مذہبی مضامین

سجدہ سہو نماز کا ایک اہم جزواز محمد ہاشم القاسمی

GNK URDU 19 April 2024

سجدہ سہو نماز کا ایک اہم جزو *

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) موبائل نمبر 9933598528 

لغت میں سہو، بھول، چوک، انجانی غلطی، خطا، قصور، لغزش، گناہ، کسی بات کا ذہن سے اُتر جانا، کسی بات کی چوک ہو جانا کو کہتے ہیں. انسان کو نسیان اور خطا سے فرار تو نہیں مگر ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:​ بلاشبہ اللہ تعالى نے ميرى امت سے خطا (غلطی) و نسيان (بھول چوک) اور جس (کام) پر انہيں (زور زبردستی سے) مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے. (ابن ماجہ، بیہقی) اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن نماز ہے، دوران نماز اگر کوئی بھول چوک ہو جائے مثلاً کوئی واجب چھوٹ گئی یا کوئی رکن کی ادائیگی میں تاخیر ہوگئی اور دوران نماز یاد آجائے یا دوران نماز مقتدی لقمہ دے کر یاد کرا دے وغیرہ تو اس کی وجہ سے نماز ختم کر کے از سر نو نماز نہیں پڑھی جاتی بلکہ اس نماز کو درست اور صحیح کرنے اور جو کمی یا زیادتی واقع ہوگئی ہے، اس کی تلافی کے لئے تشہد کے بعد دو سجدہ کیا جاتا ہے اُس کو سجدہٴ سہو کہتے ہیں. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کیے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر چکے تھے. حضرت ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو دو رکعتوں کے بعد (بھول کر) کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے “سبحان اللّٰه” کہا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جاری رکھی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا. (نسائی شریف) حضرت زیاد بن علاقہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی، جب انہوں نے دو رکعتیں پڑھا لیں تو اس کے بعد وہ کھڑے ہوگئے (تشہد کے لیے) نہیں بیٹھے۔ پیچھے سے لوگوں نے “سبحان اللّٰه” کہا تو انھوں نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ کھڑے ہو جاؤ، پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو انھوں نے سلام پھیرا پھر دو سجدے کیے اور سلام پھیرا۔ اس کے بعد فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ یہی کیا تھا (رواہ أحمد والترمذي )اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سجدہ سہو کب اور کیسے ادا کیا جائے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے، سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں پوری التحیات پڑھنے کے بعد (درود شریف اور دعا پڑھے بغیر) صرف دائیں طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرلیے جائیں، اور ہر سجدے میں حسبِ معمول “سبحان ربي الأعلى” کہے اور سجدے کے بعد بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر دائیں اور بائیں سلام پھیر دیا جائے۔ نصوص کی روشنی میں فقہاءِ احناف نے اسی طریقے کو ترجیح دی ہے، لہٰذا فقہ حنفی کے مطابق اسی پر عمل کیا جائے۔اسی کو سجدہ سہو کہتے ہیں.(دارالافتاء بنوری ٹاؤن) نماز کے اندر کچھ چیزیں فرض ہیں، کچھ واجب ہیں اور کچھ سنت یا مستحب اور اس کی ایک ترتیب ہے، اب اگر کسی شخص کا نماز میں بھول سے کوئی فرض چھوٹ جائے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوگی اسے دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے. ہاں اگر کوئی واجب چھوٹ جائے یا کوئی واجب دو مرتبہ ادا کر دے یا جو نماز کی ترتیب ہے اس سے آگے یا پیچھے ہوجائے تو سجدہ سہو لازم ہوگا اسی طرح اگر کوئی فرض میں تاخیر ہوجائے تو سجدہ سہو ادا کرنا ضروری ہوگا البتہ اگر کوئی سنت یا مستحب چھوٹ جائے تو نفس نماز ہو جائے گی. اس کے لئے کوئی سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں. اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کا علم ہونا چاہئے کہ نماز میں فرض کیا کیا ہیں ، اسی طرح واجبات نماز کیا کیا ہیں اور اسی طرح مستحبات کا علم ہونا بھی ضروری ہے تبھی تو سجدہ سہو صحیح طور پر ادا کرنے کا فیصلہ لیا جا سکتا ہے اس لئے آئیے سب سے پہلے معلوم کرتے ہیں کہ نماز میں فرض کیا ہے؟ نماز میں چھ فرائض ہیں: (1) تحریمہ یعنی اللہ اکبر سے نماز شروع کرنا۔ (2) قیام یعنی کھڑا ہونا۔(3) قرأت یعنی فرض نماز کی شروع کی دو رکعت میں اور سنن و نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں قرآن کریم کی کوئی بڑی ایک آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھنا۔ (4) رکوع کرنا۔ (5) سجدہ کرنا۔(6) تشہد پڑھنے کے بقدر قعدہ اخیرہ میں بیٹھنا۔ اور بعض حضرات کے نزدیک خروج بصنعہ یعنی اپنے ارادہ سے نماز سے نکلنا بھی فرض ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند) اور واجبات نماز یہ ہیں. درمختار میں نماز کے واجبات جو متفق علیہ ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں. (1) فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنن و نوافل کی تمام رکعتوں میں سورہٴ فاتحہ پڑھنا۔(2) سورہ ملانا، فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنن و نوافل کی تمام رکعتوں میں۔ (3) سورہٴ فاتحہ کو سورہ پر مقدم کرنا۔ (4) قرأة اور رکوع کے درمیان ترتیب رکھنا۔ (5) تعدیل ارکان کرنا۔ (6) قعدہ اولیٰ کرنا۔ (7) دونوں قعدے میں تشہد پڑھنا۔ (8) لفظ سلام کے ساتھ سلام پھیرنا۔ (9) نماز وتر میں دعاء قنوت پڑھنا۔ (10) تکبیرات عیدین کہنا (6/ زائد) ۔ (11) جہری نماز میں قرأة جہری کرنا۔ (12) سرّی نماز میں آہستہ قرأة کرنا۔ (13) مقتدی کا امام کے پیچھے خاموش رہنا۔ (14) مقتدی کے لئے امام کی متابعت کرنا۔ بعض لوگوں نے دو چار واجبات اور لکھے ہیں مگر وہ مختلف فیہ ہیں۔ (درمختار ) واللہ تعالیٰ اعلم (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)اسی طرح نماز میں کل اکیس (21) سنتیں ہیں، (تعلیم الاسلام، مؤلفہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) سے ان کی تفصیل منسلک ہے ،ملاحظہ فرمائیں ، نماز کی سُنّتوں سے کیا مراد ہے؟ جواب۔ جو چیزیں نماز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہوئی ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر ثابت نہیں ہوئی انہیں سنت کہتے ہیں ۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اگر بھولے سے چھوٹ جائے تو نہ نماز ٹوٹتی ہے نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے نہ گناہ ہوتا ہے ۔ اور قصداً چھوڑ دینے سے نماز تو نہیں ٹوٹتی اور نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے لیکن چھوڑنے والا ملامت کا مستحق ہوتا ہے. سوال۔ نماز میں کتنی سنتیں ہیں؟ جواب۔ نماز میں اکیس (21) سنتیں ہیں۔ (1) تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔(2) دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔(3) تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔ (4) امام کو تکبیر تحریمہ اور ایک رُکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر حاجت بلند آواز سے کہنا۔ (5) سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔ (6) ثنا پڑھنا۔ (7) تعوّذ یعنی اَعُوْذُ بِا للّٰہ الخ پڑھنا۔ (8) بِسْمِ اللّٰہ الخ پڑھنا۔ (9) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھنا۔ (10)آمین کہنا۔ (11) ثنا اور تعوّذ اور بسم اللہ اور آمین سب کو آہستہ پڑھنا۔ (12) سنت کے موافق کوئی قرأت کرنا یعنی جس جس نماز میں جس قدر قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اس کے موافق پڑھنا۔ (12) رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا ۔ (14)رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔ (15) قومہ میں امام کو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور مقتدی کو رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا ۔ اور منفرد کو تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔(16) سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ پھر پیشانی رکھنا۔ (17) جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔ (18) تشہّد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر انگلی سے اشارہ کرنا۔ (19) قعدہ اخیرہ میں تشہّد کے بعد درود شریف پڑھنا۔ (20) درود کے بعد دعا پڑھنا۔ (21) پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔ واللہ تعالیٰ اعلم (دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند) نماز میں بھول کر جن غلطیوں کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں : 1- نماز کے واجبات میں سے کسی ایک یا کئی واجبات کا چھوٹ جانا۔2- کسی واجب کی ادائیگی میں تاخیر یعنی دیر ہوجانا۔ 3- کسی واجب کو اس کی متعینہ جگہ سے ہٹا کر پہلے یا بعد میں ادا کرنا۔ 4- کسی فرض کو اس کی متعینہ جگہ سے ہٹا کر پہلے یا بعد میں اداکرنا ۔ 5- کسی فرض کو دو بار ادا کرلینا۔6- کسی واجب کو دو بار ادا کرلینا۔7- کسی واجب میں تبدیلی کر دینا، مثلا: جہری قرأت کی جگہ سری قرأت کرنا۔ 8-قعده اولی میں تشهد کے بعد اتنا پڑھا اللھم صلی علی محمد تو سجده سهو واجب هے۔اس وجہ سے نہیں کہ درود شریف پڑھا بلکہ اس وجہ سے کہ تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہوئی ۔ اسی طرح اگر کوئی تشہد کے بعد اتنی دیر تک سکوت کیا جب بھی سجده سہو واجب ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ درود پڑھنے والے پر تم کیوں سجده سہو واجب بتایا۔ انہوں نے عرض کیا اس لیے کہ اس نے بھول کر درود شریف کر پڑھا، اس جواب پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحسین فرمائی۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم. ان تمام صورتوں میں سجدہ سہو سے اس غلطی کی تلافی ہوجاتی ہے، البتہ اگر کوئی قصداً ان غلطیوں میں سے کوئی غلطی کرے ، تو پھر سجدۂ سہو سے تلافی نہیں ہوگی، بلکہ نماز کو اعادہ کرنا یعنی دوباره پڑھنا لازم ہوگا۔ نیز نماز میں اگر کوئی فرض چھوٹ جائے، تو اس کی تلافی سجدۂ سہو سے نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا اعادہ کرنا ضروری ہے ۔باقی سنن اور مستحبات میں سے جو چیزیں نماز میں ادا کی جاتی ہیں، ان کے چھوٹنے پر کچھ واجب نہیں ہوتا ہے. جس پر سجدۂ سہو واجب ہے اگر اسے سہو ہونا یاد نہ تھا۔ اور وہ نماز مکمل کرنے کی نیت سے سلام پھیر دیا تو وہ ابھی نماز سے باہر نہ ہوا بشرطیکہ سجدہ سہو کر لے لہٰذا جب تک کلام (بات چیت) وغیرہ یا کوئی فعل کثیر یا کوئی منافی نماز عمل نہ کیا ہو تو اسے چاہیے کہ سجدۂ سہو کر لے اور اگر سلام پھیر نے کے بعد سجدۂ سہو نہ کیا تو سلام پھیرنے کے وقت سے نماز سے باہر ہو گیا اور اگر یاد تھا کہ سہو ہوا ہے، اور نماز پوری کرنے کی نیت سے سلام پھیر دیا تو سلام پھیر تے ہی نما ز سے باہر ہو گیا، اب سجدۂ سہو سے نماز کی تکمیل نہیں ہو سکتی، بلکہ اب پوری نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا. یہاں سجدہ سہو کے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں ملاحظہ فرمائیں. سوال : اگر جمعہ یا عیدین کی نمازمیں سہو ہو جائے تو کیا حکم ہے؟جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگیالجواب بعون الملک الوہابــــــــــــــــبسم اللہ الرحمن الرحیماصل یہ ہے کہ سجدہ سہو کے حکم میں ہر نماز برابر ہے چاہے فرض ہو یا نفل۔ (فتاوی عالمگیری میں ہے)البتہ بطور خاص جمعہ کی نماز میں یوں ہی عید اور بقرعید کی نماز میں فقہائے کرام نے مصلحتاً یہ فرمایا ہے کہ اگر امام سےسہو واقع ہوجائے اور نمازیوں کی بھیڑ زیادہ ہو، تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ سہو نہ کرے ۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بھیڑ کی وجہ سے لوگ شبہ میں پڑ جائیں اور ان کی نماز خراب ہوجائے مثلا کوئی یہ سمجھ لے کہ یہ سلام نماز سے باہر آنے والا ہے ۔ تاہم اگر کوئی امام جمعہ یا عیدین میں سجدہ سہو کرلیتا ہے تو اس میں گناہ نہیں ہے اس لئے کہ اصل حکم کے مطابق یہ سجدہ جائز ہے ممنوع نہیں۔ہاں یہ خیال رہے کہ جمعہ و عیدین میں سجدہ سہو کا ساقط ہونا بھیڑ کیوجہ سے ہے پس جب بھیڑ نہ ہو تو سجدہ سہو ساقط نہیں ہوگا۔ *** 

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