی دنوں کے بعدتم سے ملاقات ہوئی ہے ۔چلو کافی ہاوس میں کافی لیتے ہیں۔!‘‘ میںاُس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اِس شہر میں کب اور کیسے آئی ۔؟ سلّی گوڑی جہاں ہم دونوں کی رفاقت کے پانچ سنہرے سال گذرے تھے اُس نے کب چھوڑا۔؟کیا اب بھی اُسے ہمارے رفاقت کے گذرے دن یاد آتے ہیں۔؟کالج کے آنگن میں وہ پیپل کا درخت ہے یا نہیں جس کی گھنیری چھائوں میںہم پہروںایک دوسرے سے باتیں کیا کرتے تھے۔؟اُس کی سہیلی کلپنا ابھی کہاں ہے۔؟میرا دیا ہوا انتم تحفہ شیولی کے پھول کا پودا اُس کے پاس ہے یا نہیں ۔؟اُس کی ماں کیسی ہے۔؟جس نے ایک معمولی سی بات پر ہم دونوں کے رشتے کو قبول نہیںکی تھی اور سب سے اہم سوال اُس کے کتنے بال بچے ہیں ۔؟ ابھی ہم دونوں کافی کی آخری گھونٹ بھی نہیں پیئے تھے کہ ایک شور سنائی دیااور ایسا محسوس ہوا جیسے دھرتی ڈول رہی ہے۔!جلدی جلدی کافی ہاوس سے باہر نکل آیا۔سامنے جھیل کے کناروں پرموجوں کے تھپیڑے ساحل سے ٹکرا رہے ہیں۔ہر طر ف زلزلے کا شور اور افراتفری کا ماحول ہے۔اِس افراتفری میں سلوناپھر ملنے کاوعدہ کرکے اپنی کار کی طرف لپکی اور میں اپنے دفتر کی طرف بھاگا۔دوقدم آگے بڑھ کر کار کے پاس سے پھر واپس آئی اور آواز دیتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم برا نہ مانو تو اپنا موبائل نمبر مجھے دو۔بعد میںمیں تمہیں فون کروں گی۔!!‘‘ افراتفری کی حالت میںمیں نے اُس کی ہتھیلی پر اپنا کنٹکٹ نمبر لکھ دیا۔لکھنے کے دوران مجھے بیس بائیس برس پہلے کا وہ زمانہ یاد آیا جب وہ اسی طرح کالج کے احاطے میں پیپل کے نیچے چبوترے پراپنی ہتھیلی کو میرے سامنے بڑھا دیا کرتی تھی اور میں سرخ روشنائی سے اُس کی سفید سفیدہتھیلی پرI LOVE YOU لکھ دیاکرتا تھا۔جس وقت میں موبائل کانمبر لکھ رہا تھا۔نیچے دھرتی ڈول رہی تھی اور بغل میں جھیل کے تھپیڑے اُپھان پر تھے۔جدائی کے پندرہ سال بیت گئے لیکن ہم دونوں نے کبھی بھی ایک دوسرے سے رابطہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔جدائی کی وہ شام مجھے اب بھی یاد ہے۔جب سورج ڈوب رہا تھا اور پلیٹ فارم کے کنارے ہار سنگھار اور گڑہل کے پھولوں کا رنگ بدلتا جارہا تھاکہ جب سورج ڈوبنے کو ہوتا ہے تو پھولوں کا رنگ بدل جاتا ہے ۔پلٹ فارم خالی تھا۔ٹرین آنے میں ابھی چار گھنٹے کی دیر تھی۔میں اپنے سامان کو لے کر پلیٹ فارم پر ایک بیری کے پیڑ کے نیچے بیٹھا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا سلونا سری واستو کاندھے پر بیگ لٹکائے میری طرف آرہی ہے۔قریب آتے ہی اُس نے ہانپتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا ہوا تم سے ملاقات ہوگئی ورنہ زندگی بھرملال کا یہ داغ دل میں پھیلتا رہتا کہ انتم گھڑی میں تم سے ملاقا ت نہیں ہوئی۔!!‘‘ہانپتی کانپتی وہ دبلی پتلی سی لڑکی ایک ہی زبان میں سب کچھ کہہ دی۔اِس کے بعدبس ایک ٹک وہ مجھے دیکھے جارہی تھی۔میں نے اُس سے کہا۔تم کو یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی ۔