کالم نگار

امانت از محمد ہاشم القاسمی

جی این کے اردو 3 جولائی 2023

 *امانت*
محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال) موبائل نمبر 9933598528


امانت” کے معنی کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ اور اعتماد کرنے کے آتے ہیں۔(المعجم الوسیط)  امانت دراصل عربی کا لفظ ہے جس کا مادَّہ  (اصل) ا، م، ن ہے اور اس کے معنی میں اہل لغت کے مطابق امن وامان، حفاظت، بھروسا اور ایمانداری جیسے مفہوم آتے ہیں۔ اس میں دل کے اطمینان اور اندیشوں سے آزادی کا معنی بھی شامل ہے۔ اس میں ایک اہم معنی طاقت اور قوت کا بھی آتا ہے جو دراصل کسی شخص کو امانت سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس لفظ کے اندر تین اہم معنوں کی طرف نشان دہی کی گئی ہے. (1) واجبات کی ادائیگی، (2)  ذمہ درایوں کو بحسن وخوبی پورا کرنا، (3)  اندیشوں کا خاتمہ کرنا.
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد   مقامات پر امانت داری کی تاکید     فرمائی ہے، ارشاد  باری تعالیٰ ہے.    ترجمہ: تو جو امین بنایا گیا ا سے   چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اور  چاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے    ڈرے۔(سورۃ البقرہ)  اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں امانت داری کو تقویٰ سے جوڑ دیا ہے یعنی جسے مرنے کے بعد کی زندگی، اپنے اعمال کاحساب کتاب،  اور میزان عدل پر یقین ہو ، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف  اور اس کی گرفت کا یقیں ہو ، اسے چاہیے کہ امانت میں خیانت نہ کرے، بلکہ جس کا جو حق ہے، اس کا وہ حق دنیا ہی میں پورا پورا  ادا کردے. رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے امانت داری کو  ایمان کی علامت  اور پہچان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس میں امانت داری نہیں، اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدے کی پابندی         نہیں اس میں دین نہیں.  (سنن                    بیہقی)                            
  اسلام امر بالمعروف یعنی ہر عمل    خیر کے کرنے کی ترغیب دیتا ہے       اور نہی عن المنکر یعنی ہر عمل شر سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے، انہی امر    بالمعروف یعنی عمل خیر میں سے  ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا مال یا سامان کسی مسلمان کے پاس بطور امانت رکھنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اگر وہ اُس مال یا سامان کی حفاظت کرسکتا ہے تو  حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے مطابق اُس مال یا سامان کو بطور امانت رکھ کر اپنے بھائی کی مدد کرے .   حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ  کفار مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس ذمے داری کو نبوت ملنے کے پہلے سے ہمیشہ بہ حسن خوبی انجام دیا کرتے تھے، چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امانت داری کا چرچا مکہ مکرمہ میں آپ کے نبی بنائے جانے سے پہلے ہی زباں زد عام و خاص تھا جس کی وجہ سے نبوت سے قبل ہی مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو “امین ” یعنی امانت دار کے پاکیزہ لقب اور صبح قیامت تک باقی رہنے والا تمغہ سے نوازا  تھا ۔ حضور اکرام صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کچھ لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ مکرمہ سے نکلنے سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وہ تمام امانتیں حوالے فرمائیں تاکہ صبح ہوتے ہی امانت دہندوں تک ان کی امانتیں پہنچائی جا سکے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کی تاریکی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ  مدینہ منورہ کے لئے ہجرت فرمائی ۔ اس رات حضرت علی کرم اللہ وجہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بستر پر ہی سوئے ،تاکہ صبح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیابت میں ساری امانتیں لوگوں کو واپس کردیں اور کسی شخص کو یہ وہم و گمان بھی نہ ہو کہ نعوذ باللہ حضور اکرم صلی  اللہ علیہ و سلم ہماری امانتیں لے کر چلے گئے. فتح مکہ کے موقع پر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عثمان بن طلحہ شیبی سے بیت اللہ کی کنجی لے کر اندر داخل ہوئے اور نماز پڑھ کر باہر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک پر یہ آیت جاری تھی “إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا” (النساء) اس آیت میں امانتیں ان کے             حقداروں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے، جس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کعبۃ اللہ کی کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالہ کردی۔(معارف القرآن)
