غیر درجہ بند

راجہ یوسف اور نقشِ فریادی : تبصرہ نگار، انور آفاقی

جی این کے اردو

29 دسمبر / 2021

راجہ یوسف اور” نقش فریادی “

تحریر ۔۔۔ انور آفاقی۔

دربھنگہ کل(7ستمبر 2021 ) بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک کشمیر سے راجہ یوسف کا تازہ افسانوی مجموعہ نقش فریادی موصول ہوا تو یادوں کے جھونکوں نے ماضی کی طرف اڑاتے ہوئے سری نگر، کشمیر پہنچا دیا۔ جب نومبر 2017 میں ، ہم ( راقم الحروف اور منصور خوشتر ) شہنشاہ ہوٹل سری نگر کے کشادہ لان میں جمع تھے ۔جہاں ایک ادبی سمینار سے فراغت کے بعد ملنے ملانے کا دور چل رہا تھا۔ کئی مانوس چہروں میں بظاہر ایک اجنبی چہرہ بھی تھا ۔ اس خوبرو چہرے سے مسکراہٹ اور مسرت کی شعاعیں پھوٹ کر نہ صرف منصور خوشتر کو بلکہ مجھے بھی شرابور کر رہی تھیں ۔ پتہ چلا کہ یہ پرکشش شبیہ والا شخص کوئی اور نہیں کشمیر کا معروف فکشن و ڈرامہ نگار اور تھیٹر آرٹسٹ راجہ یوسف ہے۔ راجہ یوسف سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور پہلی ہی ملاقات میں راجہ یوسف کی دلنواز اور مقناطیسی شخصیت کا جادو یوں چلا کہ نگاہوں سے اتر کر دل و جگر تک کو سحرزدہ کر دیا ۔ اس دن یوسف اپنے شہر اننت ناگ سے سری نگرجو کوئی 60 کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے سے سرینگر صرف اس لیے آئے کہ دربھنگہ ٹائمز کے مدیر اور شاعر و ادیب منصور خوشترسےملنے کا وعدہ کرلیا تھا ۔ راجہ یوسف سے ملاقات اور گفت و شنید ہوئی اور پھر وہ رات ہی میں اپنے شہر اننت ناگ واپس ہو گئے ۔ وہ اپنے شہر تو واپس ہو گئے مگر اپنی جادوئی شخصیت اور خوش بیانی سے ہمیں بھی اپنا بناگئے ۔ “نقش فریادی” راجہ یوسف کی تیسری کتاب ہے ۔اس سے قبل ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” کاغذی پیرہن “بزبان اردو 1988ء میں شائع ہوا تھا جب کہ کشمیری زبان میں انکی ایک ضخیم کتاب” ویتھ” کے عنوان سے منصئہ شہود پر 2017 میں آ چکی ہے جوقارئین میں مقبول ہوئی اور جس کا کشمیر کے ادبی حلقوں میں بھی خیر مقدم کیا گیا ۔ اس کتاب پہ اپنی رائے دیتےہوئے ڈاکٹر ریاض توحیدی فرماتے ہیں ۔” اس کتاب میں کشمیر کے اہم تاریخی واقعات کو تخلیقی پیرایہ میں تمثیلی روپ دیا گیا ہے جو کہ ایک تو قاری کو کشمیر کی تاریخ سے متعلق جستہ جستہ واقفیت بہم پہنچاتا ہے اور دوسرا تمثیلی اسلوب کی دلکشی سے بھی نوازتا ہے ۔ تاریخی واقعات کو تمثیلی یا ڈرامائی روپ دینا اور تخلیقی پیکر میں ڈھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ فنکارانہ اسلوب کسی تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیت کا جواز فراہم کرنے میں کار آمد ثابت ہوتا ہے اور راجہ یوسف صاحب اس کسوٹی پر کھرا اترتے نظر آتے ہیں ۔”ان کی یہ تیسری تازہ ترین کتاب ” نقش فریادی” 2021 میں ایک دو ماہ پہلے شائع ہوئی ہے ۔ 252 صفحات پر محیط اس افسانوی مجموعہ میں کل 60 افسانے ہیں جن میں 27 مائکروفکشن یا افسانچے ہیں۔ جسے جی۔ان ۔کے۔ پبلیکیشن ( G.N.K. Pulication۔) نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے ۔ ہارڈ کارڈ بورڈ جلد اور اس پہ جیکٹ( گردپوش) چڑھا ہوا ہے ۔ ٹائٹل بڑا ہی خوبصورت ہے جسے شکیل احمد شکیل نے بنایا ہے۔ کتاب واقعی بہت اچھی چھپی ہے جسے دیکھ کر کوئی بھی ادب نواز مطالعہ کرنا پسند کرے گا اور اپنی شلف کی زینت بنانا بھی چاہے گا ۔ اس کا پہلا افسانہ” نقش فریادی “ہے جبکہ آخری افسانچے کا عنوان ” بو ” ہے۔”