جی این کے اردو
29 دسمبر / 2021
ڈاکٹر فریدہ تبسم گلبرگہ کرناٹک ۔انڈیا
کتاب “نقش فریادی” راجہ یوسف کشمیر کا افسانوی مجموعہ ہے
“نقش فریادی” ایک تجزیاتی مطالعہ
سب پوچھتے ہیں مجھ سے میرے آشیاں کا حال
میں سب سے پوچھتا ہوں کہ گلشن کا کیا ہوا
یہ “نقش فریادی” وادئ گلپوش کے رنگین نظاروں میں منقش تلاش گمشدہ محبت امن و بہار کی متمنی ہے۔
ایک حساس اور بیدار ذہن ہمیشہ اپنے اطراف و اکناف سے باخبر رہتا ہے اس ذہن و قلب پر دستک دینے والے واقعات اور بےحسی کا المیہ اور سوئی ہوئی قوم کے مسائل سامنے ہوں تو حساس قلب اس منظر میں بصارت سے بصیرت تک سفر کرتے ہوئے تخیل کو متحرک کرتا ہے اور قلم کو جنش دیتا ہےاور اس قلم کی جولانی میں معاشرہ کی زندگی اور زندہ حقیقت کو عیاں کرتے جذبات منقش ہونے لگتے ہیں اور سارے جہاں کا درد سمٹ کر قلم کی سیاہی میں تحلیل ہوتا ہے اور ظلم و جبر کی انتہا کے خلاف احتجاج کی صدا بلند ہوتی ہے اور جب حالات کے ہاتھوں بےبس و مجبور ہوتا ہے تو خدا کے آگے “فریادی” بن کر اپنی فریاد مختلف رنگ آہ میں بیاں کرتا ہے جب زخم دل کو دست خوں میں دیکھتا ہے تو اس جہاں سے نفرت ہوتی ہے مگر اچھا تخلیق کار کے دل میں اس جہاں کو جہان امن میں تبدیل کرنے کی تمنا جاگ جاتی ہے اور خدا سے جذبات میں یہ کہلواتی ہے کہ یہ اقتباس
“اے میرے مولا اب آپ نئے سرے سے ہی کن کہہ دیجئے۔۔۔”
کس قدر درد و کرب کا احساس اس جملہ میں ہے اب سارے نقش تو کالے ہوگئے ہیں اسے پھر سے منزہ کر دوبارہ سفید کردیجئے۔ پھر سے کن کہہ دہجئے۔
کتاب نقش فریادی میں جملہ 33 افسانے ،27 افسانچے اور مائکروفکشن ہے
اس عنوان “نقش فریادی “کے تعلق سے بات کریں تو ۔۔۔
جس وادی گلشن کشمیر جنت نظیر کے غبار آلود دامن میں حالاتِ تلخئ غم ،فیروزہ ء دل میں تاراجِ شکیبائی کر تے ہیں تو روحِ حزن بارگاہِ تمنا میں حسرتِ بریدہَ لبی فریاد کرتی ہے.غنودہ و خوابیدہ ماحول میں دیدہ بینا تخیل کی وادی میں خیال برہنہ کو ملبوس معنی فراہم کرکے بسا اوقات لائق دید بناتی ہے اور درد دل کو سارے جہاں کا درد میں تبدیل کر قاری کو متحیر کرتی ہے اور غور و فکر کی دعوت دیتی ہے
ان تخلیقی متون میں سماجی و سیاسی استحصال کے خلاف احتجاج کی صدا بلند کرتا فریادی عدم اطمینان کی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہے
امن و امان کی تلاش میں سرگرداں اور تلاش گمشدہ گلشن کی بہار کا متمنی ہے۔
