افسانہ افسانوی نثر

افسانہ ــ ضدی، از سعید آفتاب

جی این کے اردو

سعیدآفتاب 

افسانہ۔۔۔۔ضدی

ماسٹر جی کو میں نے ان دنوں دیکھا جب ان کے جلال و جمال کے چرچے عام تھے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھا بلکہ انھوں نے پرائیویٹ اسکول میں ملازمت شروع کی اگرچہ اسکول میں ان کی تنخواہ قلیل تھی لیکن انہوں یہ درس و تدریس کی خدمات کی خاطر یہ سلسلہ جاری رکھا۔اس نوکری سے ان کی ذہانت کا چرچہ پورے علاقے میں پھیل گیا ۔ ماسٹر جی میں غرور تھا نہ تکبر ،وہ بچوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت، نرمی اور ہمدردی سے پیش آتے تھے۔سبھی انھیں بہت پیار کرتے تھے۔ وہ خود بھی خوش مزاج، ملنسار اور رحم دل انسان تھےلیکن اصول کے پکے تھے۔ہر ایک کو اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے تھے اور اگر کسی بچے کو سمجھنے میں دشواری ہوتی تو ماسٹر جی فرصت کے اوقات میں دوبارہ سکھانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ان کی خاص خوبی تھی اگرچہ بہت سے اساتذہ ان حرکتوں پر تنقید بھی کرتے تھے اور انہیں بیوقوف بھی کہتے تھے لیکن ماسٹر جی ان باتوں کو نظر انداز کرکے اپنا کام کرتے رہے۔ کافی محنت اور والدین کی دعاؤں سے تین سال کے بعد انہیں سرکاری ملازمت مل گئی ۔یہ ان کی زندگی کا یادگار دن تھا۔جو انھوں نے اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ خوشی میں منایا۔ گھر والوں کو اب ان کی شادی کی فکر ہونے لگی۔ ماں نے کہیں لڑکیاں دکھائیں مگر صاحب زادے کو کوئی لڑکی پسند ہی نہیں آ رہی تھیں  ، وہ اس لیے کہ ماسٹر جی نے اپنی پسند کی لڑکی کے لیے ایک لمبی لسٹ بنائی تھی۔اس لسٹ کے حساب سے ہر ایک لڑکی میں کوئی نہ کوئی عیب نظر آتا تھا۔ماسٹر جی آج پھر کسی کو دیکھنے گئے تھے۔ آدھے گھنٹے کے انٹرویو کے بعد ما سٹر جی نے اس میں وہ ساری خوبیاں پائیں جو انہوں نے اس لسٹ میں لکھی تھی اس لیے انہوں نے لسٹ پھاڑ دی۔ کچھ مہینوں کے بعد شادی ہو گئی۔ماسٹر جی  نے شادی کی پہلی رات اپنی بیوی جمشیدہ کو اپنے لسٹ کی باتیں یاد دلائی۔ انہوں نے بھی ایک شریف اور عقلمند بیوی کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا مجھے سب یاد ہے ۔ خاص طور پر میں آپ سے وفا کروں۔آپ کی مرضی کے خلاف کبھی نہ جاؤں۔ یہی باتیں آپ نے  لسٹ میں بار بار لکھی۔ میں وعدہ کرتی ہوں ۔اس پر عمل پیرا رہوں گی۔ ماسٹر جی بہت خوش ہوگئے۔اس خوشی میں انھوں نے جمشید کو گلے لگایا اور ان کا شکریہ بھی کیا۔  ایک سال گزرنے جانے کے بعد انہیں ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام نوید رکھا گیا کیونکہ یہ ان دونوں کی خوشی اور مسرتوں کا ٹھکانہ تھا۔ ڈاکٹروں نے دوسرا بچہ نہ ہونے کی خبر بھی دی۔ دونوں میاں بیوی اس کی محبت میں مدہوش ہونے لگے ۔ ماسٹر جی اسکول سے آتے ہی اس ننھی سی جان کو گلے لگاتے اور شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ پھر کپڑے بدلتے اور کھانا کھاتے تھے۔ کبھی کبھی وہ ماسٹر جی کے کپڑے بھی گندے کرتا تھا لیکن اس گندگی کو وہ عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔جمشیدہ کبھی کبھی دن میں کئی بار نوید کے کپڑے بدل دیتی تھی۔اس سے بھی دل نہیں بھرتا تھا۔ ان کے پاس نئے نئے قیمتی  کپڑے ، بے شمار قسم کے جوتے جو ابھی کسی کام کے نہیں تھے۔مختلف قسموں کے پوٹرطرح طرح کی سنٹ، عطر اور پورا کمرہ کھلونوں سے بھرا ہوتا تھا۔  دن گزرتے گئے اب نوید اسکول جانے لگا ۔ماسٹر جی انھیں اپنے ساتھ لاتا بھی تھا اور دونوں اکٹھے واپس بھی آتے تھے ۔جمشیدہ واپس آنے پر نوید کو بہت سارا پیار کرتی تھی اور مختلف قسم کے پکوان کھلاتی تھی۔نوید کی ہر مانگ بھی پوری کرتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے نوید بڑھتا گیا اس کی مانگیں بھی بڑھتی رہیں۔اور نہ ملنے پر وہ غصہ بھی کرتا رہتا ۔کبھی کبھی غصے میں آکرچائے کی پیالی کو دیوار پر مارتا ، ٹیلی وژن کا ریموٹ توڑتا، اور پھر آہستہ آہستہ اسکول کا کام نہ کرنا،جھوٹ بولنا اپنی غلطیوں کو چھپانا اور چھوٹی موٹی گالی گلوچ کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو مارنا پیٹنا بھی لگا تھا۔ اگرچہ ماسٹر جی نے اسے کہیں بار ڈانٹ ڈپٹ کی اور کئی بار مارا بھی لیکن ہر بار جمشیدہ نے اس کی طرفداری کرکے اسے بچایا اور اس پر دونوں کے درمیان تو تو میں میں ہوتی رہتی ۔ جمشید اکثر اپنے بیٹے کی طرف داری کرتی تھی ۔ شاید وہ نوید سے بے پناہ محبت کرتی تھی ۔آٹھویں جماعت پاس کرنےکے بعد نوید نے موبائل فون کی ضد کی اگرچہ پانچویں جماعت میں ہی اسے موبائل فون لایا گیا تھا لیکن وہ اب پرانا ہو چکا تھا ۔نوید نے اب ایک اچھے اور قیمتی فون کی مانگ کی تھی۔ جو تقریبا چالیس ہزار میں آتا تھا ماسٹر جی نے اسے پہلے والے فون پر بھی اعتراض کیا تھا اور اب یہ سوال ہی نہیں تھا کہ وہ اس پر راضی ہو جائے۔لیکن جمشیدہ نے ماسٹر جی کوکہا۔۔۔ آپ کتنے کنجوس ہو، میری  سہیلی سچ کہتی تھی کہ ماسٹر کنجوس ہوتے ہیں۔ ایک ہی تو بیٹا ہے ہمارا۔آپ بدل گئے ہو، آپ مجھ سے پہلی سی محبت نہیں کرتے۔ آپ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔میری ہر مانگ پوری کرتے تھے۔ ہمارے پاس کروڑوں کی جائیداد ہے پھر کس لیے ۔جو میرے بیٹے کی ضد پوری نہ کر سکیں۔ میں تو اسی کو دیکھ کر زندگی گزارتی ہوں۔ اگر اس کی ضد پوری نہ ہوئی تو میں کھانا پینا چھوڑ دوں گی۔ ماسٹر جی نے انھیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن جمشیدہ کہاں سمجھنے والی تھی۔