جی این کے اردو
دورِ حاضر میں بھی تصوف کی ضرورت ہے
زمانہ حال،اہل تصوف کی نظر سے
محمد انیس الرحمٰن خان، دہلی
anis8june@gmail.com
7042293793
موجودہ زمانے میں عمومی طور پر پوری دنیا اور خصوصی طور پر ہمارے ملک میں ایک عجیب سی مذہبی کشمکش سے اشرف المخلوقات بے سکونی اور بے چارگی کا شکار ہورہے ہیں۔لوگوں کے درمیان اپنے مذہب کی بالادستی اور دوسروں کے مذہب کو نیچی نگاہوں سے دیکھنے اور دکھانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو خون میں نہلاکر اپنے خالق کے قول “یقینا میں نے انسان کو سب سے اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا”کی دھجیاں اُڑارہے ہیں۔ خواہ وہ معاملہ جھارکھنڈ کے رانچی کا ہو یا راجستھان کے اُدیے پورکا۔ اس طرح کے واقعات میں مذہب کے نام پر مذہب سے کم واقفیت رکھنے والے افراد زیادہ ملوث نظر آتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر ہماری نگاہیں مذہب اسلام کے حقیقی داعیان اور انسانیت کے علمبرداران صوفیوں کی طرف جانا لازمی ہوجاتی ہے۔
چنانچہ ڈاکٹر محمد طیب ابدالیؒ سابق صدر شعبہ اردو مگدہ یونیورسٹی اپنی کتاب “الشرف”کے صفحہ نمبر 7 پررقم طراز ہیں کہ “علماء و امراء بلکہ حکومتوں اور بادشاہوں سے بھی وہ کام نہیں ہوسکتا جو فقیر اور درویش کر گزرتے ہیں۔ بادشاہ کا دربار خاص ہوتا ہے اور فقیر کا دربار عام ہے۔ جہاں بڑے چھوٹے،امیر غریب، عالم جاہل کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔بادشاہ جان و مال کا مالک ہے لیکن فقیر کا قبضہ دلوں پر ہوتا ہے اس لئے اَن کا اثر محدود ہوتا ہے اور اِن کا بے پایاں۔ یہی سبب ہے کہ درویش کو وہ قوت اور اقتدار حاصل ہو جاتا تھاکہ بڑے بڑے جبار اور با جبردت بادشاہوں کو بھی اس کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے”۔ اپنے ملک بھارت کاتذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبؒ مزید فرماتے ہیں کہ “مسلمان درویش ہندوستان میں، پُرخطر اور دشوار گذار راستوں، سربفلک پہاڑوں اور لق ودق بیابانوں کو طے کرکے ایسے مقامات پر پہنچے جہاں کوئی اسلام اور مسلمان کے نام تک سے بھی واقف نہ تھا۔ اور جہاں ہر چیزاجنبی اور ہر بات ان کی طبیعت کے مخالف تھی، جہاں کی آب وہوا، رسم و رواج، صورت وشکل، آداب و اطوار، لباس وطرز زندگی، بات چیت،غرض ہر چیزایسی تھی کہ ان کو اہل ملک سے اور اہل ملک کو ان سے وحشت ہو۔ لیکن حال یہ ہے کہ انہیں مَرے صدہا سال گذر چکے ہیں لیکن اب بھی ہزاروں، لاکھوں بندگان خدا صبح وشام ان کے آستانے پر پیشانیاں رگڑتے ہیں اور جن جن مقامات پر ان کے قدم پڑے تھے وہ اب تک شریف اور مقدس کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔ یہ کیا بات تھی ؟۔۔ بات یہ تھی کہ ان کے پاس دلوں کے کھینچنے کا وہ سامان تھا جو نہ امراء وسلاطین کے پاس ہے اور نہ علماء وحکماء کے پاس “۔ڈاکٹر طیب ابدالی صاحبؒ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 8پراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”میرے خیال میں بلاد عرب کے ماسوا دنیا کے تمام ممالک میں صوفیاء کرام کا یہ گروہ سرگرم عمل رہا۔ خصوصیت کے ساتھ بغداد،شام، عراق، روس، ترکستان، ایران اور افغانستان کے خطے میں یہ گروہ اپنا مشن لے کر اخلاق و محبت کا درس دیتا رہا۔ ان کے قدم چوتھی صدی ہجری میں ہندوستان کی طرف بھی بڑھے، پہلے سندھ اس کے بعد پنجاب پھر راجستھان،بہار،بنگال، دہلی،یوپی،کشمیراور جنوبی ہند کے بیشتر حصوں کو اپنے رُشد وہدایت کا مرکز بنایا۔ بالخصوص پانچویں صدی ہجری سے ہندوستان میں بزرگانِ دین کی آمد کا سلسلہ ملتا ہے ان کی مقبولیت اور شہرت اس قدر ہوئی کہ ان کی خانقاہوں سے رُشدوہدایت کی کرن پھوٹنے لگی اور یہ روشنی آہستہ آہستہ پھیلتی اور زیادہ تابناک ہوتی گئی۔ پہلے تو راجاؤں نے اور ان کے امراء نے شدت کے ساتھ مخالفت کی، لیکن جب عوام کی عقیدت میں پختگی اور صوفیوں کے طرز عمل میں اخلاص و محبت دیکھی تو پھر انہوں نے بھی جبیں عقیدت اسی آستانے پر جھکائی۔”
