تصوف مضامین

عشق اور تصوف از محمد ہاشم القاسمی

جی این کے اردو

*عشق اور تصوف *

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) 

فون نمبر :- 9933598528 عشق کے لغوی معنی تو پھٹ جانے کے ہیں، مگر تصوف کی اصطلاح میں عشق کی تعریف دراصل تیقن کے انتہائی مقام کی صورت میں کی جاتی ہے، عشق کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے تصوف کا علاقہ اس لئے مستعار لیا گیا کہ عشق کی وضاحت پر سب سے زیادہ علمی کام اب تک صوفیا کرام ہی کر سکے ہیں. 

  ایک صوفی عشق کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں، “عشق اُس آگ کا نام ہے جو عاشقوں کے دل اور سینے میں جلتی رہتی ہے، اور خدا کے سوا جو کچھ ہے اُسے جلا کر خاکستر کر دیتی ہے” اور یہی کیفیت ایک انسان کی دوسرے انسان کے لیے بھی بیدار ہو سکتی ہے، جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشق مجازی کہتے ہیں. 

   تصوف کے آغاز کے بارے میں کچھ نظریہ دان ان پہلوؤں کو تین اقسام میں دیکھتے ہیں؛ (1)جسمانی پہلو ، (2)عقلی پہلو اور (3)روحانی پہلو؛ یہ تیسرا پہلو ہی ہے جس پر اختصاص حاصل کرنے والوں کو صوفی کہا جانے لگا۔ اسی بات کو تصوف سے تعلق رکھنے والے علما بھی ایک حدیث کے حوالے سے روایت کرتے ہیں، جس میں اسلامی تعلیمات کے ان تین پہلوؤں کا ذکر آتا ہے. 

   احسان کے بارے میں عبارت یوں ہے ، “احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ یقینا تجھے دیکھ رہا ہے” ۔

  تصوف کے لئے احسان اور روح کے علاوہ بھی متعدد الفاظ بطور متبادل استعمال میں دیکھے جاتے ہیں، مثال کے طور پر صوفیا کے نزدیک تزکیۂ نفس، علم السلوک اور تہذیب نفس بھی تصوف کے ہی مختلف نام ہیں۔ مذکورہ بالا تمام افکار و طریقہ ہائے کار اصل میں پیغمبر اسلام ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے ہی رائج ہیں، اور ان کو اسلام ہی کی تعلیمات کہا جاتا ہے. 

    عرفِ عام میں عشق کی دو ہی صورتیں ہیں یعنی عشق مجازی اور عشق حقیقی. 

   عشقِ مجازی دراصل ایک انسان کے مکمل وجود یا کسی ایک حصے سے شدید پیار کرنا اور اپنی طلب کو وجودِ محبوب کے دائرے تک محدود رکھنا ہے، دوسرے لفظوں میں کسی ایک بنی نوع انسان کے لیے اپنے آپ کو اس کی خواہشات کے مطابق ڈھال لینا یا وقف کر دینا عشق مجازی ہے. اور عشقِ حقیقی میں محبوب کے وجود سے ماوراء ہو کر اُس کی ذات کا طالب بن جانا ہے. اس صورت میں محبوب کا وجود، موجود ہونا لازم نہیں، کیونکہ یہاں وجود کی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی. (وکیپیڈیا) 

  عشق حقیقی اور عشق مجازی کی ایک تعریف یہ بھی کی جاتی ہے کہ “اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے، اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے. 

 عشق حقیقی کو سمجھنے کے لئے صاحب مثنوی مولانا روم کا ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ فرمائیں، مولانا روم ایک مرتبہ بازار سے گزر رہے تھے، سامنے کیرانے کی ایک دکان تھی، ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی اور دکاندار وارفتگی کے عالم میں اس خاتون کو دیکھ رہا تھا، وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتی، دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ چیز نکالنے لگتا اور اس وقت تک وہ چیز تھیلے میں ڈالتا جاتا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی، اور دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھا دھند چیز نکال کر تھیلے میں ڈالنے لگتا، یہ عجیب منظر تھا دکاندار وارفتگی کے ساتھ اس گاہک کو دیکھ رہا تھا اور وہ گاہک انگلی کے اشارے سے دکاندار کو پوری دکان میں گھما رہا تھا اور دکاندار “اٰلہ دین” کے جن کی طرح چپ چاپ اس کے حکم پر عمل کر رہا تھا، خاتون نے آخر میں لمبی سانس لی اور دکاندار کو حکم دیا “چلو بس کرو آج کی خریداری مکمل ہو گئی” پھر دکاندار نے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے منہ بند کئے پھر یہ تھیلیاں ایک بڑی بوری میں ڈالیں، بوری کندھے پر رکھی اور خاتون سے بولا “چلو زبیدہ میں سامان تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں۔” خاتون نے نخوت سے گردن ہلائی اور پوچھا “کتنا حساب ہوا؟ ” دکاندار نے جواب دیا “زبیدہ عشق میں حساب نہیں ہوتا” خاتون نے غصے سے اس کی طرف دیکھا واپس مڑی اور گھر کی طرف چل پڑی، دکاندار بھی بوری اٹھا کر چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا۔

