جی این کے اردو ڈیسک
9 جنوری / 2022
تصّوف میں ملاوٹ
قسط نمبر 9
تصّوف کا تعلق انسان کے داخل سے ہے اور شریعت کا تعلق ظاہر سے ہے۔ بالفاظِ دیگر یُوں کہا جاسکتا ہے کہ جسمانی عبادات کا تعلق شریعت سے ہے اور روحانی عبادات کا تعلق طریقت کے ساتھ ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ قدیم صوفیا پہلے مسلمان تھے پھر صوفی۔وہ تصوف کو ایک جداگانہ مسلک کی حثیت سے نہیں لاۓ تھے بلکہ اسلام کے تحت اسی کی پاکیزہ ترین صورت کو کہتے تھے۔وہ اسلام کو تصوف پر مقدم رکھتے تھے۔ان کے نزدیک تصّوف کا مفہوم محض اس قدر تھا کہ اتباعِ کتاب و سنت میں انتہاٸی سعی کی جاۓ،اُسوہ ٕ رسولﷺ و صحابہؓ کو دلیلِ راہ رکھا جاۓ،امر و نواہی کی تعمیل کی جاۓ،طاعات و عبادات کو مقصودِ حیات سمجھا جاۓ،قلب کو محبت اور عشقِ الہیٰ سے معمور کیا جاۓ اور نفس کو خشیتِ الہیٰ سے مغلوب کیا جاۓ۔
مختصر یہ کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کو کتاب و سنت کی پیروی کی بدولت صاف و پاک کرتے تھے۔بد قسمتی سے آج کل کے گندم نُما جو فروش درویشوں اور صوفیوں پر عیش و عشرت اور مال و دولت کا بھوت سوار ہوچکا ہے۔ ایسے صوفیوں کو علامہ اقبالؒ دکاندار صوفی کے نام سے یاد کیا کرتے تھے کیونکہ وہ عجیب و غریب چالاکیوں سےسادہ لوح مسلمانوں کو پھانستے اور لوٹتے ہیں۔ان نام نہاد صوفیہ کی اخلاقی پستی حد سے گزر گٸی ہے۔شریعت کی پیروی کی جگہ اس کی خلاف ورزی کو باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔امام قشیری کا خیال ہے کہ اب تصوف بس ایک رسم کے سوا کچھ نہیں ہے،اصل طریقہ مفقود ہوگیا ہے اور حقیقت کے میدان میں سناٹا چھا گیا ہے۔مولانا رومیؒ نے کیا خوب کہا ہے ۔
شانہ و مسواک و تسبیح و رِدا
جُبہ و دستار و قلبِ بے صفا
۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔
مقبول فیروزی