افسانہ افسانوی نثر

افسانہ”منزل ابھی دور ہے” از محمد ارشد کسانہ زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم، کشمیر

ولر اردو ادبی فورم کشمیر افسانہ ایونٹ

افسانہ نمبر 2

افسانہ :- منزل ابھی دور ہے

محمد ارشد کسانہ

ریسرچ اسکالر،دہلی یونی ورسٹی پونچھ، جموں و کشمیر

بینر :- عمران یوسف

”عظمیٰ! کلاس ختم ہونے کے بعد ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں میرا انتظار کرنا۔ کلاس کے متعلق تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔“ پروفیسر اشتیاق یہ کہتے ہی اپنے دفتر کی طرف چلا گیا اور عظمیٰ کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اتنی قابل ہے کہ یونی ورسٹی کا پروفیسر اسے میٹنگ کے لیے بلا ئے۔ عظمیٰ کو ایم۔ اے۔ اردو میں آئے ہوئے ابھی تین ہی مہینے ہوئے تھے مگر پروفیسر اشتیاق کے سبب اس کا حوصلہ ساتویں آسمان پر تھا۔ اسی نے عظمیٰ کو کلاس کا سی۔ آر بنایا تھا۔ سی۔ آر بننے کے بعد شعبے کے باقی اساتذہ بھی عظمیٰ کو اہمیت دیتے تھے۔ یوں تو پروفیسر اشتیاق کے زیر نگراں کئی اسکالرز بھی تھے مگر عظمیٰ کو یقین تھا کہ جتنی اہمیت وہ اس کو دیتے ہیں اتنی کسی اسکالر کو نہیں ملتی۔

عظمیٰ کے ذہن میں جب دوبارہ میٹنگ کا خیال آیا تو وہ خوشی سے بھر گئی۔ جلدی سے وہ اپنی سہیلیوں کے پاس گئی۔ اپنا روپ جمانے کے لیے وہ میٹنگ کی بات اپنی سہیلیوں کے ساتھ ساجھا کرنا چاہتی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ کس طرح یہ بات بتائی جائے۔ اچانک اس کی ایک سہیلی نے پوچھا۔ ”عظمیٰ کلاس کے بعد ہم ہاسٹل میں جائیں گی۔ تم چلو گی؟“

”ارے نہیں یار! آج میری اشتیاق سر کے ساتھ میٹنگ ہے۔“ اس نے جان بوجھ کر بے توجہی سے کہا۔

”میٹنگ!!“ دوسری سہیلی حیرانگی سے بولی۔

”ہاں! ہاں! میٹنگ!۔ کلاس کے متعلق“ اتنا کہہ کر عظمیٰ کلاس میں چلی گئی۔ کلاس ختم ہوتے ہی عظمیٰ لائبریری کی طرف روانہ ہوگئی۔ وہ راستے میں سوچتی رہی کہ کلاس کا ایسا کون سا معاملہ ہے جس پر میٹنگ کی ضرورت ہے۔ سب تو ٹھیک چل رہا ہے۔ پھر اسے یاد آتا ہے کہ کرونا وبا نے کلاس کو کافی متاثر کیا ہے۔شاید میٹنگ اسی کے متعلق ہو۔ کرونا کا یاد آتے ہی اسے اطمینان مل گیا۔ اب کلاس کے مسائل پر غور کرتی ہے اور اس سے جڑے سوالات ذہن میں جمع کر لیتی ہے۔ عظمیٰ انہیں خیالات میں کھوئے ہوئے لائبریری کے دروازے پر پہنچ گئی۔ لائبریری بالکل ویران پڑی تھی۔ ایک دم سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس نے دھیرے سے دروازے کے اندر قدم رکھا۔

”بیٹا لائبریری بند ہے۔“ لائبریرین نے عظمیٰ کو دیکھتے ہی بولا۔ ”مجھے اشتیاق سر نے بھیجا ہے!“عظمیٰ نے جواب دیا۔ یہ سن کر لائبریرین نے ایک دفعہ عظمیٰ کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ ”ٹھیک ہے آئیے“ اور پھر لائبریرین اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ کوئی دس منٹ کے بعد پروفیسر اشتیاق بھی لائبریری میں حاضر ہوگیا۔ اس نے دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی لائبریرین کو دھیمی آواز میں کچھ کہا جسے سن کر لائبریرین خاموشی سے دروازے کے باہر ہوگیا۔عظمیٰ نے یہ دیکھ کر سوچا کہ لائبریرین چائے لانے گیا ہے اس لیے اس کا اطمینان برقرار رہا۔

