جی این کے اردو
28 دسمبر / 2021
موثر سائنسی تعلیم: روایتی یا تحقیقی
ڈاکٹر قاضی سراج اظہر
اسوسیٹ کلینکل پروفیسر
مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی۔ امریکہ
جب ایک نو مولود دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے تو حواسِ خمسہ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ارد گرد کے ماحول کی جانچ پڑتال کرنا شروع کرتا ہے۔ جستجو اور دریافت کرنا اس کا یومیہ معمول ہوتا ہے۔ سائنس ایک ایسا مضمون ہے جس کو سائنس کی کتابوں سے پڑھ کر سیکھا نہیں جاتا، بلکہ تحقیق و تفتیش کرکے سیکھنا ہوتا ہے۔ ہرکس و ناکس، چاہے سائنس کا طالب علم ہو یا نہ ہو برابر اپنی زندگی میں تجربات و تحقیقات سے روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ جیسے کسان کو پتہ ہوتا ہے سال میں کن کن مہینوں میں بارش ہوتی ہے۔ بیج کو کب بویا جاتا ہے اور کب فصل کاٹنی ہوتی ہے۔ کونسی کھاد پودوں کیلئے مفید ہوتی ہے۔ کونسے حشرات الْارض فصلوں کو برباد کرتے ہیں۔ پرندوں کو فصلیں تباہ کرنے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ انسان میں فطری طور پر جستجو اور کھوج ہوتی ہے جو اُن کو تحقیق و تفتیش پر اُکساتی رہتی ہے اور وہ اپنے پچھلے تجربات سے سبق بھی سیکھتا رہتا ہے۔ سائنس کے دائرۂ جستجو میں کائنات کی ہر شۂ کا علم شامل ہے۔ کائنات میں ہر آنے والا پل ایک نئ تبدیلی لاتا ہے، جس کے اسباب (cause)اور نتائج (effects) ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے بھی قدرتی قوانین ہوتے ہیں جو اسبابِ تنوع کے باوجود نہیں بدلتے یعنی توانائ کی بقاء کا اصول ہے (Law of Conservation of Energy) جسمیں توانائ ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہوتی رہتی ہے، جیسے روشنی کا اُتنی ہی توانائ کی مقدار میں حرارت میں تبدیل ہونا۔ توانائ کی ہیت بدل سکتی ہے اُس کے اشکال مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس کی جملہ مقدار ہمیشہ یکساں ہی ہی رہتی ہے۔ درخت سے جب پتّے جھڑ کر مٹی میں مل جاتے ہیں تو کھاد بن کر درخت کو غذا بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح نئے پتوں کی شکل میں وہ پھر سے نمودار ہوتے رہتے ہیں۔اسی طرح پانی کا مٹی سے مل کر ہمہ اقسام کے رنگین میوے بنانا پھر ان کا فنا ہونا اور ظہور میں آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ سب فنا اور بقا کا چکر ہے جو رواں دواں ہے۔ انسان کیلئے یہ تمام باتیں غور طلب ہیں۔نظامِ قدرت کے اِن اصولوں کو سمجھنا اور خالق کی طرف رجوع ہونا ہی اصل مقصودِ ربیّ تعالی ہے۔ جبلّی اور فطری طور پر غور و خوص، تحقیق و تفتیش، جانچ پڑتال کی صلاحیت اللہ تعالی نے حضرتِ انسان میں ودیعت کر دی ہے۔
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہَا ؕ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے میوے اُگائے؟ (سورہ فاطر ۲۷)
میں نے قرآن کی اس آیت کی تشریح مندرجہ ذیل شعر میں کی ہے۔
مٹِّی سے مل کے پانی کیا رنگ لا رہا ہے