یہاں ظلم و استحصال کا بازار ہمیشہ سجتا ہے ہر دن کوئی فریادی اپنی فریاد لئے دستک عدل دیتا ہے مگر سازشوں کے شور میں ان کی فریاد منصب عدل تک پہنچتی ہی نہیں انصاف کی گوہار مختلف ظلم کے خلاف لگائی جاتی ہے جیسے اس کتاب میں ان کی تخلیقات میں کبھی یہ “ہول ہول” چیل کے جبر پر چوزے کی فریاد بن کر،تو کبھی مکڑی کے جال سے بچنے کی، تو کبھی گورکن کو چال سے بچنے کی ،تو کبھی گھوڑے کے آنکھوں کی بےبسی کی،کبھی ماں کی ممتا کے مختلف رنگ میں ڈوبی حسرت کی فریادیں ، کبھی لومڑی سے بچانے شیر کے اصل روپ میں آنے کی،تو کبھی نناوے فیصد کو انسان بنانے کی، کبھی راجو کے خواب کی تعبیر کی،ماجد اور امن کے واپس لوٹنے کی،کہیں کنویں سے ضمیر کو بیدار کرنے کی اواز ،کہیں ابو کی زندگی بیٹی کی انگوٹھی سے جدا نہ کرنے کی۔ مختلف صدائیں، آہیں ، جب فریادی لے کر نقش تخلیق کار ، کے پاس پہنچتا ہے تو ایک آواز سماعت سے ٹکراتی ہے۔یہ اقتباس
“اے آدم یہ تیری فریاد کیسی ہے؟ایسی فریاد تو اب عنقا ہے تم تو اب دعا کرنا بھی بھول چکے ہو۔پھر یہ تیری فریاد کیسی؟”
اس کتاب کا نقش عمدگی سے منقش ہواہے چاہے منظر نگاری ہو کہ فضا بندی ہو اور اس میں فریادی اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہے اور فریاد اپنے بیان کے ساتھ کبھی مبہم تو کبھی علامت کبھی تجرید تو کبھی دلچسپ سادہ بیانی میں پیش ہوئی ہےمتفرق رنگ لئے تخیل تخلیق میں تحلیل ہوا ہے
کشمیر کی تہذیب و ثقافت میں متفرق رنگ ابھرتے اور ڈوبتے رہے ہیں ان رنگوں میں کبھی خوشیوں کی ترنگ ہے تو کبھی رنگ میں بھنگ ہے
اس کتاب کے منتخب اور عمدہ افسانوں کی بات کی جائے تو افسانے۔نقش فریادی، مکڑی،کن فیکن،تاجو قصائی،سبیل،چیل چنار چوزے،جنگل راج
،مسیحائی، عید،روشنی کے لٹیرے، قابل داد و تحسین ہیں
ان افسانوں کی کرافٹنگ بہت عمدگی سے کی گئی ہے۔عصری منظر نامہ کی صورت گری نیم علامتی ،تجریدی و تمثیلی، اسلوب میں عیاں ہے جدید مسائل کے فکر و احساس کے ساتھ ترسیل پیغام دیا ہے بظاہر سادہ سی کہانی کا گمان ہوتا ہے مگر اس کے بطون میں گہری معنویت پوشیدہ ہے معاشرہ کی گہرائی کے ساتھ مشاہدہ کیا ہے پھر تجربہ نگاہ سے تخلیق میں تحلیل کیا ہے
کردار، نفسیاتی کیفیت کو بیان کرتے ہیں مسائل، چشم دید مشاہداتی تجربہ کا اظہاریہ ہیں
اسلوب دلکش اور تخلیقی نثر میں مقید ہے اس کے حصار میں خوبصورت وادی کے مناظر بھی ہیں اور تخلیقی جملوں میں سبک روی سے احساس کی لہر پوشیدہ ہے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں
“میں اپنے ذہن کی کینوس پر بڑے شوق سے اس کا خوبصورت پیکر تراشنا چاہتا تھا لیکن وہاں کوئی پیکر نہیں بن پا رہا تھا البتہ مبہم لکیریں ایک جالا جیسا بن رہی تھیں ۔میرے تصور کے سمندر میں اس کا عکس ڈوبتا اورابھرتا جا رہا تھا یہ ہلکا سا غیر مانوس پیکر میرے بچپن کے اس کھلونے جیسا تھا جو دکاندار کے شوکیس میں پڑھا تھا پر رات رات بھر میرے سپنوں کے ساگر میں کبھی مدھم تو کبھی جھلملاتا ابھرتا ڈوبتا رہتا تھا”
نفسیاتی کشمکش کی عمدہ عکاسی کی ہے اور تجریدی اسلوب میں لکھا گیا افسانہ ہے
“ہاں رنگوں کی تلاش میں ہوں تم میں کون کونسا رنگ بھرا ہے انھیں پہچاننے کی کوشش کررہا ہوں میں تم میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنا چاہتا ہوں “