بو” ایک طنزیہ افسانچہ ہے جو گودی میڈیا کو موضوع بنا کر تحریر کیا گیا ہے۔ دراصل یہ”بو” نہیں بلکہ” بدبو” ہے جو گودی میڈیا کے اینکروں کے منہ سے ہمیشہ ہر پل خارج ہوتا رہتا ہے۔ اس مجموعہ کا انتساب راجہ یوسف نے اپنے مرحوم والد محمد شعبان بٹ کے نام کیا ہے جن سے انہوں نے سب سے پہلے ادب سمجھا اور سیکھا ہےاور ان کو ہی اپنا پہلا استاد مانتے ہیں ۔ افسانو کی فہرست کے بعد ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کا تفصیلی پر مغز مضمون بعنوان راجہ یوسف کی افسانہ نگاری ہے جو صفحہ 9 سے صفحہ 20 تک پھیلا ہوا ہے۔ گرد پوش کے اندرونی حصے پہ ممتاز فکشن نگار ناول اور ڈرامہ نگار نور شاہ نے نقش فریادی کیےلئے اپنے نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے لکھا ہے ” چند برسوں کے دوران ریاست جموں و کشمیر میں افسانوی افق پر جو نئی فکر اور نئے خیال افسانہ نگار نمودار ہوئے ہیں ان میں راجہ یوسف کا نام نمایاں ہے۔ بیک کوور پر موجودہ عہد کا معتبر اور ممتاز ناقد حقانی القاسمی کا صرف تیرہ جملوں پر مشتمل مختصر مگر جامع اور نہایت وقیع تعارف نامہ ہے۔ وہ رقم طراز ہیں ۔۔۔۔۔”تصادم کو تفاہم اور تضاد کو تطابق میں بدلنے کا ہنر ہر کسی کو نہیں آتا مگر کشمیر سے تعلق رکھنے والے باشعور افسانہ نگار راجہ یوسف نے اپنے افسانوں میں اسی تخلیقی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے “۔بحیثیت افسانہ نگار راجہ یوسف نے نہ صرف کشمیر بلکہ جہاں جہاں ان کے افسانے شائع ہوئے قارئین میں اپنی ایک خاص امیج بنائی ہے ۔ اور اب ساری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں ایک ایسا تخلیق کار نظر آتاہے جس نے کھلی آنکھوں اور جاگتے شعور کے ساتھ واقعات و حالات کا بغور مشاہدہ کیا پھر قلم کو فکر کے حوالے کر کے اندرون کی آواز کو سنا اور پھر جو کچھ ایک حساس اور بالغ النظر ادیب کولکھنا چاہئے وہ لکھا ۔وہ اپنے افسانوں میں اپنے ارد گرد ہونے والے تمام مناظر کو سمیٹ کر قرطاس پر بکھیر دینے کا ہنر رکھتےہیں ۔ان کے افسانوں میں جا بجا دل کی بے ربط دھڑکنوں کی صدا ، ہواؤں اور فضاؤں میں اڑتے ہوئے منتشر کانٹے اور انکی چبھن سے بے نور ہوتی آنکھیں ،اور چناروں کے پتوں سے سرخ ہوتی زمینیں کچھ اس طرح نظر آتی ہیں کہ قاری انکے افسانوں کی قراۃ پر مجبور ہو جاتاہے۔یوسف کے چند افسانے جن میں گہرے مشاہدے کی جھلک قارئین کو نظر آئے گی، ان میں “سبیل” “نقش فریادی “، ” بند کھڑکی کا کرب “، “چیل، چنار اور چوزے “، ” کن فیکون” ،” تاجو قصائی” ، “مکری ” ، “کلونت کور” اور ” روشنی کے لٹیرے ” کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔ان کا افسانہ” ناقابل تنسیخ” ایک بہترین رومانی افسانہ ثابت ہوگا اس کا مجھے یقین ہے ۔ ان کے چند افسانے حقیقی واقعات پر مبنی ہیں جنکو افسانوی رنگ میں بڑی خوبی سے پیش کیا گیاہے ۔ان میں گمشدہ نوجوانوں کے لئے” کھڑکی کا کرب” فوج کی پلیٹ سے بے نور ہو گئی آنکھوں کے لئے “روشنی کے لٹیرے “کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ افسانوی ادب کو راجہ یوسف سے بہت ساری آشائیں ،امیدیں لگی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ مستقبلمیں کئی اور عمدہ افسانوی مجموعے راجہ یوسف اپنے قارئین کو دینگے۔ انور آفاقی۔ دربھنگہ 8ستمبر 2021.

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