پروفیسر اشتیاق پیچھے پلٹا اور مسکراتے ہوئے عظمیٰ کے سامنے بیٹھ گیا۔ عظمیٰ استاد کو نزدیک دیکھ کر فوراً کھڑی ہوگئی۔ ”ارے بیٹھو! بیٹھو!!“ پروفیسر نے ہاتھوں سے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”جی سر!“ اعظمیٰ شرماتے ہوئے بیٹھ گئی۔

”بہت قابل لڑکی ہے عظمیٰ!“ پروفیسر کی مسکراہٹ برقرار رہی۔ ”اچھا یہ بتاؤ! زندگی میں کیا بننے کی خواہش ہے؟“ پروفیسر نے اسی لہجے میں سوال کیا۔ ”سر میں بھی پروفیسر بننا چاہتی ہوں!“ عظمیٰ نے شرم اور خوشی کے ملے جلے جذبات کو ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ”اس دور میں پروفیسر کی نوکری حاصل کرنے کے لیے ڈگریوں کے ساتھ ساتھ سفارشوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ تم نے مناسب شعبے کا انتخاب کیا ہے اور تمہیں پروفیسر بنانا اب میری زمہ داری ہے۔“ پروفیسر نے عظمیٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ”بہت شکریہ سر!“ عظمیٰ بے حد خوش ہوگئی۔ ”ابھی تم ایم۔ اے۔ میں ہو۔ اسسٹنٹ پروفیسر بننے کا کرئیٹیریا بڑا طویل ہے۔ اس کو مکمل کرنے کے لیے آپ کو کافی محنت کرنی پڑے گی۔ یہ زیادہ مشکل ان لوگوں کے لیے ہے جن کو گائڈنس نہیں ملتی لیکن میں آپ کو ابھی سے گائڈ کروں گا۔“

یہ سن کرعظمیٰ کو مزید خوشی ہوئی۔ اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ دنیا میں آج بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں۔

