مذہبی مضامین

تزکیۂ نفس کا مہینہ رمضان المبارک از محمد ہاشم القاسمی

جی۔این۔کے اردو

محمد ہاشم القاسمی خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) 

فون نمبر :=9933598528 

انسانوں میں عام طور پر گناہوں کے دو محرکات ہوتے ہیں (1) نفس ، وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِيْ ۔۔ : یہ عزیز مصر کی بیوی کے کلام کا آخری حصہ ہے۔ گویا عزیز مصر کی بیوی یہ کہنا چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی، بیشک میں نے یوسف (علیہ السلام) کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکی، ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی، مجھ سے جتنی غلطی ہوئی اس کا اقرار و اعتراف کرتی ہوں، نفس کی شرارتوں سے تو وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو (مراد یوسف علیہ السلام ہیں) (سورہ یوسف) اور (2) شیطان، رمضان المبارک میں شیطان کا محرک اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا، صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے.”(بخاری و مسلم) اور مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ “شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے”. اس لئے اب صرف نفس کا محرک رہ جاتا ہے اور ایک دشمن سے مقابلہ آسان ہوتا ہے۔ اس لئے یہ امید کی جاتی ہے کہ جس کا رمضان خیرو خوبی سے بغیر گناہ کے گزر گیا اس کا پورا سال ان شاء اللہ خیریت سے گزر جائے گا، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہ ملیں۔ (1) یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔(2) یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ (3) یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔(4) یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ’’میرے (نیک) بندوں کے لئے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔ (5) یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔(البیهقي في شعب الإیمان) 

رمضان المبارک کو نفع بخش اور بہترین کمائی کے ساتھ گزارنے کے لیے مندرجہ ذیل اعمال کی طرف توجہ دینے کی کوشش کی جائے، (1) سب سے پہلے نگاہ کی حفاظت ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ” نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اس سے اللہ کے خوف سے بچا رہا تو اللہ اسے ایسا ایمان نصیب فرماتے ہیں جس کی حلاوت و لذت وہ قلب میں محسوس کرے گا۔” (2) زبان کی حفاظت ہے۔ یعنی جھوٹ، چغل خوری، لغویات، غیبت، عیب جوئی، بدگوئی، بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب اس میں داخل ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے” روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے” (بخاری شریف) اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ زبان سے فحش یا جہالت کی بات نہ کرے۔ کسی کا مذاق نہ اڑائے اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرے۔ اگر کوئی دوسرا کرنے لگے تو کہدے کہ میرا روزہ ہے۔ اگر وہ بے وقوف اور ناسمجھ ہے تو خود کو سمجھائے کہ تیرا روزہ ہے، تجھے ایسی بات کا جواب دینا مناسب نہیں، غیبت اور جھوٹ سے تو بہت ہی پرہیز کرے۔ (3) کان کی حفاظت ہے۔ ہر گندی اور مکروہ چیز سے جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائز ہے، ان کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے۔ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم کے بقیہ اعضا کو بھی ہر طرح کے غلط کاموں سے بچانا ضروری ہے۔ رمضان المبارک میں صرف دن میں روزہ اور رات کو تراویح ہی نہیں پڑھی جاتی بلکہ درحقیقت یہ رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کی سالانہ قلوب کی صفائی ” تزکیہ نفس” کا مہینہ ہے. زندگی کے گیارہ مہینے کی مصروفیات میں انسان کچھ نہ کچھ گناہوں کے میل کچیل کا شکار ہو جاتا ہے اور روح زنگ آلود ہونے لگتی ہے، اس لیے اللہ نے رمضان کا مہینہ عطا فرمایا تاکہ ہم اپنے گناہوں کے میل کچیل کو صاف کرلیں۔اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں لیلٰۃ القدر کا نزول ہوتا ہے جو رسول امت محمدیہ پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میں سے ایک عظیم عنایت اور رحمت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا “جب شب ِ قدر آتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ دنیا میں نازل ہوتے ہیں اور ہر وہ بندہ جو کھڑا یا بیٹھا ہوا اللہ کا ذکر کر رہا ہو بلکہ کسی بھی طریقے سے ذکر و عبادت میں مشغول ہو اس کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کرتے ہیں۔ اگر کسی خوش نصیب کو زندگی بھر میں صرف دس راتیں ہی گزارنے کی توفیق مل جائے تو گویا اس نے آٹھ سو تینتیس سال چار ماہ سے زیاہ کامل عبادت میں گزارنے کا ثواب حاصل کر لیا۔ اس لیے اس مہینہ کو فضول کاموں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے معبود کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے عبادت کی توفیق عطا فرمائی اور انعامات سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی صحیح طور پر قدر دانی کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ***

 

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