( افسانہ۔۔۔ نقش فریادی)
ذہنی و جذباتی کیفیات محسوساتی سطح پر ایک وحدت میں تحلیل ہوگئے ہیں قافلہ ء وقت کے نقش پا پر چلتے ہوئے جسم چھلنی ہو گیا ہے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں
“قادر بٹ اور تاج بیگم کو لاتوں اور بندوقوں کے بٹوں سے ادھر موا کردیا۔اور دونوں کو زمین پر گرا کر ان چہروں کو پیروں سے دبا رکھا ۔پیروں میں مضبوط جوتے پہنے تھے ۔جن میں بڑی اور کھردری میخیں لگی تھیں ۔جوتوں میں لگی کیلیں ان کے چہروں کو زخمی کررہی تھیں۔اور وہ فوجیوں کے پیروں تلے درد سے بلبلارہے تھے فوجیوں نے ماجد کا سر اسی کی چادر سے باندھ دیا اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں اسے وہاں سے لے گئے “(افسانہ درد حد سے گزر جائے تو۔۔۔)
ان حالات پر ایک شعر یاد آیا کہ
چلا تھا میں نے خوشی بھی منالوں
غم منا نے سے ہی فر صت نہ ملی
یہ وہ منظر ہے جس سے دل دہل جاتا ہے احساس کی تجسیم کاری قاری کو مضطرب کرتی ہے
افسانے سبیل اور بزدل،چیل چنار اور چوزے،درد حد سے بڑھ جائے، روشنی کے لٹیرے وغیرہ ظلم و استحصال کی بہترین عکاسی کرتے ہیں اس کے مطالعہ سے قاری کے دل میں خوف کی لہر پیوست ہوجاتی ہے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے ہم کہاں ہیں کیا اس معاشرہ میں ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔۔؟
سماجی و سیاسی سازشیں ایک ایک فرد کو بلکہ ایک ایک گھر کو اجاڑرہی ہیں یہ اقتباس دیکھئے گا
“اب یہاں کسی چہرے پر نہ سیب جیسی لالی نظر آتی ہے۔اور نہ ہی کسی ہونٹ پر گلاب جیسی مسکان ہی کھل اٹھتی ہے نہ خوبصورت ہتھیلیوں پر حنا کا رنگ چمکتا ہے اور نہ ہی قوس و قزح ہی اپنے رنگ بکھیرنے آجاتی ہے لیکن کلر بلاینڈ لوگ اب اپنے ہی پھیلائے ہوئے اندھیروں سے خوف زدہ ہیں ۔۔”
(افسانچہ۔۔۔کلر بلائینڈ )
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
نقش جسم و جاں میں خون آشام ڈھلتی رات زندگی کے ڈگر پر اجالے کی متلاشی نظر آتی ہے یہ اقتباسات
“سجاد احمد نے اپنے گھر کی طرف دیکھنا چاہا لیکن سامنے دھواں ہی دھواں تھا جس میں اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا تھا کہ یہ اندھیرا شام کی سرمئی دھند سے سے پھیل رہا ہے یا یہ اس کی اپنی آنکھوں کی دھندلا ہٹ ہے لیکن وہ جان چکا تھا کہ پلیٹ گن سے نکلے چھرے اس کے بیٹے کی دونوں آنکھیں چھید چکے ہیں اور وہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی اندھیرے میں ڈوب چکا ہے۔۔۔”
( افسانہ “روشنی کے لٹیرے” )
“نیلوفر اور دوسری عورتیں آنسو بہاتےاس کو دلاسا دے رہی تھیں ۔وہ غمگین ہوکر واپس صحن میں اگئی۔اور چنار کی طرف دیکھنے لگی۔پو پھٹنے کے باوجود اس کی گھنی چھاوں میں ابھی بھی اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور سنائی دے رہی تھی تو چوزے کی دلخراش چیخیں ۔۔”