”دیکھو عظمیٰ!“ یہ کہہ کر پروفیسر نے جیب سے پین نکال لیا اور عظمیٰ سے کاپی مانگی۔ عظمیٰ نے ایک لمحے میں اپنے بیگ سے کاپی نکال کر پروفیسر کے ہاتھ میں دے دی۔ پروفیسر نے کاپی کا ایک صفحہ نکالا اور پین کی نوک صفحے کے درمیان میں رکھ کر بولا۔ ”ایم۔ اے۔ کے دوران ہی آپ کو جے۔ آر۔ ایف کرنا ہے۔ وہ کیسے ہوگا! یہ میں بتاؤں گا۔ اس کے بعد آپ کو ڈیئرکٹ پی ایچ۔ ڈی میں داخلہ مل جائے گا۔ اور پی ایچ۔ ڈی میں تم کو یہیں لے لوں گا۔ اب ایک فہرست بنانی ہے۔غور سے دیکھنا“ پروفیسر نے کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔ پھر اچانک اس نے عظمیٰ کو دیکھا جو اپنی ہی جگہ سے کمر سیدھی کرکے جھانک رہی تھی۔ پروفیسر جلدی سے اندر کی طرف کھسکا۔ ”یہاں آؤ میرے پاس! وہاں سے دکھائی نہیں دے گا“ عظمیٰ اپنی جگہ سے اٹھ کر پروفیسر کے بالکل پاس بیٹھ گئی۔ ”یہاں دیکھو“ پروفیسر نے کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔ ”دس آرٹیکل!، دو کتابیں!، دس سمینار!اور دو چار ورکشاپ!۔ یہ سب آپ کو کرنا ہے مگر تمہارے ساتھ میں ہوں“ پروفیسر نے آہستہ سے پین کو کاغذ پر لیٹا دیا۔ اور آہستہ آہستہ اس کا ہاتھ اعظمیٰ کے ہاتھ کی طرف بڑھنے لگا۔ جب اعظمیٰ نے اس ہاتھ کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ ”تمہیں میں پی ایچ۔ ڈی کے فوراً بعد اسسٹنٹ پروفیسر لگوا دوں گا۔ اپنا ہاتھ دو میں وعدہ کرتا ہوں“ پروفیسر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ ہاتھ کو دیکھ کر عظمیٰ کے جذبات میں ہلکی سی تبدیلی آئی۔ اس نے آج تک اپنا ہاتھ کسی غیر مرد کے ہاتھ میں نہیں دیا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ ”ارے ہاتھ دو!“ پروفیسر نے اس بار مزید پیار سے کہا اور عظمیٰ نے آہستہ سے اپنا ہاتھ پروفیسر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پروفیسر کے ہاتھ نے دھیرے سے عظمیٰ کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ”یہ پروفیسر اشتیاق کا تم سے وعدہ ہے“ پروفیسر نے مسکراہٹ کے ساتھ عظمیٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ لیکن اب عظمیٰ اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتی تھی مگر پروفیسر کے دونوں ہاتھوں نے عظمیٰ کے معصوم اور ملائم ہاتھ کو دبوچ لیا تھا۔ اس ہاتھ کا اب پروفیسر کے ہاتھوں کی سخت گرفت سے نکلنا کافی مشکل ہوگیا تھا۔ عظمیٰ کی پوری توجہ پروفیسر کے ہاتھوں پر تھی اور اس کے احساسات میں زبردست تبدیلی رونما ہو رہی تھی۔ اندر ہی اندر وہ بے چینی محسوس کرنے لگی۔ وہ اس میٹنگ کو ختم کرنا چاہتی تھی مگر اس کے اندر بولنے کی قوت موجود نہ تھی۔ ”عظمیٰ میری طرف دیکھو“ پروفیسر نے اس بار بڑی سنجیدگی سے کہا۔ یہ سن کر عظمیٰ کے اندر پہلی بار خوف نے جنم لیا۔ اس نے بگڑے ہوئے چہرے سے پروفیسر کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر عظمیٰ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ دوسری طرف اب پروفیسر کے ہاتھ عظمیٰ کی کلائیوں تک پہنچ چکے تھے۔ وہ بے بس تھی اور اس بے بسی کے عالم میں اس کی آنکھوں میں آنسو ابھرنے لگے۔ ”سر!۔۔ سر!“ اس نے ہمت جٹانے کی کوشش کی۔ ”سر ہمیں چلنا چاہئے“ عظمیٰ نے بھرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ”یہاں کوئی نہیں ہے اور نہ ہی میری اجازت کے بغیر یہاں کوئی آسکتا ہے“ یہ کہتے ہی پروفیسر نے زور کے ایک جھٹکے سے عظمیٰ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس جھٹکے سے عظمیٰ کے ہوش و ہواس فوراً ضائع ہوگئے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پروفیسر کے ہاتھ اب عظمیٰ کی پیٹھ پر تیزی سے گھوم رہے تھے مگر وہ صدمے میں اس قدر ڈوب گئی تھی کہ اسے کچھ محسوس نہ ہورہا تھا۔ البتہ اس کی آنکھوں سے آنسو ضرور بہہ رہے تھے۔ پروفیسر کا ایک ہاتھ عظمیٰ کی پیٹھ سے گزرتا ہوا سر کے بالوں تک پہنچ گیا۔لیکن اعظمیٰ کے ہاتھ بے جان لٹک رہے تھے۔ ”ٹیبل پر آؤ! ٹیبل پر!“ اچانک پروفیسر نے کہا۔ یہ سن کر عظمیٰ کے پورے جسم میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اس کے ہوش ٹھکانے پر آئے۔ پروفیسر جلدی سے کھڑا ہوا اور کرسیاں ہٹا کر ٹیبل سیدھا کرنے لگا۔ اچانک عظمیٰ کے اندر پتہ نہیں کہاں سے بلا کی قوت پیدا ہوگئی اور وہ جھٹ سے اٹھ کر بھاگی اور دروازے باہر ہوگئی۔ اس صدمے کے بعد وہ کچھ دنوں تک بے ہوشی کے عالم میں رہی۔ جس استاد کی بدولت وہ یونی ورسٹی میں اپنا ایک اہم مقام تصور کرتی تھی اس کا اصل روپ دیکھ کر اسے خود سے بھی شرم آنے لگی۔وہ حادثہ ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا۔ اسی لیے وہ گہرے ڈپریشن میں گم ہوگئی۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے گھروالے بھی حیران تھے۔ اسے کئی ڈاکٹروں کے پاس بھی لے جایا گیا مگر ڈاکٹر وں نے بھی ڈپریشن کا مرض بتاکر اسے یونی ورسٹی جانے اور دوستوں سے ملنا کے مشورہ دیا۔ لیکن یونی ورسٹی کا نام سن کر ہی عظمیٰ کی طبیعت بگڑ جاتی۔ پروفیسر اشتیاق کے سبب اسے پوری یونی ورسٹی سے نفرت ہوگئی تھی۔ ایک دن وہ اپنا درد ساجھا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اسے محسوس ہوا کہ اگر اس نے اس حادثے کو مزید اپنے اندر دبا کے رکھا تو وہ پھٹ جائے گی۔ آخر اس نے ہمت جٹا کر اپنی ایک دوست شائستہ کو فون کیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ یہ سن کر شائستہ بھی حیران رہ گئی۔ خیر اس نے عظمیٰ کو مشورہ دیا کہ وہ اشتیاق سر کی اسکالر خالدہ کو اس حادثے کے بارے میں بتائے۔ خالدہ اگرچہ پروفیسر اشتیاق کی زیر نگرانی پی ایچ۔ ڈی کر رہی تھی مگر وہ تانیثیت کی زبردست حامی تھی۔ خواتین کی حمایت میں اکثر اس کے مضامین رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ خواتین کے متعلق اس کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آچکی تھی۔ عظمیٰ کو جیسے ہی خالدہ یاد آئی تو اسے محسوس ہوا گویا اس کے درد کو وہی سمجھ سکتی ہے۔ عظمیٰ دوسرے دن ہمت کرکے شائستہ کے ساتھ یونی ورسٹی گئی مگر یونی ورسٹی کا گیٹ پار نہیں کر پائی۔ انھوں نے خالدہ کو یونی ورسٹی کے باہر سے ہی فون کیا۔ خالدہ ملاقات کے لیے فوراً تیار ہوگئی۔ عظمیٰ اور شائستہ گیٹ کے سامنے ایک چھوٹے سے باغ میں بیٹھ کر خالدہ کا انتظار کرنے لگیں۔ کوئی دس منٹ تک وہ دونوں خاموش رہیں پھر اچانک شائستہ نے کہا۔ ”عظمیٰ تم گھر کیوں نہیں کہتی؟“