اُس دن تو ہم دونوں نے بیتے ہوئے لمحوںکو ماضی کا ایک بند باب مانتے ہوئے ایک دوسرے کے تمام گلے شکوئے کو معاف کردیئے تھے۔!!کہا جاتا ہے نا کہ عورت کا آنسو پتھر سے پتھر دل انسان کو پگھلا دیتا ہے۔ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی اُس وقت ہورہا تھا جیسے میں اندر سے آہستہ آہستہ۱۲۰کیلومیٹردور گینگٹوک کی چوٹیوں کی طرح پگھل رہا ہوں۔ بڑی کشمکش کی وہ دو پہرتھی۔اُس نے ڈبڈبائی آنکھوں کو دوپٹے سے پوچھتے ہوئے کہا۔کیا تم میر ے لیے نوکر ی جوائن کرنے کے فیصلے کو ٹال نہیں سکتے ہو۔؟میں جو کچھ بھی کہہ رہی ہوں وہ آخری کوشش سمجھنا کہ تم مجھ سے دور نہ چلے جائو۔اُس نے یہ بھی کہا تھاکہ چاہے تم نوکری کرو یا میں بات تو ایک ہی ہوگی۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ زندگی بھر میں تجھے گھر میں بیٹھا کر کھلائوں گی ۔تمہاری ہر فرمائش پوری کروں گی۔تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دوںگی۔تم صرف میرے لیے میرے مم اور ڈیڈ کی ضد پوری کردواور مجھ سے دورمت جائو۔اُس نے پھر کہا۔ ایک بار پھر سوچ لو۔ کوئی بھی فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا کیونکہ جذبات میں لیے گئے فیصلے اکثر غلط ہوتے ہیں۔!زمستاں کی اِس دوپہر میںبیری کے پیڑ کے نیچے میرے لیے وہ فیصلے کی گھڑی تھی اور وہ ایک ٹک مجھے دیکھے جارہی تھی۔!میں نے جواب میں کہا۔ ’’سلونامیرے ڈیڈاور مم نے مجھے یہاں تک پہنچنے کے لیے ہی اتنی محنت مشقت کر کے پڑھایا لکھایا ۔!!‘‘میرا جواب سن کر اُس نے بڑی فراخدلی سے کہا۔ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔!خیر کوئی بات نہیں ہے۔!‘‘اتنا کہہ کر اُس نے اپنے بیگ سے ایک پیکٹ نکالااور کہا۔ ’’ یہ میری طرف سے تمہارے لیے گفٹ ہے اور یہ ٹفن ٹرین میں کھالینا۔‘‘ اتنا کہہ کر اُس نے آخری بار گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔جدائی کے یہ لمحے میرے لیے بھی بڑے درد ناک تھے۔اِس لیے کہ پانچ برسوںکی رفاقت ختم ہونے جارہی تھی۔اُس نے نم آنکھوں سے کہا۔اب تمہارے جانے کا وقت ہوگیا ہے۔!تم بہت یاد آئوگے ۔!! دھیرے دھیرے ٹرین پلیٹ فارم پر رینگنے لگی ۔رینگتی ٹرین کے ساتھ ساتھ وہ پلیٹ فارم پر کچھ دور تک کھڑکی کے سلاخ کو بائیں ہاتھ سے پکڑکر چلتی رہی اور داہنے ہاتھ کو ہلاتی رہی۔ اِس کے بعد ٹرین جب رفتار پکڑ لی تواُس نے کھڑکی کے سلاخ کوآہستہ سے چھوڑدیااور حسرت بھری نگاہ سے ایسے دیکھنے لگی جیسے کسی بچے کے ہا تھ سے گیس کا غبارہ چھوٹ گیا ہو۔!تب میں سیٹ سے اُٹھ کر دروازے پر آگیا۔میں نے محسو س کیا کہ وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح میری طرف تھکی تھکی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔دھیرے دھیرے جب ٹرین پلیٹ فارم سے باہر نکل آئی تواُس کاموہنی چہرہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیااور اُدھر سورج بھی ڈوب گیا۔اِس کے بعد میں آکر سیٹ پر بیٹھ گیا اور بہت دیر تک کھڑکی کے باہر خلاء میں تکتا رہا۔