اخلاقی مضامین

اپنی آواز کے بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیئے از طارق اطہر حسین

جی این کے اردو ویب

۶ فروری ۲۰۲۲

اپنی آواز کے بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجیئے


’’بے شک زمین پر علماء کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں‘‘۔ (مسند احمد) آج ہمارا اسلامی معاشرہ علم کے معملات میں ایک تعلیم یافتہ فرد سے رجوع کرتا ہے جو کہ مسلہ بتانے میں اپنے فرقے کی کتابوں سے استفادہ کیا کرتا ہے اور وہ شخص عام طور پر مولوی کہلاتے ہیں۔ جس کے معنی مالک کے آتے ہیں،مالک حقیقی تو اللہ رب العزت ہے، اس لیے اس کے مجازی معنی اللہ والے کے لیے جاتے ہیں، مولانا جلال الدین رومی نے صوفیوں کی ایک جماعت بنائی تھی، جس کو مولوی کہا کرتے تھے، ایک زمانہ تک یہ لفظ وکلاء کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا، اب عام طور پر کم مذہبی معلومات رکھنے والوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، گاؤں کے امام اور مؤذن کے لیے بھی یہ لفظ مستعمل ہے، لیکن ایک اور لفظ آتا ہے جو کہ معزز لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن اب یہ عام طور پر کسی کو حقارت کے ساتھپیش کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے یہ لفظ غیر مسلموں کی جانب سے ڈاڑھی ٹوپی والوں کے لیے اور کہیں کہیں عام مسلمانوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ لفظ “ملّا” ہے۔ ان تمام لفظوں کو اس طرح لیا جانے لگا ہے جیسے کہ تمام علم دین جاننے والا شخص معتبر ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ایک شخص معتبر اسی وقت ہے جبکہ وہ عمل پیرا ہو ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہو اور آخرت پر یقین رکھتے ہوئے دین کے احکامات لوگوں پر واضح کرتا ہو۔ اپنی آواز کے بجائے اپنے دلائل کو بلند کرتا ہو۔ حق بات کی تلقین کرتا ہو اور عریانیت فحش کاموں سے روکتا ہو۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالم کہتے ہی اسے ہیں جو در پردہ بھی اللہ سے ڈرتا رہے اور اللہ کی رضا اور پسند کو چاہے رغبت کرے اور اس کی ناراضگی کے کاموں سے نفرت رکھے، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں، بے شک اللہ بخشنے والا عزت والا ہے۔ محدثین نے کم و پیش علم کی یہی تعریف کی ہے صرف وضع قطع درست رکھنے اور شرعی لباس پہننے سے کوئی عالم وحافظ نہیں ہوسکتا جس میں گہرائی سے جاننے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس لیے ’عالمِ دین‘ وہی کہلائے گا جو دینی علوم کا فہم رکھتا ہو۔ قرآنِ مجید نے علماء کے طبقے کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ کردار کا بھی ایک معیار تجویز کیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود آج ہمارے معاشرے میں ہر ایک شخص خود کو ایک معتبر عالم تصور کرتا ہے اور کسی چوراہے پر دینی رسائل بیان کرنے میں کوئی ڈر محسوس نہیں کرتا ہے۔ جب تک اس شخص کی نسبت کسی استاد سے نہیں ہوگی تب تک اسکا علم بے معنیٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حق بات کہنے سے پہلے تصدیق و تحقیق لازم ہے۔ انسان دنیا کے معملات میں تو کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتا لیکن دین اور آخرت کے معملات میں غافل ہو جایا کرتا ہے۔ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ  ( جو مجلس میں تھے )  کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس  ( دیہاتی )  نے کہا  ( یا رسول اللہ! )  میں موجود ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت  ( ایمانداری دنیا سے )  اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حکومت نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا  ( بھائیو )  تم لوگوں میں محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  )  کون سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا  (  )  محمد  (  صلی اللہ علیہ وسلم  )  یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا  ( تحقیق حال کے لیے )  آیا ہوں۔۔۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص آپ پر ایمان لایا وہ تصدیق و تحقیق کے بنا پر ہی لایا۔ بات اتنی ہی ہے کہ دلیل بلند ہو تو آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جسطرح علماء اکرام اور محدثین نے فرمایا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں دین کے احکامات سمجھنے اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے


طارق اطہر حسین عبدلحمید نگر برنپور آسنسول مغربی بنگال ہندوستان9563691626

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