ہم بھی وہاں موجود تھے
دانش اثری، مئو
آج بتاریخ 4-اپریل 2018 بروز بدھ بوقت تقریبا 11 بجے کانفرنس ہال، اسکول آف ہیومنٹیز میں اردو ایسوسی ایشن کا سیمینار بہ عنوان “ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور:تخلیق، تنقید اور تحقیق” منعقد ہوا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے، ایک مقالہ نگار کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک سامع کی حیثیت سے۔ حالانکہ پروگرام کے انعقاد کا رسمی اعلان دس بجے اور غیر رسمی اعلان ساڑھے دس بجے کا تھا۔ قریب پونے گیارہ بجے جب خاکسار ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو ابھی ماحول کافی سرد تھا، ابھی کچھ معلوم کرنے کے لیے دائیں بائیں کسی کو تلاش کرنا شروع ہی کیا تھا کہ جناب “افصل راشد” صاحب تشریف لائے، اور چند ہی ثانیوں کے بعد پی ایچ ڈی اسکالر “اویس احمد اور سریر بھٹ” صاحبان بھی آن موجود ہوئے۔ ایچ سی یو کی کچھ سابق طالبات بھی پہنچ گئی تھیں جن سے افصل راشد نے متعارف کرایا۔ اس کے بعد ہم سب کانفرنس ہال کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہاں پر بھی کچھ نئے چہروں سے آشنائی ہوئی جن میں مبین صاحب نمایاں تھے۔ بہرطور تقریبا گیارہ بجے پروگرام باضابطہ طور پر شروع ہوسکا۔ حالانکہ استاذ محترم پروفیسر حبیب نثار صاحب نے اپنے تاثراتی خطاب میں اس تاخیر پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ میرے خیال سے یہ مختصر سی تاخیر چنداں قابل اعتناء نہیں ہے کیونکہ ہم اردو والے ہیں اور تاخیر شاید ہمارا پیدائشی حق ہیں۔ اس پر اعتراض کا کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہے۔پروگرام کی صدارت ماہر دکنیات مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اسکول آف ہیومنٹیز کے ڈین اور صدر شعبہء اردو پروفیسر ڈاکٹر نسیم الدین فریس صاحب نے فرمائی جب کہ ایم فل اسکالر کفیل احمد نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ سب سے پہلا مقالہ برادرم حافظ عبیدالرحمن صاحب نے “ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور:بحیثیت ماہر لسانیات” پیش کیا۔ تمہیدی گفتگو میں آپ نے ڈاکٹر زور کی تعلیم و تربیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر زور کی تحقیقات کے حوالے سے صوتیات اور لسانیات پر بہترین بحث کی اور بحیثیت ماہر لسانیات ڈاکٹر زور کے مقام کی تعیین کی کوشش کی۔”دکنی ادب کی تحقیق میں ڈاکٹر زور کا حصہ” کے عنوان سے شیخ نیاز الدین صابری نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ آپ نے مخلتف تحقیقی کاوشوں کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ دکنی ادب کی تحقیق میں ڈاکٹر زور نے جس قدر خدمات انجام دی ہیں اتنی کاوشیں کسی اور محقق کی نہیں ہیں۔ “تذکرہ مخطوطات” کے حوالے سے بھی آپ نے عمدہ گفتگو کی۔نورالنساء صدیقی جو ناندیڑ یونیورسٹی سے تشریف لائی تھیں، آپ نے “ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور : بحیثیت افسانہ نگار، گولکنڈہ کے ہیرے کے خصوصی حوالے سے” کے عنوان سے اپنا گراں قدر مقالہ پیش کیا۔ آپ نے ڈاکٹر زور کے افسانوں کا انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ جائزہ لیا۔ انھوں نے بتایا ڈاکٹر زور نے زیادہ تر افسانے تاریخی نوعیت کے لکھے ہیں اسی لیے بہت سارے ناقدین نے انھیں افسانہ نگار ماننے کے بجائے تاریخی مرقع نگار مانا یے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے سماجی کرداروں کو بھی اپنے افسانوں کا حصہ بنایا ہے۔ مقالہ نگار کا ماننا تھا کہ گو ڈاکٹر زور کے بیشتر کردار تاریخی ہیں لیکن ان افسانوں میں افسانے کے لوازم اور فنی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے انھیں افسانہ ہی تسلیم کرنا چاہیے۔ انھوں نے ڈاکٹر زور کی افسانوی کائنات کی بازیافت پر بھی زور دیا۔ہمارے اپنے ڈپارٹمنٹ کے پی ایچ ڈی اسکالر اویس احمد کے مقالے کا موضوع “ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور : بحیثیت محقق” تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر زور کی تحقیقی کاوشوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ معراج العاشقین کا قضیہ سب سے پہلے ڈاکٹر زور نے ہی حل کیا تھا۔ انھوں نے مخلف شواہد کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ معراج العاشقین کے مصنف خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نہیں بلکہ وہ درحقیقت مخدوم شاہ حسینی کی تصنیف ہے۔ ساڑھے بارہ بجے چوتھا مقالہ مکمل ہوا جس کے بعد چائے کا وقفہ تھا اس لیے چائے پینے کے لیے ہم لوگ باہر نکل آئے۔پونے ایک بجے چائے کا وقفہ ختم ہوا تو ایم اے فائنل کی طالبہ نصرت بانو نے سلائیڈس کے ذریعے اردو ایسوسی ایشن کی تاریخ پیش کرتے ہوئے اردو ایسوسی ایشن کے تمام صدور اور نگراں کی تصاویر اور ان کی صدارت و نگرانی کے دورانیوں کی تفصیلات بھی پیش کیں۔ انھوں نے سلائیڈس ہی کے ذریعے اردو ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقد ہونے والے تمام ادبی اجلاس، تہنیتی پروگراموں اور مختلف دانشوران ادب کی حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی آمد کے موقع پر منعقدہ اجلاس وغیرہ کی تفصیلات کا اشتراک بھی کیا۔صدر شعبہء اردو پروفیسر ڈاکٹر حبیب نثار نے تمام مقالہ نگاران کے مقالوں پر اجمالی تبصرہ پیش کیا اور انھیں نصیحتوں سے بھی نوازا۔ انھوں نے خاص طور پر اسکالرز کو وقت سے حاضر ہونے کی تلقین کی۔صدر اجلاس جناب پروفیسر ڈاکٹر نسیم الدین فریس نے خطبہء صدارت میں طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ آپ نے بتایا کہ اس وقت مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ایک پروگرام چل رہا ہے لیکن اس کے باوجود میں صرف اس لیے اس پروگرام کو چھوڑ کر یہاں چلا آیا کہ طلبہ کی دل شکنی نہ ہو اور وہ ہمت نہ ہاریں۔ انھوں نے ایچ سی یو سے اپنی قلبی وابستگی کا بھی اظہار کیا۔ تمام مقالہ نگاران کے مقالوں پر الگ الگ آپ نے بہترین گفتگو کی اور ان کی اغلاط کو خیرخواہانہ انداز میں نمایاں کرتے ہوئے انھیں بہترین مشوروں سے بھی نوازا۔ انھوں نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی ریسرچ اسکالر کو عمومی اور ہمہ گیر موضوعات کے بجائے یک جہتی موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ ان کا تمام تر ارتکاز کسی ایک چیز پر ہو اور وہ اسے کما حقہ بیان کرسکیں۔ اپنے صدارتی خطاب میں اویس احمد کے مقالے پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے معراج العاشقین کے مصنف کے بارے میں اویس احمد کا رد کیا اور بتایا کہ اس دریافت کا سہرا ڈاکٹر زور کے سر نہیں ہے بلکہ جدید تدوین کے حاشیے میں مرتب نے یہ بات لکھی ہے، نہ کہ ڈاکٹر زور نے۔ انھوں نے شکرگزاری اور مفید مشوروں کے ساتھ صدارتی خطاب کو ختم کیا۔صدارتی خطاب کے بعد ایم اے فائنل کی طالبہ عطیہ نفیس نے سپاس نامہ پیش کیا۔ اور اس طرح سیمینار کی پہلی نشست اختتام پزیر ہوئی۔ دوسری نشست 2:30 پر شروع ہوگی۔
دانش اثری، مئو