خلقِ خدا اور خاص کر اشرف المخلوقات سے پیار و محبت کے تعلق سے مخدوم شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیریؒفوائد رُکنی کے فوائد اول میں فرماتے ہیں کہ “اے برادر!تم کو معلوم ہو کہ بظاہرنماز و روزہ فرض ہے باطن میں عشق و محبت فرض ہے،جس کی پونجی درد دواندوہ ہے۔عشق بندے کوخدا تک پہنچاتا ہے اس معنی میں کہ عشق فرض راہ ہے۔زندگی کوعشق کے ذریعہ پہنچانو اور موت بے عشق کے جذبے کو جانو۔”مذکورہ بالا نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تصوف عشق والوں کی راہ ہے اور اس میں خلوص و محبت اور عشق وپیار کے جذبے کو خاص دخل ہے جو مذہب وملت اور دیر وحرم کے سوا ہے۔
مذہب ِ اسلام میں تعصب اور تنگ نظری کی کوئی جگہ نہیں ہے مگر اس مرض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بابائے اُردو ڈاکٹر عبدالحق نے اپنی تصنیف “اُردو کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ” میں صوفی اور مولوی کا تقابلی جائزہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ “مولوی اور صوفی میں یہ فرق ہے کہ وہ ظاہر کو دیکھتا ہے اور یہ باطن کو، وہ لفظ کو دیکھتا ہے اور یہ معنی کو،وہ رسمیات اور تقلید کا پابند ہے اور یہ ان سے بے زار،اس کی نظر بُرائی پر پڑتی ہے اور یہ بُرے سے بُرے میں بھی بھلائی کا پہلو ڈھونڈ نکالتا ہے،وہ لعن و طعن سے کام لیتا ہے اور یہ مہر و محبت سے، وہ سختی اور تشدد کرتا ہے اور یہ نرمی اور ملائمت،وہ بہت کم معاف کرتا ہے اور اس کا شیوہ درگذرکرنا ہے، وہ خود،خود نمائی سے بڑا بنتا ہے اور یہ فروتنی وخاکساری سے دلوں میں گھر کرتا ہے، وہ دوسروں کے عیوب کا متجسس رہتا ہے اور یہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے، وہ اپنے علم سے مرعوب کرنا چاہتا ہے اور یہ اپنے عمل سے دوسروں کو لُبھاتا ہے”۔
حضرت ڈاکٹر محمد طیب ابدالی ؒ کے دستِ گرفتہ،ان کے سلسلے کی ترویج و اشاعت میں مصروف اور خانوادہ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کے چشم وچراغ پیر طریقت حضرت سید محمد شائق اقبال چشتی موجودہ حالات اور تصوف کے تعلق سے کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ حیات میں گستاخی کرنے والوں میں اور آج کے گستاخوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ آج کے گستاخ نبی کریمﷺ کی عظمت کو جانے بغیر محض ہم مسلمانوں کو چڑھانے اور دشمنی کا اظہارکرنے کے لئے گستاخی کا سہارا لیتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بھی قصور ہم مسلمانوں کا ہی ہے، کیوں کہ ہم نے اسلام اور عظمت رسولﷺ کو اپنے کردار وعمل کے ذریعہ ان تک نہیں پہنچایا۔ شرک و بدعت کے جال میں مسلمانوں کو اُلجھا کر رکھ دیاگیا، تصوف اور خانقاہوں سے دوری نے انسانیت کو مجروح کیا، صوفی جو تصوف کی راہ پر چلنے والے ہیں ان کا خداہرجگہ حاضر و ناظر ہے، کسی جماعت یا فرقہ میں محدود نہیں، تصوف کی تعلیم صلح وآشتی کی ہے،تعصب اور تنگ نظری کو یہاں دخل نہیں ہوتاہے۔یہاں بدلہ لینے کے بجائے معافی کو ترجیح دی جاتی ہے، اسی لئے دور حاضر میں تصوف کی تعلیمات اورخانقاہی نظام کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔اسی نظام سے دنیا اور ملک عزیز میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