  مولانا روم یہ منظر دیکھ رہے تھے دکاندار خاتون کے ساتھ چلا گیا تو مولانا روم دکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے اور شاگرد گلی میں کھڑے ہو گئے، دکاندار تھوڑی دیر بعد واپس آگیا، تو مولانا روم نے دکاندار کو قریب بلایا اور پوچھا “یہ خاتون کون تھی؟” دکاندار نے ادب سے مولانا روم کے ہاتھ چومے اور بولا “جناب یہ فلاں امیر خاندان کی نوکرانی ہے۔”مولانا روم نے پوچھا “تم نے اسے بغیر تولے سامان باندھ دیا پھر اس سے رقم بھی نہیں لی کیوں؟”

 دکاندار نے عرض کیا “مولانا صاحب میں اس کا عاشق ہوں، اور انسان جب کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے، تو پھر اس سے حساب نہیں کر سکتا”

  دکاندار کی یہ بات سیدھی مولانا روم کے دل پر لگی، وہ چکرائے اور بیہوش ہو کر گر پڑے، شاگرد دوڑے مولانا روم کو اٹھایا ان کے چہرے پر عرقِ گلاب چھڑکا، ان کی ہتھیلیاں اور پاؤں رگڑے مولانا روم نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں۔دکاندار گھبرایا ہوا تھا وہ مولانا صاحب پر جھکا اور ادب سے عرض کیا “جناب اگر مجھ سے غلطی ہو گئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔”مولانا روم نے فرمایا “تم میرے محسن ہو، میرے مرشد ہو، کیونکہ تم نے آج مجھے زندگی میں عشق کا سب سے بڑا سبق سیکھا دیا ہے ” دکاندار نے حیرت سے پوچھا “جناب وہ کیسے؟ “مولانا روم نے فرمایا “میں نے جانا تم ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر حساب سے بیگانے ہو. جبکہ میں اللہ کی تسبیح بھی، گن گن کر کرتا ہوں، نفل بھی گن گن کر پڑھتا ہوں، اور قرآن مجید کی تلاوت بھی اوراق گن گن کر کرتا ہوں، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالٰی سے عشق کا دعوٰی کرتا ہوں، تم کتنے سچے عاشق ہو، اور میں کس قدر جھوٹا عاشق ہوں۔”

مولانا روم وہاں سے اٹھے اور اپنی درگاہ پر واپس آئے اور اپنے استاد حضرت شمس تبریز کے ساتھ مل کر عشق کے چالیس اصول لکھے۔ ان اصولوں میں ایک اصول “بے حساب اطاعت” بھی شامل تھا۔

یہ مولانا روم تھے، اور یہ پوری زندگی اپنے شاگردوں کو بتاتے رہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں نعمتیں دیتے ہوئے حساب نہیں کیا، چنانچہ تم بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے حساب نہ کیا کرو، اپنی ہر سانس کی تار اللہ کے شکر سے جوڑ دو، اس کا ذکر کرتے وقت کبھی حساب نہ کرو، یہ بھی تم سے حساب نہیں مانگے گا اور یہ کُل عشقِ الٰہی ہے-

   بعض اہل تصوف کے ہاں یہ تصور موجود ہے کہ عشق مجازی، عشق حقیقی کی سیڑھی ہے۔ عشق مجازی سےمراد وہ عشق ہے جو انسان کو کسی اور انسان سے ہو جاتا ہے اور عشق حقیقی سے مراد وہ عشق ہے جو انسان کو اللہ تعالی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر عشق مجازی صنف مخالف سے ہوتا ہے، مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی جنس کے دوافراد کے مابین ایسا عشق ہو جائے۔ اپنے پیرومرشد سے سبھی صوفی عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ صوفی کے خانقاہوں میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ آتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑی عمر کا کوئی شخص کسی کم عمر خوبصورت لڑکے پر عاشق ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے شیخ کے لئے ایک مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ تربیت میں امرد پرستی (خوبصورت لڑکوں سے عشق) کی مذمت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔

 برصغیر ہند و پاک میں اشاعت اسلام کے لیے صوفیا اکرام کا کردار بھی بہت اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کے سندھ کو فتح کرنے اور محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے ساتھ ہی بزرگان دین اور صوفیاء کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جن میں میر سید علی ہمدانی، حضرت سید عون قطب شاہ علوی البغدادی، عبداللہ شاہ غازی، داتا گنج بخش ہجویری، ضیغم الدین محمد رزاق علی گیلانی، شاہ رکن عالم، خواجہ معین الدین چشتی، سلطان سخی سرور، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج شکر، مخدوم علاؤ الدین صابر، شیخ نظام الدین اولیاء، شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ المسلمین حضرت علامہ مولانا عبد العزیز پرہاڑوی ، سلیم چشتی، شیخ محمد غوث گوالیاری، مخدوم عبد القادر ثانی، شیخ داؤد کرمانی، شاہ ابوالمعالی، ملاشاہ گادری، شاہ اکبر داناپوری، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت میاں میر، حضرت مجددالف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، مرزا مظہر جان جاناں ،اور شاہ غلام علی , خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری، خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول کے علاوہ دیگر بے شمار ہستیاں شامل ہیں۔رحمہم اللہ علیہم ان صوفیا کرام کے حسن اخلاق اور تبلیغ دین کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا. 

  بعض صوفی بزرگوں کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ کسی خاتون یا لڑکے کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے زبردست قسم کی شاعری کر دی۔ بعض صوفی بزرگوں سے عشق مجازی کی تعریف میں اشعار بھی منقول ہیں جیسے مولانا جامی کا شعر ہے، ع

متاب از عشق رد گرچہ مجازیست* کہ آن بہر حقیقت کارساز یست۔. 

یعنی عشق سے اعراض نہ کرو چاہے مجازی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ عشق حقیقی کے لیے سبب ہے۔ 

  اس کے متعلق سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں”ان بزرگوں کا عشق مجازی کی تائید سے صرف اتنا مراد ہے، کہ اگر خدانخواستہ کسی کو عشق مجازی ہو جائے تو پھر اس سے کام لینا چاہیے تاکہ اس کو ہی عشق حقیقی کا ذریعہ بنایا جائے۔

   اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس مردار (معشوق) کے ساتھ تو بالکل تعلق نہ رکھا جائے بلکہ ہو سکے تو تعلق توڑ دیا جائے اور اس سے جو سوز و گداز پیدا ہو، اس کو عشق حقیقی کے لیے استعمال کیا جائے۔

    سب سے بہتر طریقہ تو اس میں یہ ہے کہ اگر شیخ کامل ہو تو اس کی راہنمائی حاصل کی جائے، ورنہ وضو کر کے خوشبو لگا کر خوب دل کے ساتھ 500 سے ایک ہزار تک ذکر نفی اثبات اس طرح کرے کہ” لا الہ” کے ساتھ سوچے کے میں نے اس مردار کی محبت کو دل سے نکال دیا اور” الا اللہ” کے ساتھ یہ تصور کرے کہ اپنے دل میں اللہ تعالی کی محبت داخل کیا۔ اس میں ضرب بھی ہو ۔”

( فہم تصوف) 

  عورت کی محبت دماغ کے سب سے نچلے حصے میں ہوتی ہے، جسے برین اسٹیم کہتے ہیں، برین اسٹیم رینگنے والے کیڑوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عقل اور خدا کی محبت دماغ کے سب سے اوپر والے حصے برین میں ہوتی ہے۔ جب انسان علم و عقل کی مدد سے خدا کو پہچان لیتا ہے‘ تو پھر خدا اسے اس قدر خوبصورت نظر آتا ہے، کہ وہ سب سے زیادہ بڑھ کر اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خدا سے زیادہ محبت کے قابل کون ہوگا‘ جس نے مخلوقات کو دو جنسوں میں پیدا کیا۔ جس نے انسان کی کھوپڑی میں عقل عطا کی۔ جس نے انسان کو لباس پہنایا، جس نے ماں اور باپ جیسے رشتے پیدا کیے، اور مخلوقات کے سر پہ سائبان تخلیق کیا، جس نے زمین کو انسان کے لیے قابلِ رہائش بنانے کے لیے اس میں خوراک، آکسیجن اور تمام حفاظتی تہیں پیدا کیں، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ محبت کے قابل وہی ہے یا اس کے چنے ہوئے بندے!

