سماجی مضامین

مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی زبوں حالہ از محمد خورشید اکرم سوز


✍️ محمد خورشید اکرم سوز
_______________________
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
ہماری مسلم کمیونٹی کے اکثر و بیشتر افراد کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انفرادی سطح پر اپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر طرح کی جدو جہد کرنے کو تیار رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنی حیثیت سے زیادہ رقم بھی خرچ کرنے میں پیچھے نہیں رہتے، علاوہ زیں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں نمود و نمائش کیلے بھی بے دریغ خرچ کر دیں گے لیکن معاملہ جب کسی اجتماعی مسئلے کو حل کرنے کا ہو تب ہماری ساری جدوجہد صرف اور صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ پھر ہم ہماری کمیونٹی کیخلاف ہونے والی سازشوں کی جڑوں تک پہنچنے میں اپنی پوری توانائی ( Energy ) لگا دیتے ہیں اور اپنی بربادی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑتے ہوئے اپنی مظلومیت کا رونا رونے لگتے ہیں اور پھر اپنی مظلومیت کا تماشا بناتے ہوئے روڈ شو کرتے ہیں، لیکن جب در پیش مسائل کےحل کیلئے ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق جیب ڈھیلی کرنے کی بات آتی ہے تو دو چار فیصد لوگ بھی آگے نہیں آتے ۔ ابھی تازہ مثال ہے ” مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، اردو بازار، دہلی” کی بربادی کا، جس کے بارے میں معروف صحافی معصوم مراد آبادی صاحب کا ایک تفصیلی مضمون ” مکتبہ جامعہ بستر مرگ پر” گزشتہ دنوں کئی اخبارات میں شائع ہوا ہے اور معصوم صاحب کے فیس بک وال پر بھی گشت کر رہا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے مکتبہ جامعہ کے قیام کی سنہری تاریخ سے لے کر اس کی موجودہ زبوں حالی تک پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اس کے Reconstruction کیلئے اردو عوام و خواص کی جو ذمہ داری ہے اس جانب ان کا دھیان نہیں گیا ہے۔
میرے خیال میں مکتبہ جامعہ اور اس جیسے دیگر ادارے کی زبوں حالی کی ذمے داری ان تمام لوگوں کے اوپر ہے جن کی مادری زبان اردو ہے اور بالخصوص ان لوگوں پر جن کیلئے اردو زبان ذریعہء معاش ہے، مثلاً اردو کے پروفیسر صاحبان، سرکاری اسکولوں کے اردو کے اساتذہ وغیرہ جو اردو کے اخبارات و رسائل کی خریداری کو پیسوں کی بربادی سمجھتے ہیں۔ جب اردو کتابوں اور رسالوں کے خریدار ہی نہیں رہیں گے تو اسے شائع کرنے والے ادارے کیونکر زندہ رہ پائیں گے۔ ملک میں کم و بیش 25 کروڑ مسلمان ہونگے ، ان میں تقریباً 05 کروڑ کی مادری زبان اردو ہوگی ۔ ان پانچ کروڑ میں سے کم از کم ایک کروڑ لوگوں کو آگے آکر اپنی مادری زبان سے جڑے اداروں کی بقاء کیلئے کم از کم ایک ایک ہزار روپیہ نکالنا چاہئے۔ اس طرح ایک ہزار کروڑ روپے کا فنڈ تیار ہو جائے گا جس سے مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ اور ایسے دوسرے اداروں کو آن ، بان اور شان سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
*****

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