”گھر!!“ عظمیٰ چونکی۔ ”اگر اس حادثے کے بارے میں گھروالوں کو پتہ چل گیا تو سب سے پہلے میری تعلیم ختم ہوگی۔ میرا پورا کیرئیر اور سارے خواب برباد ہوجائیں گے“ ”لیکن یہ بھی تو سوچو کہ اگر تم اس پروفیسر کے خلاف ایکشن لوگی تو کئی آنے والی لڑکیوں کی عزتیں بچ جائیں گی۔“ شائستہ نے عظمیٰ کے چہرے کو گھورتے ہوئے کہا۔ ”عزت!!“ وہ ہنسی ”اور پھر میری عزت!!“ اس کی فکر مزید گہری ہوگئی۔کچھ دیر خاموشی کے بعد اس نے لہجہ بدل کر پھر بولنا شروع کیا۔”ایک عورت کے پاس اس کی عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ جب عزت ختم ہوتی ہے تو عورت خود خود ختم ہوجاتی ہے“ یہ کہہ کر پھر دونوں خاموش ہوگئیں۔ اسی دوران خالدہ باغ میں داخل ہوئی۔ وہ بڑی خوش مزاجی کے ساتھ دونوں سے ملی اور پھر سامنے والے بنچ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی۔

”کیا بات ہے عظمیٰ؟ تمہارا چہرہ کافی اترا ہوا ہے“ خالدہ نے عظمیٰ کی مایوسی محسوس کرتے ہی پوچھا۔ ”ڈاکٹر صاحبہ! کچھ دنوں پہلے اشتیاق سر نے مجھے ڈایپارٹمنٹ کی لائبریری میں ایک میٹنگ کے لیے بلایا“ یہ کہتے ہوئے عظمیٰ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ ”ہاں! تم رو کیوں رہی ہو۔ کیا ہوا؟“ خالدہ نے عظمیٰ کے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اور پھر مجھے اکیلا پاکر انھوں نے میری عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی“ یہ سنتے ہی خالدہ فوراً کھڑی ہوگئی۔ اس کا چہرہ ایک دم سرخ ہوگیا۔ ”یہ کیا بکواس ہے!!“ خالدہ نے تیکھے لہجے میں کہا۔ ”یہ سچ ہے!“ عظمیٰ نے خالدہ کے رویے کو دیکھ کر حیرانگی سے کہا۔ ”شٹ اپ!!۔ پروفیسر اشتیاق میرا خدا ہے اور میں اپنے خدا کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سنوں گی“

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