جی این کے اردو
28 دسمبر / 2021
تصّوف میں ملاوٹ
قسط نمبر ٣
تصّوف جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں،تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سکھاتا ہے تاکہ ہمارے نفس پاک ہوجاٸیں اور ہم کامیابی حاصل کرسکیں۔یہی تعلیم ہمیں قرآن سے بھی ملتی ہے جس پر”قد افلح من زکٰھا“ گواہ ہے۔یونانی فلسفہ اور ہندو ویدانت ہمیں ایسا کچھ سکھا نہیں سکتے۔اپنیشدوں میں جو تصوف ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ”گیان“اور ”دھیان“سے خدا کا وصل نصیب ہوتا ہے اور انسان کی زندگی کا مقصد ”دیدارِ حق“ ہے۔جس کو دیدار حاصل نہ ہوسکا اس کا جیون برباد اور اکارت ہوگیا۔برہمن کو پانا اور اس کی ذات سے اتصال ان کی زندگی کا مقصد ہے۔بھگوت گیتا کے مطابق ”عارف“ ہی انسان کامل کا مصداق ہے جسے مختلف القاب سے یاد کیا گیا ہے۔مثلاً ”جوگی“ یعنی واصل بالللہ ”بھگت“ یعنی طالب مولیٰ”منافی“ یعنی عارف۔ایسا ہی تاریخ تصوف میں یوسف سلیم چستی نے بھی لکھا ہے۔یونانی فلسفے کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کا اصلی مقصد اصل مبدا ٕ کی طرف بازگشت ہے اور خدا سے واصل ہونے کا طریقہ عشق ہے۔ہندو ویدانتی فلسفہ،ایران کے مانی مذہب کی تعلیمات اور یونانی فلسفے کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کی روح ترقی کرکے خدا کی ذات میں گُم ہوسکتی ہے۔یہی فلسفہ اور تعلیمات جب عربی میں منتقل ہوکر تصوف میں نفوذ کرگٸیں تو کچھ عجیب قسم کا تصوف وجود میں آگیا۔۔صوفی اس فلسفے پر عمل کرتے کرتے ”اتحاد اور حلول“ پر یقین کرنے لگے جوکہ سراسر کتاب و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے ،اسی کے نتیجے میں ”وحدة الوجود“ کا فلسفہ وجود میں آگیا۔حلولیوں نے یہ بھی غلطی کی کہ اوصافِ حق اور اوصافِ خلق میں امتیاز ہی باقی نہیں رکھا۔اسی طرح ”فنا“ کی تعبیر کرنے والے کچھ وجودی صوفیا نے غلطی کا ارتکاب کیا کیونکہ از روۓ قرآن خدا تو خدا ہے۔اس جیسی کوٸی شۓ ہی نہیں ہے ”لَیسَ کمثلہ شٸٍ“۔علامہ اقبال نے کیا خوب ردِّ عمل ظاہر کیا ہے۔
”ہندی اور ایرانی صوفیا میں اکثر نے مسٸلہ فنا کی تفسیر ویدانیت اور بُدھ متکے زیرِ اثر کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ ٕ محض ہے۔میرے عقیدے کی رُو سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک ہے“
۔۔جاری ہے۔۔۔
مقبول فیروزی