(افسانہ۔۔چیل چنار اور چوزے)
یہ ان مسائل کا ذکر ہے جو حالات کی سنگینی اور دہشت ناکی کے ہاتھوں مجبور خوف و ڈر میں پناہ لیتے ہیں کہ کس پل کیا ہو جائے یہ اذیت ناک ذہنی و جذباتی صورت کب نازل ہوجائے
انسان اس قدر بے حس و بے رحم ہوگئے ہیں کہ انسانیت بھول گئے۔انسان جب پورے طور پر شر کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے تو اس کا ضمیر بھی سو جاتا اس کی اچھائیاں ختم ہونے لگتی ہیں مگر کبھی کبھی ایسے حالات و واقعات سامنے آتے ہیں کہ کوئی احساس دلاتا ہے انسان میں خود احتسابی پیدا ہوتی ہے یہ اقتباس دیکھئے گا
“ارے اللہ کے بندو پہلے کنویں سے کتے کو تو نکالو تب دوا دارو کا کام کر پائے گا” یہ واقعہ تیر کی طرح سیدھا اس کے دل پر لگا وہ گہری سوچ میں پڑگیا
بہت کھوج لگائی اپنے من میں جھانک کر دیکھا تو دنگ رہ گیا یہ کتوں کے ہڑ بونگ اس کے اندر سے ہی ہو رہی تھی پرانی بستی کے سارے خارش زدہ کتے اس کے ساتھ ساتھ ہی تھے اور گندے گندے بچوں کی کلکاریاں اس کی رگ و ریشے سے ابھر رہی تھیں۔۔۔”
(افسانہ ۔۔عید)
یہاں ضمیر کی بیداری نفس امارہ کی ملامت سے نکلنے کی طرف اشارہ ہے
اس کتاب کے افسانوں ،کلونت کور کی واپسی،بےوفا
،نالایق،صرف اٹھارہ سال، بند کھڑکی کاکرب،
حصار،مہمیز،ضدی،لاک ڈاون،مانگے کا اجالا،وغیرہ کے موضوعات دور حاضر کی افراتفری، تعصبیت، دہشت اور وحشت، محبت کی متلاشی بےبس نظریں ،حسرت لئے ماضی کی یادیں، یادوں میں امیدیں، امیدوں میں لوٹتی بہاریں،امن کی چاہت ، حالات سے جوجتی زندگی، رنج و غم کو شکست دینے کی کوشش اور فتح و کامیابی کے حسرت بھرے وغیرہ ہیں
یہ تجربے کی تلخی جہاں قاری کی ذات میں دھیرے دھیرے اداسی اور افسردگی کی فضا پیدا کرتی ہے وہیں یہ تخلیقات امید کی کرن بن کر احتجاجی صدا بلند کرتے ہیں۔
“جنگل راج” فیبل کہانی بیان کی گئی ہے لومڑی اور شیر کی تمثیل معاشرہ اور حکومت پر گہرا طنز کیا گیا ہے کہ لومڑیاں شیروں کا شکار کر رہی ہیں ۔
مگر ان کے چند افسانوں میں فنی و فکری اعتبار سے “صرف اٹھارہ سال ” اور “بند کھڑکی کا کرب” میں حالات تو ہیں کیفیات نہیں صرف روداد ہے۔ “چیل چنار چوزے”۔۔۔ اس میں علامت تو ہے مگر آخر پر وضاحتیں زیادہ،”حصار “روانی تو ہے مگر اجلت کا شکار ہوا، نالائق۔۔۔۔سادگی تو ہے مگر گہرائی نہیں۔اور چند میں کردار تو ہیں مگر مکالمے جاندار نہیں اس کے باوجود کہانیاں قاری کو آخر تک باندھ کر رکھنے میں کامیاب ہے۔اس کی وجہ ان کا دلچسپ بیانیہ ہے
بعض افسانوں میں قاری کے لئے وضاحتیں افسانہ کے اثر کو کم کر رہی ہیں لیکن بعض افسانے قاری کو متحیر کر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں جیسے