اِس دوران بار بارمجھے سلونا کااُداس چہرہ یاد آتارہا۔کبھی کبھی سلونا کے مم اور ڈیڈ بھی یادآتے رہے کہ یہ سب اُن کی وجہ سے ہوا۔ جن کا کہنا تھا کہ سلونا کی شادی ایک شرط پر دینے کے لیے تیار ہیں کہ میں اپنا ڈیوٹی جوائن نہ کروںکیونکہ میرٹ لِسٹ میں سلونا سری واستو دوسرے نمبر پر تھی اور یہ فیصلہ میرے لیے بہت بڑا اور کٹھن بھی تھا۔سلّی گوڑی سے جب ہم بہت دور نکل آئے تب یادوں کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا۔اب میرے پاس اُس کی یاد کا تنہا سہارا اُس کے تحفے تھے۔میں نے پیکٹ کھولا۔بہت دیر تک پیکٹ کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔اُس کو ہونٹوں اور سینے سے لگاتا رہااورٹرین سر پٹ بھاگتی رہی۔جب سورج مکمل طور پرکھڑکی کے باہر درختوں کی اوٹ میں ڈوب گیا تب کمپارٹمنٹ کے لائٹ جل اُٹھے۔دودھیا روشنی کے اُجالے میںسنہری ربن کاٹنے کے بعد دیکھاکتاب کے کونے میں سرخ روشنائی سے لکھا تھا۔ ’’کہانی کی اِس کتاب کو حفاظت سے رکھنا شاید تنہانی میں پڑھتے وقت میں تجھے یاد آجائوں۔۔!‘‘ سلونا سری واستو……!!اِس کے بعد ٹفن کھولا۔میدے کی پوریاں،آلو کی سبزی ،سندیس اور موتی چور کے لڈّو تھے ۔چونکہ ٹفن اُس کے دیے ہوئے تھے اِس لیے اُداس لمحوںمیں بھی خوش ذائقہ لگے۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی کہ میری کار اب لینن سرانی سے ہوتی ہوئی ربندر سرانی کے بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ونڈ اسکرین پر کہاسے جمع ہوگئے تھے۔میں نے وائپر کو چلایا ۔ونڈ اسکرین صاف ہوگیا۔سڑک دکھائی دینے لگی کہ اچانک میری نگاہ ایک بلڈنگ سے ٹکرائی جس پر ایک بڑا ساہورڈنگ لگا تھا جس میں ایک نو عمر لڑکی گلابی ساڑی پہنے ہاتھ میں گلاب کی ڈالی لے کر ایک اسمارٹ لڑکے کو دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ !!اِس کے ٹھیک نیچے جلی حرفوں میں لکھا تھا۔ ’’کرونا اپارٹمنٹ۔!‘‘ کار کو روک کرپہلے ہارن بجائی۔پھر کار سے نیچے اُترا اور کال بیل کاسوئچ دبایا۔بالکونی سے ایک نو دس سال کی لڑکی نیچے کی طرف دیکھی۔اُس نے ہاتھ سے ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔ ْتھوڑی دیر میں اُس نے آکردروازہ کھولا۔میں اندر گیا۔بڑا خوبصورت کمرہ تھا۔دروازے اور کھڑکی پر ریشمی پردے،سنگ مرمر کا چمچماتا فرش،دونوں طرف قیمتی صوفے،کتھئی کانچ کے ٹی ٹیبل پرمرادآبادی گلدان میں مونگرے کا پھول اور کمرے کے کونے میں کروٹوں فیملی کے پودے کورے مٹی کے گملے میں لگاکربڑے سلیقے سے رکھے گئے تھے ۔کھڑکی پر میری گولڈ کی بیلیں بھی لپٹی ہوئی تھیں۔ اِس کے قریب ہی ایک پنجڑہ تھا جس میں ایک طوطا پکے امرود کھارہاتھا۔اُس لڑکی نے اے سی چالو کرکے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔اِس کے بعد سلونا سری واستوگائون پہنے کمرے میں داخل ہوئی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ باتھ روم سے نہا کر آرہی ہے اور اُس کے کھلے زلفوں سے اُٹھنے والی لکس صابن کی خوشبو سے کمرہ مہک اُٹھا۔ اُس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’اُس دن تو ایسا زلزلہ آیا کہ ٹھیک سے بات چیت بھی نہیں ہوپائی ۔بہت دنوں کے بعد میرے گھر آئے ہو۔کہو کیا لینا چاہوگے۔کافی یا ٹی؟‘‘میں نے کہا۔ ’’یہ تمہارا گھر ہے ۔جیسی تمہاری مرضی ۔!!‘‘ اُس نے کج آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔پھر اُس شائستہ مزاج لڑکی کو آواز دی۔ تھوڑی دیر میںوہ لڑکی میزپر دو سنڈوچ ،پینے کے لیے پانی کا بوتل،دوبلّوری پیالے اورشفّاف بیلزیم شیشے کے مگ میں کافی رکھ کر چلی گئی۔بات آگے بڑھی اور اُس نے کہا ۔تمہارے جانے کے صرف تین ماہ بعد ڈیڈ اور مم دونوںکا کار ایکسیڈنٹ ہوگیا۔پھر ایسا ہواکہ واقعہ کے دو یا تین ہفتے بعد فلیٹ میں کچھ عجیب عجیب ڈرائونے واقعات رونما ہونے لگے۔جی بہت اُداس رہنے لگا ۔ راتیں آنکھوں میں کٹنے لگیں ۔ایسے میں تمہاری یاد بہت آتی لیکن تمہارا کوئی اَتہ پتہ اور کنٹیکٹ نمبر میرے پاس نہیں تھا کہ رابطہ کروں۔جب پڑوسیوں سے میرے دکھ نہ دیکھے گئے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ وہاں کا فلیٹ فروخت کرکے یہاںکولکاتامیں بس جائوںجہاں میرااپنا کزن رہتا ہے۔اُن کا مشورہ مجھے اچھا لگا۔اسی لیے میں یہاں اپنا فلیٹ بنوارہی ہوں۔ تمہارے دفتر میں جو پلان جمع کی ہوں وہ اِس سامنے والی خالی زمین پر فلیٹ بنانے کے لیے ہے۔اتنا کہہ کر وہ کچھ سنجیدہ ہوگئی۔ اُس کے مم اور ڈیڈ کا کار ایکسیڈنٹ میں موت کی خبر سن کر مجھے افسوس ہوا۔میں نے اُسے دِلاسا دیا کہ پلان پاس ہوجائے گا۔رسمی بات چیت ہوتی رہی۔جب کافی دیر ہوگئی تو میں نے واپسی کی اجازت یہ کہتے ہوئے مانگی کہ مہکتے لمحے ایسے گذر جاتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔وہ میرے اِس خیال سے متفق تھی۔صوفے سے اُٹھ کر دروازے تک سلونا یہ کہتے ہوئے آئی کہ تم نے میرے ڈیڈ اور مم کے سامنے پرپوز کرنے میں ذرا جلدی کردی۔میں نے پلٹ کر اُس کے چہرے کو دیکھا اور پھر سیڑھیا ں نیچے اُتر نے لگا۔جیسے جیسے ہم نیچے اُتر رہے تھے ویسے ویسے سلونا شری واستو میرے دل کے اندر اُتر رہی تھی۔اِس دوران میں نے اُس کے خوبصورت کمرے کی خوب تعریف کی۔سیڑ ھیوں سے جیسے ہی قدم نیچے اُترے کہ اچانک مجھے خیال آیا میں کچھ بھول رہاہوں۔میں نے جلدی سے بیگ کھولا اور ٹافی کا پیکِٹ نکال کر دیتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے لیے موگرے کا پھول تو نہیں لاسکا کیونکہ اب وہ دن نہیں رہے۔یہ لو تم ا پنی بیٹی کو دے دینا۔!!‘‘ وہ ٹافی لے کر دروازے پر کھڑا کھڑا میرا منہ تکنے لگی۔مجھے ایسا لگا جیسے اُس کی آواز لپک کر ڈوب گئی ۔!!اِس کے بعد ہم دونوں کے درمیان خاموشی کا مہا ساگر تھا مانوں پھر کوئی زلزلہ آیا ہو۔!!اُس کے چہرے کی رنگت دیکھ کر مجھے پندرہ برس پہلے پلیٹ فارم کے کنارے ہارسنگھار اور گڑہل کے پھول یاد آئے ۔ میں پیچھے کی طرف ہٹا ۔ نگاہ نیچے جھکی۔ دیکھادروازے کے پاس شیولی کا پودا ٹب میں لگا تھا۔!!!

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