ماسٹر جی نے شادی کی پہلی رات کی قسم بھی یاد دلائی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ماسٹر جی سمجھ گئے بیٹے کی محبت اس پر غالب آگئی ۔ماسٹر جی نے جمشیدہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا اور کہا آپ کیسی باتیں کرتی ہو، کیا میں آپ دونوں سےمحبت نہیں کرتا۔ میں نوید کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں لیکن محبت میں تجاوز نہیں کرتا۔استاد ہونے کے ناطے میں جانتا ہوں اس کے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔میں ہی تو بچوں کو اس کا درس دیتا ہوں ۔آپ کو نہیں لگتا نوید دن بہ دن بگڑتا جارہا ہے۔ اس کی ضد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔کیا آپ کو اس کی فکر نہیں۔آپ کچھ بھی کہوں میں والد ہونے کے ساتھ ایک استاد بھی ہوں اور میں ایک استاد کے فرائض جانتا ہوں۔ جمشیدہ یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئی۔ اچھا تم میرے بیٹے کی مانگ پوری نہیں کروگئے۔ان کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں ۔ ماسٹر جی نے بیوی کا غصہ دیکھ کر ماسٹر جی مجبور ہوگئے۔  نوید کو ایک نیا فون مل گیا وہ رات رات بھر موبائل کے ساتھ مصروف رہتا۔ اب صبح مجبوراً ا سے اٹھانا پڑھتا تھا۔ ماں کی بے پناہ محبت کی وجہ سے وہ پوری طرح ضدی ہوگیا تھا ۔اس کے نخرے دن بدن بڑھنے لگے۔اس کی عادتیں بد سے بدتر ہوتےگئے۔دسویں جماعت میں اگرچہ نمبرات بہت کم آئے لیکن پھر بھی نوید یہ ضد کر بیٹھا کہ مجھے ایک موٹر سائیکل چاہیے۔حالانکہ گھر میں اسی ضدی کی وجہ سے ایک گاڑی بھی آگئی تھی ۔ لیکن سال بھر چلانے کے بعد چھوڑ دی۔ جمشیدہ اور ماسٹر جی کے درمیان اگرچہ اس کی وجہ سے نظریاتی اختلاف ہوگیا تھا ۔ نوید کی وجہ سے وہ دونوں دو دو مہینے بھی ایک دوسرے کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے اور کبھی کبھی ماسٹر جی سے پوچھے بغیر جمشیدہ نوید کو ہزار روپیے دے دیتی تھی۔ لیکن اب نوید موٹرسائیکل کی ضد کر بیٹھا تھا ۔جس کی قیمت دو لاکھ سے زیادہ تھی۔ اگرچہ ماسٹر جی کی لیے یہ کوئی بڑی رقم نہیں تھی لیکن وہ اس کی نوعمری اور ضدی پن کی وجہ سے خریدنا نہیں چاہتے تھے۔ماسٹر جی کچھ بولنے ہی والے تھے ۔جمشیدہ نے کہا میں نے ہی اسے وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کو اس بارموٹر سائیکل لاؤں گی۔میں آپ سےکوئی بحث کرنا نہیں چاہتی کیونکہ ہم اکثر بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں اور اب یہ ہمارا معمول بن چکا ہے۔میں نے اسے وعدہ کیا ہے۔ آپ کے پاس صرف دو راستے ہیں یا اسے موٹرسائیکل لاکر دو یا مجھے زہر دے دو ۔ یہ سنتے ہی ماسٹر جی کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ماسٹر جی نے کہا ۔۔تم بھی بڑی ضدی ہو گئی ہو ۔میں آپ دونوں سے بے پناہ محبت کرتا ہوں لیکن تم نہیں سمجھتی ۔