“اب جج نے کسے موت کی سزا سنائی تھی۔۔مکڑی کو ۔۔۔یا احساس کو۔۔۔مکڑی تو پھندے پہ جھول گئی۔۔”
“ناقابل تنسیخ” اس افسانہ میں رومانی جھلکیوں میں حقیقت اور تخلیقی زندگی پر گہرا طنز کیا گیا ہے سوشل میڈیا کی ملاقات ہے ادیب کا تخیل ہمیشہ بلند رہتا ہے مگر حقیقت سے پرے۔۔۔۔ان سے محبت کی امید بیکار ہے۔
“کہانیاں گھڑنے والے صورت کو مورت بنانے کی فکر میں خود کو کرداروں میں گم کر جاتے ہیں اپنی ساری حرارت خیالی اپسراوں کے بھینٹ چڑھادیتے ہیں چاشنی سے لبالب سارا جوش تراشیدہ پیکروں میں انڈیل دیتے ہیں جذبات میں شدت اور شریر میں تناو کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو جنون کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جنون کے بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں تیز بہاو جب کنارے پر اچھال دیتا ہے تو ٹھنڈے پسینے میں تربتر ہوتے ہیں ۔۔۔۔تم سوچوں میں الجھے لوگ ظاہری رچاو بساو میں بہت پھیکے ہوتے ہیں “
جس قوم میں اتحاد ہو اور احساس ہو وہ قوم کبھی شکست نہیں کھا سکتی چاہے حکومتیں ہزار سازشیں کرلے حکمران ساری حکمتیں آزمانے۔۔مگر افسوس اس قوم کا المیہ یہ ہے اس کے پاس اتحاد اور احساس دونوں بھی نہیں۔۔!!
جنگل راج کے ذریعے معاشرہ کی اصلاح کا یہ پیغام خوب ہے یہ اقتباس
“اسی طرح لومڑیوں نے پہلے سارے جنگل کے واسیوں کو الگ الگ بانٹ دیا پھر ایک ایک کرکے پھر اپنے بلوائیوں سے ختم کروایا کوئی بچا بھی تو وہ دم دبا کر لومڑیوں کی خدمت میں لگ گیا اب ان کا ایک ہی طاقتور دشمن بچا تھا اور وہ تھا شیر لیکن لومڑیوں کو یہ ڈر ستا رہا تھاکہ کیا پتا کبھی ایک جٹ ہوگئے آخر ہیں تو شیر ہی ۔حالانکہ شیر بھی بکھر چکے ہیں”( افسانہ جنگل راج)
افسانہ نگار داصل بیشتر افسانوں میں اپنے علاقائی مسائل کی نشاندہی کرانے پر مجبور ہے کیونکہ سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ سامنے یہی ہوتے ہیں اس سے چھٹکارا ممکن نہیں
بگڑی ہوئی اس شہر کی حالات بہت ہے
جاوں کہاں اس سے محبت بھی بہت ہے
اسی ضمن میں ڈاکٹر ریاض توحید ی صاحب راجہ یوسف کی افسانہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں
“عصر حاضر کا تخلیق کار اگر کسی خطے کے جنگی ماحول میں سانسیں لے رہا ہوتو وہ مارڈھار،لوٹ کھسوٹ، اور بم بارود جیسی جنگی فضا میں نفسیاتی طور پر داخلی کرب اور خارجی دباو کی زد پر رہتا ہے۔۔۔”
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ راجہ یوسف زمانہ شناس افسانہ نگار ہیں اور دلچسپ موضوعات سے قاری کو متوجہ کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں اس لئے اس کتاب کا اہل ادب ضرور مطالعہ کرنا چاہیں گے اور اس کی پذیرائی کریں گے اس کتاب پر ہم صاحب کتاب کے لئے ہدیہ تبریک و تحسین پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔۔ تبسم ۔۔😊