اس آیت میں” کنجی”پر امانت کا اطلاق کیا گیا جبکہ کنجی کو ئی اہم مال نہیں بلکہ یہ خانہ کعبہ کی خدمت کی علامت ہے جس کا تعلق مال سے نہیں بلکہ عہد ے سے ہے ۔ اسے امانت سے تعبیر کرکے “عہدہ اور منصب” کو امانت قرار دیا گیا۔ نیز اس آیت میں الأَمَانَاتِ جمع کا صیغہ استعمال کر کے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔جن کی ادائیگی ہر صاحب ِ ایمان پر لازم ہے۔
اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امانت ایک طرف ان تمام دینی، سماجی، معاشی اور سیاسی ذمہ داریوں اور واجبات کا نام ہے جس کا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ اس کو پورا کریں اور ساتھ ہی امانت ایمانداری اور اس کی اس صفت کا بھی نام ہے جس کے واسطے کوئی ذمہ داریوں کو سونپے جانے کا مستحق ٹھہرے۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی امانت کا اطلاق متعدد چیزوں پر ہوا ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مجلس میں کچھ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آکر پوچھا، قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔” اعرابی نے پوچھا ” امانت کا ضیاع کیا ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب معاملات /مناصب نا اہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں (صحیح بخاری)۔ اس حدیث پاک میں عہدے اور منصب پر امانت کا اطلاق کیا گیا ہے ۔
ترمذی شریف کی ایک روایت میں مشورہ کو امانت قرار دیا گیا۔ “الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ۔”( سنن الترمذی )
اسی طرح ایک حدیث میں مجلس کی باتوں کو امانت کادرجہ دیا گیا ہے۔”الْمَجَالِسُ بِالأَمَانَۃِ۔” (سنن أبی داود )
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق میاں بیوی کے باہمی تعلقات بھی امانت ہیں۔(صحیح مسلم)
امانت نہ صرف ودیعت کے طور پر رکھے جانے والے مال کی حفاظت کرنے اور اسے لوٹا دینے کا نام  ہے بلکہ ہر وہ چیز جو دوسرے کو اس بھروسے پر سپرد کی جائے کہ وہ اس کا حق ادا کرے گا، امانت ہے۔
چنانچہ علامہ قرطبی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امانت دین کی تمام شرائط و عبادات کا نام ہے. (تفسیر قرطبی) ا مام رازی رحمۃاللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر”تفسیر کبیر” میں لکھتے ہیں کہ “امانت کا باب بہت وسیع ہے چنانچہ زبان کی امانت یہ ہے کہ اسے جھوٹ، غیبت، چغلی، کفر و بدعت اور فحش گوئی وغیرہ سے بچایا جائے، اور آنکھ کی امانت داری یہ ہے کہ اس کو حرام دیکھنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ اور کانوں کی امانت داری یہ ہے کہ لہو و لعب، فحش اور جھوٹ وغیرہ سننے میں انہیں استعمال نہ کیا جائے ۔
امانت داری کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امانت کو ایمان اور دینداری کا معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے ۔ اللہ کے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے “جس میں امانت داری نہیں، اس میں ایمان نہیں” . (سننِ بیہقی)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” جب تم میں چار چیزیں (خصائل) پائی جاتی ہوں تو اس دنیا میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (1) امانت کی حفاظت، (2)قول میں صداقت، (3)حسن خلق .(4)اور خوراک میں اعتدال۔ (مسند احمد، بیہقی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم کسی کو اللہ کی راہ میں امانت کو توڑتے ہوئے پاؤ تو اس کی اشیاء کو جلا دو اور اس کو پیٹو۔ (ابوداؤد)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” جب کوئی شخص (کسی دوسرے کو) کوئی بات بتاتا ہے اور اسے راز رکھنے کی تاکید کرتا ہے تو پھر وہ (بات) امانت ہے۔” (ترمذی، ابوداؤد)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” جس شخص نے تمہارے سپرد امانت کی ہے، اسے اس کی امانت لوٹا دو اور جس شخص نے تمہارے ساتھ دغا کیا تم  اس کے ساتھ دغا نہ کرو۔ (ترمذی     ابو داؤد)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے   روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو خطبہ دیتے مگر اس میں فرماتے” اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے واسطے امانت نہیں اور اس شخص کا پورا دین نہیں جس کا عہد نہیں۔ (بیہقی)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” مجھے اپنے نفس سے چھ باتوں کی ضمانت دو میں تم کو جنت کی ضمانت دوں۔(1) جس وقت بولو سچ بولو، (2)جب وعدہ کرو تو پورا کرو، (3)جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے ادا کرو (4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو (5) اپنی نگاہیں نیچی رکھو، (6)اپنے ہاتھ بند رکھو. (احمد بیہقی)