پھل پھول سے مہکتے باغات میں ہے سائنس
ایسے ہی کئ قرآنی آیات سے مسلم سائنسدانوں نے اپنے ماحول میں قدرت کی نشانیوں پر غور و فکر کی، مشاہدے کئے، بے شمار دریافتیں کیں اور کئ ایک ایجادات کے مالک ہوئے۔ انہی سائنسدانوں میں ابن الہیثم (۹۶۵ء ۔۱۰۳۹ء) بھی ہیں جن کو یوروپ Alhazen کے نام سے جانتا ہے جو بابائے علم البصریات (father of optics) ہیں، جنہوں نے سائنسی طریقے کو ایجاد کیا جس کو ہم طریقۂ سائنس (Scientific Method) کے نام سے پہچانتے ہیں۔ الہیثم نے تحقیق کرنے کا باضابطہ ایک اصول بنایا جو مشاہدے سے شروع ہوکر تحقیقی سوال، مفروضہ، تجربے کا انعقاد، نتیجہ، اور آخر میں نتائج پر مبنی اعداد و شمار سے نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے۔ انجام کار یہ پتہ لگایا جا سکے کہ مفروضہ جو تحقیق سے پہلے کیا گیا تھا وہ صحیح ہے یا غلط۔
جس وقت ابن الہیثم نے سائنسی طریقۂ کار کے اصول بنائے تھے اُن کو شاید پتہ بھی نہیں تھا کہ ان کا سائنسی طریقۂ کار دنیا میں ایک جدید سائنسی انقلاب پیدا کردے گا اور نِت نئ دریافتیں اور ایجادیں ظہور میں آئینگیں اور یوروپی تعلیمی نصاب میں طلبہ کیلئے ہر جماعت کی سائنسی کتاب میں پہلا سبق اُنکا طریقۂ سائنس ہی ہوگا۔ اب تو حال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سائنس کو طلبہ خود تحقیق کرکے سیکھتے ہیں جن کو تحقیقی منصوبہ بند اکتساب یا Project-based Learning (PBL) یا مختصراً تحقیقی منصوبہ بندی کہا جاتا ہے۔ بچوں کو اُنکی عمر اور جماعت کے لحاظ سے تحقیقی منصوبے اندرونِ اسکول یا پھر بیرونِ اسکول کرنے کیلئے دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح کے تحقیقی منصوبوں سے سائنس کو سیکھنا اسکولس اور کالجس میں سائنسی نصاب کا حصہ ہوگئے ہیں۔
سائنس کی تدریس کا بہترین طریقہ بچوں میں موجود فطری جستجو اور کھوج کی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اُن میں تحقیقی ذہن سازی کرنا ہے۔ کئ ہندوستانی اساتذہ سائنس کو عموماً پڑھنے اور پڑھانے یا زیادہ سے زیادہ تختۂ سیاہ یا ڈیجیٹل بورڈ پر چند اشکال یا فارمولے کی حد تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ کچھ اساتذہ دورانِ تدریس آموزشی مواد (Teaching Learning Materials) جیسے ماڈلس یا تشریحی چارٹس یا تصاویر جن کو تدریسی امدادی اشیاء (teaching aids) بھی کہتے ہیں، اُن کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ معلمین طلبہ کو سائنسی تجربات کے ذریعے سائنس کے اصولوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طلبہ کو کتابوں اور تختۂ سیاہ کی دنیا سے نکال کر سائنسی تجربات کی دنیا میں لانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن پھر بھی اُن کی اکتسابی صلاحیت اتنی بہتر نہیں ہوتی جتنی کہ وہ خود اپنی ذہنی کھوج سے کوئ نئ چیز دریافت کرکے سیکھتے ہیں۔ اس بات کی افادیت کو تعلیمی میدان میں تحقیقی و تجزیاتی مطالعے سے ثابت کر دیا گیا ہے۔ طالبِ علم کیلئے موثر حصولِ علم کا یہی ایک واحد طریقۂ کار ہے۔ جدید طریقۂ تعلیم میں یہ بات تحقیق شدہ اور تصدیق شدہ ہے کہ طلباء کو جب تحقیقی منصوبے (PBL projects) دئے جاتے ہیں تو اُنکی اکتسابی صلاحیت میں کئ گُنا اضافہ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اکثر سائنس کے اساتذہ سے جب طریقۂ سائنس کا استعمال کرتے ہوئے بچوں سے تحقیقی منصوبہ جات جسمیں سائنس فیر پروجیکٹس بھی شامل ہیں کروانے کیلئے کہا جاتا ہے تو اُن کا بس ایک ہی سوال ہوتا ہے۔ آپ ہی بتائیے یہ تحقیقی خیال (research idea) کہاں سے لائیں؟ سر پلیز آپ ہی کچھ آئیڈیا دے دیدیجئے نا وغیرہ۔ یا نہیں تو انٹرنیٹ پر موجود سائنسی منصوبوں کی نقل کرکے سائنس فیر مقابلوں میں ان کو پیش کردیا جاتا ہے۔ اکثر اس طرح کے سرقہ کئے ہوئے منصوبے بچوں کو رٹوادئیے جاتے ہیں۔ جس کا منصفانِ سائنس فیر (science fair judges) کو پتا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے نقل کئے گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک دوسرا موضوع ہے، اس پر میں کبھی تفصیل سے لکھونگا۔
بچوں میں ہمیں تحقیقی ذہن سازی کیلئے اُن میں تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا۔ طلبہ کو اچھی طرح سے باور کیا جائے کہ تحقیق ہی سائنس کی بنیاد ہے اور اُن میں یہ بات ذہن نشیں کروانی ہوگی کہ اگر سائنس کو سیکھنا ہوتو ہمیں تحقیق کرنی ہوگی۔ اس کے لئے پہلے اساتذہ کو خود سائنسی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر طلبہ محقق یا سائنسداں کا کردار ادا کررہے ہیں تو استاد کو بھی سائنسداں بننا ہوگا تاکہ طلبہ کی صحیح رہنمائ ہو سکے۔ سائنسی تعلیم صرف دریافت اور ایجادات پر محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ معاشی و اقتصادی مسائل کا حل بھی ڈھونڈھ نکالتی ہے۔سائنسی تحقیق انسانی مشکلات و مسائل کو دور کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ جس طرح آئے دن انسان نئے نئے آفات، مشکلات، اور مسائل سے دوچار ہوتا ہے، اس کے ازالے کے لئے ہماری آنے والی نسلوں میں تحقیقاتی سائنس نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
تحقیقی سوچ کیلئے ہمیں روزمرہ کے مسائل پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ سائنس میں سب سے مقدم اور ضروری عمل مشاہدے کا ہے۔ سائنس کی بنیاد مشاہدے سے شروع ہوتی ہے اور مشاہدہ انسان کو جستجو اور کھوج کی طرف راغب کرتا ہے نتیجتاً یہی کھوج ایک نئ دریافت اور ایجاد کا باعث ہوتی ہے۔ ویسے ہم روزانہ اپنی زندگی میں مشاہدہ تو کرتے ہیں لیکن اس کی طرف زیادہ متوجہ نہیں دیتے، چاہے وہ اسکول کے کمرۂ جماعت میں ہوں یا اُس سے باہر۔ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، پڑھتے پڑھاتے، سیکھتے سیکھاتے ہم بہت کچھ جان کر نئے نئے سائنسی تحقیقی منصوبوں (research projects) کی شروعات کرسکتے ہیں۔ بس کچھ غور وفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم طلبہ کو سائنسی نصاب میں درج سائنسی تجربات کرکے بتاتے تو ہیں یا اُن سے کرواتے بھی ہیں۔ لیکن اگر ہم ان تجربات پر غور فکر کریں تو ان سے بھی ہم کئ نئے تحقیقی منصوبوں (PBL projects) کی شروعات کر سکتے ہیں۔ میں یہاں چند مثالیں سائنس کی معروف اور انعام یافتہ معلمہ انجم نوید یا انجم یوسف صاحبہ کے سائنسی تجربات سے اخذ کرنا چاہوں گا۔ اِن کے کئے ہوئے سائنسی تجربات کا سہارا لیتے ہوئے میں بتاؤں گا کہ کس طرح ان سائنسی تجربات کو وسعت دے کر تحقیقی وتخلیقی سائنسی منصوبوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے تاکہ بچوں میں جِدّت پسندی اور ذہنی اختراع سے تحقیقی سوچ پیدا ہو۔ مثلاً
انعطاف و انعکاس والے تجربات کو بنیاد بناتے ہوئے بچے فوٹو سنسر (photo sensor) کا استعمال کرتے ہوئے عدسوں سے نکلنے والی شعاؤں کے انتشار یا ارتکاز کی پیمائش کرتے ہوئے قدرتی اور مصنوعی روشنی کے تعلق سے عملِ انعکاس اور انعطاف پرمختلف نوعیت کے تخلیقی و تحقیقی تجربات سے نِت نئی دریافتیں کر سکتے ہیں۔ محدب اور مقعر کروی اور متوازی عدسوں اور آئینوں کو لے کر شعاعِ واقع اور مختلف زاویوں پر شعاعِ انعکاس کی پیمائیش کرتے ہوئے کئ ایک تحقیقی تجربات ممکن ہیں اور روز مرہ کی زندگی میں ان کا استعمال کیسے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک اور تجربہ ہے جس میں بتایا گیا ہے جب برقی رو دھات کے تاروں سے ہو کر گذرتی ہے تو حرارت پیدا کرتی ہے، اس کو بھی تحقیقی منصوبے (PBL) میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
تار کو پانی بھرے منقارے (beaker) میں رکھ کر حرارت پیما (thermometer) سے حرارت کی پیمائش مختلف دورانیے یا اوقات میں کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ تجربے زیادہ طاقتور برقی رو (high voltage ) پر نہ کئے جائیں کیونکہ اگر غلطی سے پانی کو چھُو لیا جائے تو بجلی کا جھٹکا (Electric Shock) لگ سکتا ہے جو خطرۂ جان بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے منصوبوں سے بہت سارے معلومات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پیچدار تار کے اعداد اور حرارت کی مقدار کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ مختلف دھات کے تاروں میں حرارت کا تعین وغیرہ یا برقی توانائ اور حرارت مختلف اوقات میں کسطرح اثر انداز ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اور تحقیقی تجربہ “پودے میں افزودہ پانی کا اخراج” پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس میں پتّے کو مکمل طور پر ڈھانکنے کے لئے پلاسٹک کی تھیلی استعمال ہوئ ہے اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم سائنسی تحقیق کر سکتے ہیں۔ مفروضہ ہوگا، “پتے پانی کی رطوبت خارج کرتے ہیں”۔ ہم پلاسٹک کی تھیلی کا وزن کرکے وقفے وقفے سے رطوبت کے اخراج کا صحیح تخمینہ کر سکتے ہیں یا پھر رطوبت سنسر (moisture sensor) کا استعمال کرتے ہوئے بہت سارے تحقیقی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ کیا مختلف پودوں کے پتوں میں رطوبت کا اخراج یکساں ہوتا ہے۔ پتوں کے مختلف اقسام جیسے مغز دار موٹے پتے یا پتلے اور باریک پتے، جیسے کیکر کے جھاڑ کے پتے۔ اور یہ بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ پتے شدت کی گرمی میں اپنی رطوبت کے اخراج کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں۔ جہاں پیڑ پودے ہوں وہاں فضائ رطوبت کے حساس آلے (humidity sensor) سے پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ پودے کس طرح رطوبت کے اخراج سے فضائ اور زمینی درجۂ حرارت کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس تجربے میں درجۂ حرارت اور رطوبت کی مقدار دن کے مختلف اوقات میں معلوم کی جا سکتی ہے۔ کونسے پودے یا درخت سایہ دار اور ٹھنڈک زیادہ پہنچانے والے ہوتے ہیں۔ کس طرح پودے کرۂ ارض کی حرارت کو کم کرنے مدد دیتے ہیں۔ ایک تحقیقی منصوبے سے کئ اور تحقیقی منصوبے ذہن میں آتے ہیں۔ ان تمام تحقیقی منصوبوں میں مقداری تحقیق یعنی اعداد و شمار کو لے کرنا چاہئیے، جس سے باقاعدہ رطوبت کی صحیح پیمائش ہوسکے۔ سائنس میں بنیادی اہم جُز درست، صحیح اور عین مطابق پیمائش (precise measurement) کا ہے۔ سائنس اور ریاضی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ سائنس کا طالبِ علم سائنس کے ساتھ ساتھ علمِ ریاضی کے اُصول بھی مُرتب کرتا ہے اور مجھے یقین ہے ایسے تحقیقی تجربات کو طلبہ بہت ہی انہماک، ذوق و شوق سے کریں گے۔ جب وہ خود اپنے ہاتھوں سے تحقیق کریں گے تو اس طرح کے کئ نصابی تجربات کو تحقیقی منصوبوں (PBL) میں تبدیل کرنے سے بہت کچھ نئے سائنسی حقائق اور نئے سائنسی اصولوں کوسیکھنے و سمجھنے میں اُنہیں کامیابی حاصل ہوگی۔ یہی سب کچھ تو سائنسی میلوں (science fairs) کے تحقیقی منصوبوں (research projects) میں بھی ہوتا ہے۔ تحقیقی منصوبوں (PBL) کا اصل فائدہ یہ ہے کہ بچے خود کرکے سیکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سیکھا ہوا علم بھول نہیں پاتے بلکہ اور بھی اُن میں تحقیقی اور تخلیقی ذہن سازی ہوتی رہتی ہے جو بچوں کو موجد اور محقق بناتی ہے۔بہرِ حال اصل میں سائنس تحقیق، تفتیش، اور تسخیر کا نام ہے۔ لفظ تحقیق، حق سے بنا ہے یعنی ایسا عمل جو کسی چیز کے حق یا حقیقت کو جاننے کے لئے کیا جائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ
بہت جلد ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور خودان کی ذات میں بھی دکھائیں گے حتی کہ ان کے لیے حق واضح ہو جائے گا۔ (سورہ فصلت ۵۳)
سائنس کا تعلق حکمت سے ہے اور حکمت کہتے ہاں حق کو پہچاننا۔ یہ علم صرف اور صرف نظامِ قدرت پر غور وفکر اور تحقیقی تجربات سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ہمیں پرانی سائنس کی طرزِ تعلیم کو خیرآباد کہنا ہوگا۔ بچوں میں خود سے کرکے سیکھنے والی عملی و تحقیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا ہوگا۔ انکی دلچسپی، ذوق و شوق کا خیال رکھنا ہوگا تاکہ ان میں اندرونی محرکہ (internal motivation) پیدا ہو۔
یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ سائنسی ماہرین کو لسانی ادب سے کوئ دلچسپی نہیں ہوتی۔ طلبہ اپنے طالبِ علمی دور میں تحقیقی منصوبے کرتے ہیں اور نتائج کو روزنامچے (logbook) میں لکھنے کی عادت ڈالتے ہیں۔ اس سے اُن کی فنِِّ تحریر میں دن بدن اضافہ ہوتا ہے۔ سائنس کے طالبِ علم بہترین قلمکار، ادیب و سخنور بھی ہوتے ہیں، کیونکہ انمیں جدت پسندی، تخلیقی و اختراعی صلاحیتیں، اور تحقیقی ذہن بھی ہوتا ہے۔ مشاہدہ، سوچ وچار کرنا، جانچ پڑتال کرنا، سائنسی روایات اور اصولوں کو پرکھنا ان کی فطرت میں ہوتا ہے۔ ان کے لئے لسانی قابلیت صرف مراسلت اور مواصلت کے حد تک نہیں ہوتی بلکہ وہ لسانی ادب کا بھی بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کا بھی ایک حساس دل اور جذباتی دماغ ہوتا ہے۔ سائنس اُن کو نہ صرف مشاہدے اور مطالعے کی ترغیب دیتی ہے بلکہ انکی تحریروں اور شعری اصناف میں جہاں مشاہدے اور احساسات کی گہرائیاں بھی ہوتی ہیں تو افکار کی بلندیاں بھی نظر آتی ہیں۔ سائنس ٹیچر صرف سائنس کی تدریس کی حد تک نہیں ہوتا وہ زبان دانی پر بھی عبور رکھتا ہے۔ وہ دبستانِ علم ہے۔ تحریر و تقریر ایک فن ہے اس کو سیکھنے اور سیکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سائنس کا معلم صحتِ زبان پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ وہ بچوں کے سائنسی مقالوں میں ہجّے، املے اور تلفظ کے اغلاط کو سُدھارتا ہے۔ جملے کی ساخت، الفاظ کا جملوں میں ربط، ترتیب و تسلسل کو درست کرتا ہے۔ اوقاف (punctuations) کا صحیح استعمال، قواعد کی غلطیوں کی تصحیح کے علاوہ سائنسی اصطلاحات کا صحیح استعمال بھی سکھاتا ہے۔ سائنس کا استاد طلبہ میں فنِ خطابت کا جذبہ بھی اُبھارتا ہے۔ جب گفتگو ہو تو صاف صاف کُھلے الفاظ میں بیاں ہو تاکہ سننے والا بات اچھی طرح سمجھ سکے۔ الفاظ اور جملوں پر مکمل عبور ہو۔ الفاظ کے ہیر پھیر اور جملوں کے ردو بدل سے بات کرنی ہو تو مفہوم پر اسکا کوئ اثر نہ پڑے۔ بہرِ صورت سائنس کا معلم یا معلمہ ایک بحرالعلوم شخصیت ہوتی ہے جو طالبِ علم کو ہمہ جہتی علوم کے گُر سیکھاتی ہے۔
طلبہ کو چاہئیے جیسے جیسے یہ تحقیقی منصوبے مکمل ہوتے جائیں اُنکے سائنسی مقالے اور پوسٹرس بنا کر عوام کو اپنی تحقیق سے آگاہ کریں۔ اگر ماحولیاتی سائنس میں تحقیقی منصوبے ہیں تو وہ اُنکے تحقیقی نتائج سے لوگوں میں آگہی مہم کا آغاز کریں۔ اس کے علاوہتحقیقی مقابلوں میں حصہ لیں جیسے مقامی اور قومی سائنس فیرس، آئرِس (IRIS)، اور بین الاقوامی سائنس فیرس (ISEF) کے مقابلوں میں حصہ لیں اور انعامات و اکرامات سے نوازے جائیں۔ ہمارے طلبہ موجودہ دنیاوی مسائل کو حل کرنے والے بنیں اور عوام میں اس بات کا احساس دلائیں کہ اگر سائنس میں تحقیق نہ ہو تو وہ سائنس نہیں ہوگی بلکہ صرف خیالی فلسفہ یا منطق ہو کر رہ جائیگی۔ آج کے بچے کل کے شہری ہوتے ہیں۔ سائنس کے اساتذہ معاشرے میں مستند سائنس کے علم بردار ہیں اور سماج میں جعلی سائنس (pseudo science) اور مستند سائنس (authentic science)کے فرق کو سمجھانے والے ہوتے ہیں۔ بحیثیتِ سائنس ٹیچر یہ ہمارا فرضِ عین ہے کہ ہم مستقبل کے سائنسداں پیدا کریں تاکہ پھر سے الہیثم، ابنِ سینا، اور سر سی وی رامن پیدا ہوسکیں۔ صرف تجرباتی سائنس ہمارے آنے والے کل کیلئے ناکافی ہے۔ ورنہ ہم اس عالمی مسابقتی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائینگے۔ ان حالات میں سائنسی علوم کو فروغ دینا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ روایتی سائنسی تدریس میں پہلے سائنسی نظریہ یا اصول پڑھایا جاتا ہے اور تجربات بعد میں ( Theory first practical later) کروائے جاتے ہیں۔ جدید تحقیق نے اس طرح کی طریقۂ تدریس کو غیر موثر ثابت کردیا ہے۔ اکیسویں صدی میں طلبہ تحقیقی منصوبوں سے خود سائنس کرکے سیکھتے ہیں۔ اس میں اُنہیں دلی لگاؤ اور دلچسپی ہوتی ہے۔ جستجو اور کھوج اُن کو اکتسابی صلاحیت کے اُس درجے پر پہنچا دیتی ہے جہاں اُنکی تخلیقی ذہن سازی شروع ہوتی ہے۔ طلبہ منظم سائنسی طریقہ کار اور مطا لعے کے تحت کسی بھی علم کو جا ننے اور پھر نتائج اخذ کرنے کا ہنر سیکھ جاتے ہیں۔ کئ مفروضات اور نظریات کا حل نکالنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مشاہدات اور تحقیق سے صحیح سائنسی پیشنگویاں (scientific predictions)کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔ درس و تدریس اکیسویں صدی میں نئے تحقیقی انقلاب سے دو چار ہے۔ سائنس کی درس و تدریس صرف تحقیقی منصوبہ بندی سے ہی ہو سکتی ہے۔ اب ہمیں تحقیقی منصوبہ بندی سے سائنسی علم کو طلباء میں عام کرنا ہے۔ اس طرح کے طریقۂ تعلیم میں بچے اپنی انفرادی صلاحیت اور فطری قابلیت کے مطابق معلم کے تعاون سے علومِ سائنس کو تحقیق کرکے سیکھتے ہیں، جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے وہ بحیثیتِ معاون کار طلبہ کی مدد کرتے ہیں جن کا صرف کام تختۂ سیاہ یا ڈیجیٹل بورڈ کے سامنے ٹھیر کر درس دینا نہیں ہے۔ جدید تعلیمی تحقیق نے یہ بات واضح کردی ہے کہ معلم مرکوز (Teacher Centered Education) روایتی تعلیم غیر موثر ہے۔ طلبہ اس طرح کی تدریس میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اس کے برخلاف تحقیقی منصوبوں سے سیکھنے والے طلباء اپنی جستجو سے تحقیقی سرگرمی جو فعال اور متعلم مرکوز (Student Centered Education) ہوتی ہے خوب دلچسپی لے کر اپنے تحقیقی منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ بچے خود کرکے سیکھنے کا عمل پائیدار، موثر اور اُن کے لئے مفید ہوتا ہے۔ وہ سائنسداں اور محقق کی طرح کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے تحقیق کرکے سیکھے ہوئے علم سے طلبہ اپنی زندگی میں آنے والے مختلف مراحل اور مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ نیا طریقۂ تعلیم جو تحقیق اور ثبوت کی بنیاد پر ہوتا ہے، تعلیمی پالیسی کا حصہ ہونا چاہئئے، روایتی سائنسی تعلیم کو خیرآباد کہنا ہوگا اور جدید سائنسی طریقۂ تعلیم جو تحقیقی منصوبوں پر مشتمل ہے، تعلٰیمی اداروں (اسکولس، کالجس، اور یونیورسٹیز) میں لاگو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