شخصی مضامین

صوفی تبسم ۔۔۔۔۔۔ ایک تعارف از قلم : شبیر احمد ڈار

جی این کے اردو 3 جولائی 2023

صوفی تبسم ۔۔۔۔۔۔ ایک تعارف

از قلم : شبیر احمد ڈار

           اردو ، فارسی اور پنجابی کے نامور  شاعر ، نثر نگار ،  ماہر تعلیم ، معلم ،  ماہر لسانیات ،باغ و بہار شخصیت  جناب غلام تبسم 4 اگست 1899ء  میں بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوٸے ۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک غلام تبسم کو لوگ صوفی تبسم کے نام سے جانتے ہیں ۔ صوفی تبسّم نے فارسی میں ایم ۔ اے کیا ۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فارسی اور دیگر علمی اداروں میں اپنی خدمات پیش کیں ۔

         ہفت روزہ ” لیل و نہار “ کے ایڈیٹر ، لاہور  کے ایرانی ثقافتی ادارے اور ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے ۔ اصناف نظم  اور نثر میں طبع آزمائی کی ۔ نظم ہو یا نثر ،  غزل ہو یا گیت ،  ملی نغمے،  بچوں کی نظمیں ، مضمون نویسی ہر صنف  کے شَہْ سَوار تھے ۔ آپ کی خدمات کے پیش نظر آپ کو 1962ء میں ” ستارہ خدمت “ اور 1967ء کو ”ستارہ امتیاز “سے بھی نوازا گیا۔ آپ کی شاعری کے دو مجموعے ” انجمن “ 1961ء میں اور ” دامن دل “ 1986ء  میں منظر عام پر آئے ۔  بچو ں کے لیے  سنو گپ شپ  ، جھولنے ،  ٹوٹ بٹوٹ اور اور ٹول مٹول خاص اہمیت کی  حامل ہیں ۔ 1965ء کی  جنگ میں آج کے  نغموں  نے آپ کو خاص شہرت دلادی ۔ آپ 7 فروری 1983 کو لاہور میں انتقال فرما گئے تھے ۔ آپ کی شاعری آپ کو  فکری و فنی خصوصیات کی بنا پر اپنے دور  کے ممتاز شعراء میں منفرد مقام دلاتی ہے ۔ کلام ملاحظہ کریں : 

ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا 

ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو 

☆☆☆☆☆☆

کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں 

ایک  دو  آنسو  نکل کر  رہ  گئے

☆☆☆☆☆☆

اک فقط یاد ہے جانا ان کا 

اور کچھ اس کے سوا یاد نہیں

☆☆☆☆☆☆

اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے 

بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی 

☆☆☆☆☆☆

چپکے چپکے ہنستے رہنا 

سب کچھ آنکھوں ہی میں کہنا 

سارے ان کے کام ہیں نیارے 

رات آئی اور جاگے تارے 

(نظم : تارے )

☆☆☆☆☆☆

بند ہو جائے مری آنکھ اگر 

اس دریچے کو کھلا رہنے دو 

یہ دریچہ ہے افق آئینہ 

اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر 

اس دریچے کو کھلا رہنے دو 

( نظم : بند ہو جاٸے مری آنکھ اگر )

☆☆☆☆☆☆

زندگی کیا ہے اک سفر کے سوا 

ایک دشوار رہ گزر کے سوا 

کیا ملا تشنۂ محبت کو 

ایک محروم سی نظر کے سوا

☆☆☆☆☆☆

علم کے تھے بہت حجاب مگر 

حسن کا سحر پر فسوں ہی رہا 

عقل نے لاکھ کی عناں گیری 

عشق آمادۂ جنوں ہی رہا 

(قطعہ )

☆☆☆☆☆☆

ہر زہر کو تریاک سمجھ کر پی لو 

تلخی کوئی ابھرے تو لبوں کو سی لو 

ہر سانس میں موت تلملانے لگ جائے 

جینا ہے اگر یہی تو بے شک جی لو 

( رباعی )

☆☆☆☆☆☆

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے 

آغاز  بھی رسوائی  انجام  بھی  رسوائی

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