جی این کے اردو
غزل
سفر ہے درد کا جس پہ کہ رستہ چیخ اٹھتا ہے
اجالا گر نہ چیخے تو اندھیرا چیخ اٹھتا ہے
جواں بیٹوں کے جب بھی لاش کے تابوت آتے ہیں
محلے بھر کی ماؤں کا کلیجہ چیخ اٹھتا ہے
نجانے کون سا ڈر جاگتا ہے میری نیندوں میں
جسے چُھو کر مرے خوابوں کا بچہ چیخ اٹھتا ہے
مرے گھر میں یہ کیسا آئینہ لے کر چلے آئے
کہ جو بھی اس میں چہرہ دیکھتا ہےچیخ اٹھتا ہے
پہاڑوں کی طرح مردے مرے آنگن میں لیٹے ہیں
جنازے جب بھی اٹھتے ہیں تو کندھا چیخ اٹھتا ہے
مُجھے داد سخنور ی سحر جی گر نہیں ملتی
میں جب بھی شعر کہتی ہوں زمانہ چیخ اٹھتا ہے
•••{}{}•••عفراء بتول سحر