عشق کا تصور صرف دو مراکز کے گرد گھومتا ہے، یعنی عالَمِ فراق ہوتا ہے، یا پھر وصال ہوجاتا ہے۔ فراق میں بچھڑ جاتے ہیں، اور وصال میں ایک دوسرے کو پالیتے ہیں۔ 

  غالب کہتے ہیں کہ فراق ،وصال سے بہتر ہے۔ اس کی دلیل یوں پیش کی کہ جب تک چھن جانے کا خطرہ رہتا ہے، اس وقت تک پالینے کی جستجو رہتی ہے۔ لاحاصل کا غم ،حاصل کے سکون پر حاوی رہتا ہے، شمع اور پروانے کا عشق کا استعارہ برسوں پرانا ہے۔ پروانا شمع کی حفاظت کرتے کرتے مرجاتا ہے، کیونکہ اسے شمع کے بجھنے کا خوف رہتا ہے۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف نہ ہوتا تو وہ اپنی پرواز روک لیتا اور اپنی جان بچالیتا۔ علامہ اقبال کی شاعری میں عشق کی روح نظر آتی ہے۔ یہ عشق عام نہیں ہے، بلکہ یہ عشق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھومتا ہے۔ علامہ اقبال نے شاعری میں روایتی عشق یا عشقِ مجازی (رومانویت) کی داستان کو نہیں چھیڑا۔ بلکہ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ میری قرآن سے وابستگی کی بنیاد ہی عشقِ رسول ﷺ ہے۔ اقبال نے باقاعدہ نعت نہیں لکھی، مگر ان کی شاعری میں عشق رسول ﷺ نظر آتا ہے۔ عشق رسول ﷺ کی انتہا تو یہ ہے کہ جب حضرت علامہ اقبال کی عمر تریسٹھ برس کی ہوئی تو رونے لگے کہ اس عمر میں تو رسول اکرم ﷺ اس دار فانی سے پردہ فرماگئے تھے، میری عمر کیوں زیادہ ہورہی ہے ؟

   مورخ لکھتا ہے کہ اسی سال علامہ اقبال کی روح داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون. 

 علامہ اقبال نے پوری دنیا کا سیر ،مغربی ممالک گئے، اسپین اور قرطبہ گئے، مگر مدینہ منورہ نہیں گئے۔ کسی نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ آپ مدینہ کیوں نہیں جاتے ؟ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ میں کس چہرے کے ساتھ مدینہ جاؤں؟ میرے تواعمال ایسے نہیں ہیں، کہ میں کیسے رسول اکرم کے شہر میں جاؤں؟ جب میرے اعمال اس قابل نہیں۔ بقول اقبال ع

خِیرہ نہ کرسکا مجھے جلوء دانشِ فرنگ *سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف. 

علامہ اقبال کہتے ہیں حضرت محمد ﷺ و آل محمد ﷺ کی محبت وہ ہے جس سے انسان کو لوح و قلم کی دولت مل جاتی ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی عشق رسولﷺ کے گرد گھومتی تھی، جس کا تذکرہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔

   علامہ اقبال نے یہ عقیدہ قرآن پاک سے لیا ہے۔ قرآن ہی تو حضرت محمد ﷺ سے محبت سکھاتا ہے۔ بقول علامہ اقبال “قرآن ایک مسلمان کا مسیحا کامل ہے”علی بخش ،جو علامہ اقبال کے ساتھ آخری ایام تک رہے ،کہا کرتے تھے کہ جب حضرت اقبال قرآن کی تلاوت کرتے تھے تو اقبال کے خوف الٰہی سے نکلنے والے آنسوؤں سے قرآن کے ورق بھیگ جاتے تھے۔ علامہ اقبال کی نظمیں چاہے وہ شکوہ ہو یا جواب شکوہ، خضر راہ ہو یا پیام مشرق، سب کے موضوعات قرآن سے ماخوذ ہیں۔

  علامہ اقبال کی مئے کشی کے بارے جب علی بخش سے پوچھا گیا وہ کہتے ہیں” اقبال کا میخانہ عام میخانہ نہیں ہے۔ اقبال نے حضرت محمد ﷺ و آل محمد ﷺ کی محبت کی مئے نوشی کی ہے۔ ہر انسان کی زندگی کا ماحصل عشق الٰہی و عشق رسول ﷺ ہونا چاہیے۔ بقول اقبال ع

عشق دم جبرائیل ، عشق دل مصطفٰے

عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام. 

   علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جذبہ عشق بغیر طلب ناممکن ہے۔ اقبال کی شاعری قرآن پاک کے مفاہیم کا سمندر ہے، علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں بندہ مومن کو مخاطب کیا ہے۔ اقبال نے کہا کہ میرا تصور مومن اس دنیا کے مومن تک محدود نہیں ہے۔ یہ مومن وہ مرد ہے جو Super Natural Forces کا حامل ہوتا ہے ۔ جس کی زبان نقارہ خدا ہونی چاہیے۔ انسان اس وقت تک مرد مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اتباع حضرت محمد و آل محمد ﷺنہ کرے۔ اقبال کے بقول کائنات کا کامل ترین مومن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ مومن کا دل عشق سرور کونین کی آماجگاہ ہے۔کہتے ہیں، 

در دل مُسلم مقام مُصطفےٰ است*

آبروئے مازنام مصطفےٰ است. 

 یہاں یہ بتانا لازم ہے کہ علامہ اقبال نے میر کی طرح کبھی شریعت کا مذاق نہیں کیا۔ عام شاعری میں بعض شعراء شریعت کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ داڑھی کا ہونا یا نہ ہونا ، اس پر دلیلیں دیتے ہیں کہ دین میں داڑھی ہے داڑھی میں دین نہیں۔ مگر علامہ اقبال نے کبھی ایسے موضوعات زیرِ بحث نہیں لائے۔ بقول علی بخش ،علامہ محمد اقبال نے تہجد کی نماز کبھی قضاء نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ عموماً بوقت تہجد اقبال مجھے بلاتے اور لکھنے کو کہتے ۔ شاعری اقبال پر نازل ہوتی تھی، وہ بغیر توقف کے شعر بولتے رہتے تھے اور علی بخش لکھتے رہتے تھے۔ اقبال کی شاعری میں اصلاح کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ اقبال نے جب داغ کو اپنی غزلیں بھجوائیں، ایک طرح کا انہیں استاد تسلیم کیا تو واپسی پر داغ نے ایک خط لکھا جس میں تحریر تھا کہ” اس شاعری کو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے، یہ کامل ہے” اقبال کہتے ہیں کہ شاعری میں کاملیت کا عنصر صرف عشق رسولﷺ سے میسر ہوا ہے، ورنہ مجھ بندہ ناچیز کی کیا اوقات کہ جس پر شاعری فریفتہ ہو۔ عشقِ رسول ﷺ کا حاصل کیا ہے اسے اقبال کے اس شعر میں بیان کرکے سمندر کو کوزے میں سمویا جاسکتا ہے. ع

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں*یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں. 

علامہ اقبال کے ہاں عشق سے مراد ایمان ہے. ایمان کا پہلا جُز حق تعالٰیٰ کی الوہیت کا اقرار ہے، اور اس پر شدت سے یقین، اس شدت کو صوفیاءکرام نے عشق سے تعبیر کیا ہے۔ 

   عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سمجھاتی ہے، لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے وہ ہے عشق۔ 

  عشق… ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بد ل جاتی ہیں۔ ع کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا*نگاہ، مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں. 

بقول مولانا روم،” عقل جُزئی قبر سے آگے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔ قبر سے آگے عشق کا قدم اُٹھتا ہے اور عشق ایک جست میں زمان و مکان والی کائنات سے آگے نکل جاتا ہے۔ع

عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام*اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں. 

   علامہ اقبال کے نزدیک عقل و علم کی سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ اس کی بنیاد شک پر قائم ہے۔ اس وجہ سے عقل و علم میں وہ خواص موجود نہیں جو تربیت خودی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے مقابلے میں عشق بے خوفی، جرات اور یقین و ایمان پیدا کرتی ہے۔ اس لیے وہ خدا سے صاحبِ جنوں ہونے کی آرزو کرتے ہیں۔ع. بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق*عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی. 

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں*

مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر. 

خرد نے کہہ بھی دیا لا الہٰ تو کیا حاصل*دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں. 

 اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو عشق حقیقی کی دولت سے مالا مال فرمائے آمین یا رب العالمین. ***

   Photo from Md Hashim Alqasmi

Attachments area

ReplyForward

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