ماسٹر جی نے اسی وقت موٹر سائیکل کا انتظام کیا۔نوید اگرچہ والد سے بہت کم گفتگو کرتا تھا۔وہ اس لیے کہ ایک بار دونوں میں کسی بات کو لے کر تو تو میں میں ہوگی اور نوید نے ہاتھ اٹھانے کی کوشش بھی کی لیکن جمشیدہ دونوں کے درمیان آ کر نوید کو دو تماچےمارے اور وہاں سے بھگا دیا۔ تب سے ان دونوں میں گفتگو کم ہو رہی ہے لیکن اپنی پسند کی موٹر سائیکل دیکھ کر ماسٹر جی کا شکریہ ادا کیا ۔جمشیدہ کے گلے لگ گیا اور چابی لے کر دوستوں کے ساتھ نکل گیا ۔چار گھنٹے کے بعد ماسٹر جی کو ایک کال آئی۔ ماسٹر جی، ماسٹر جی میں۔ میں۔ ہسپتال سے بول رہا ہوں آپ کے بیٹے نوید کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے خون بہت بہہ چکا ہے۔سر پر گہری چھوٹ آگئی ہے اور جس کی وجہ سے وہ کوما میں چلا گیا۔ ماسٹر جی کا اتنا ہی سننا تھا وہ زور سے زمین پر گر گئے۔ اور جمشیدہ کو پکارنے لگا جمی جمی ہم برباد ہوگئے نوید کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔یہ سننا ہی تھا کہ جمشیدہ نے اپنے منہ پر طمانچے مارے اور کپڑے پھاڑنے لگی اور زور سے چیخنے چلانے لگی۔ماسٹرجی نے انھیں کسی طرح سنبھالا اور ہسپتال پہنچادیا۔ وہاں ان دونوں نے جب نوید کی حالت دیکھی تو زار و قطار رونے لگے۔ڈاکٹروں نے دلاسہ دے کر کہا اب آپ سرجری کی تیاری کریں۔اس کے سر پر گہری چوٹ لگی ہے۔آپریشن کے لیے پچاس لاکھ جمع کرنے ہونگے ۔آپ رقم لانے کا انتظام کیجئے۔ماسٹر جی نے آنن فانن پچاس لاکھ روپے جمع کیے۔ اور پھر آپریشن کیا گیا ۔ ہر ایک بزرگ سے دعائیں کروائی گئی، غریبوں مسکینوں میں لاکھوں روپے بانٹنے گئے۔ نوید کی جان بچانے کی بھرپور کوششیں کی گئی۔چوتھے مہینے کی ایک رات  ونٹلیٹر سے نوید زور زور سے ہلنے لگا۔ڈاکٹروں کا ایک ٹیم جلدی جلدی آگیا ۔اور نوید کا علاج کرنے لگے۔اس کے دل کو زور زور سے دبانے لگے۔ماسٹر یہ منظر شیشے کی چھوٹی سی کھڑکی سے دیکھ رہے تھے۔لیکن سننے سے قاصر تھے۔آدھے گنٹھے کے بعد جب ڈاکٹر صاحبان وہاں سے نکلے تو ان کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔ان کے حلق سوخ گئے تھے۔جمشیدہ نے کہیں بار پوچھا میرا نوید کیسا ہے۔ میرا لال کیسا ہے۔جب کوئی جواب نہ ملا ۔تو وہ زور زور سےچیخنے چلانےلگی۔ اپنے گریبان کو چاک کر دیا، بالوں کو نوچنے لگی، پاگلوں کی طرح حرکتیں کرنے لگی۔ہائے ہائے میرا نوید ،میں تم سے پہلےکیوں نہ میری۔ پھر زور زور سے۔۔۔ میں ضدی قاتل۔۔۔میں ضدی قاتل۔ کہہ کر ایک دم سے زمین پر گر گئی۔کچھ لوگوں نے اٹھانے کی بھی کوشش بھی کی لیکن جس کی ساری دنیا گر گئی تھی وہ کیوں کر اٹھتی۔۔۔پورا اسپتال یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر رونے لگا سب کی آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