کسی کا مال یا سامان اپنے پاس بہ طور امانت رکھنا ایک مستحب عمل ہے جو باعث اجر و ثواب ہے۔ البتہ بعض حالات میں امانت رکھنا واجب ہوجاتا ہے، مثلاً کسی شخص کا مال غیر محفوظ ہے اور آپ کی امانت میں اس کے مال یا سامان کی حفاظت ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا ذمہ دار شخص موجود نہیں ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کے مال و سامان کو اپنے پاس بہ طور امانت رکھ لیں تاکہ اس شخص کا مال یا سامان محفوظ ہوسکے۔
اگر آپ امانت کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھیں۔ اگر کوئی سامان یا رقم بہ طور امانت رکھ دی گئی تو اس پر متعدد احکام مرتب ہوں گے، ان میں بعض حسب ذیل ہیں، مال یا سامان امین کے پاس بہ طور امانت رہے گا۔ امین کو حتی الامکان امانت یعنی ودیعہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ امانت دہندہ اپنا مال یا سامان کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے۔ اور امین بھی امانت کو کسی بھی وقت واپس کر سکتا ہے۔ امین امانت کی حفاظت یا اس کی بقا کے لیے جو رقم خرچ کرے گا وہ امانت دہندہ کو برداشت کرنی ہوگی، مثال کے طور پر جانور امانت میں رکھا گیا ہے، تو جانور کی خوراک اسکے چارے وغیرہ کا خرچ، اسی طرح اگر مکان امانت میں رکھا گیا ہے تو اس کی بجلی، پانی وغیرہ کے مصارف اور اسی طرح اگر مکان کی حفاظت کی غرض سے مرمت وغیرہ کچھ کام کروایا گیا تو اس کے مصارف امانت دہندہ کو برداشت کرنے ہوں گے۔ امین کے لیے جائز ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کے لیے اپنی اجرت کی شرط لگائے۔ اگر اجرت طے ہوئی ہے تو امانت دہندہ کو اجرت ادا کرنی ہوگی۔ ہاں اگر اجرت طے نہیں ہوئی لیکن امانت کی حفاظت کے لیے امین کو اپنی زمین کا قابل ذکر حصہ استعمال کرنا پڑ رہا ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ وہ اس کا کرایہ لے سکتا ہے۔
لیکن امانت رکھنے میں اصل اپنے بھائی یا پڑوسی یا دوست کی خیر خواہی اور بھلائی مطلوب ہوتی ہے، لہٰذا شروع ہی میں یہ معاملہ طے ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف رونما نہ ہو۔ اجرت لینے کی صورت میں بھی جمہور علماء کی رائے  یہ ہے کہ بہ طور امانت رکھا ہوا مال یا سامان اگر امین کی خیانت کے بغیر ضایع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ (جرمانہ) نہیں ہوگا۔ امین کو چاہیے کو وہ امانت سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے، ہاں اگر امین نے امانت دہندہ سے امانت میں رکھی ہوئی شے سے استفادہ کرنے کی اجازت لے لی ہے، تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت میں نقصان ہوا ہے، تو امین اس کا ذمے دار ہوگا۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ امانت میں رکھا ہوا مال یا سامان امین کے پاس بہ طور امانت ہوگا، چناں چہ اگر مال یا سامان امین کی کوتاہی کے بغیر ضائع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان آگیا تو امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت عبدﷲ بن مسعود اور حضرت جابر رضی ﷲ عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ امانت امین کے ہاتھوں میں بہ طور امانت ہوا کرتی ہے، یعنی اگر وہ امین کی کوتاہی کے بغیر ضائع ہو جائے یا اس میں کوئی نقصان ہوجائے تو امین پر اس کا کوئی تاوان نہیں ہوگا۔
البتہ اگر امانت دہندہ یہ دعوی کرے کہ امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت ضایع ہوئی ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ امین سے “قسم” لی جائے گی کہ اس نے امانت میں کوئی زیادتی یا کوتاہی تو نہیں کی ہے۔؟ اب اگر امین قسم کھا لیتا ہے تو پھر  اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا، اس لیے کہ وہ امین ہے، اللہ تعالیٰ نے ودیعہ کو امانت سے تعبیر کیا ہے، لہٰذا اصل میں اس کو بری الذمہ ہی قرار دیا جائے گا، الا یہ کہ متعدد شواہد اس کے جھوٹ پر واضح طور سے دلالت کریں۔
یہ ایسا حکم جس میں معاشرے کی خیر خواہی ہے، کیوں کہ امین خدمت خلق کے لیے امانت کو اپنے پاس رکھتا ہے۔ اگر امین کو ضامن قرار دیا جائے تو لوگ امانت رکھنے سے ہی اجتناب کریں گے جس میں عام لوگوں کا نقصان اور ضرر ہے، نیز یہ عمومی مصلحتوں کے خلاف بھی ہے۔
تمام فقہاء کرام کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ امانت میں رکھی ہوئی شے کے منافع امانت دہندہ کو ہی ملیں گے، مثال کے طور پر جانور امانت میں رکھا تھا، بچہ کی ولادت ہوگئی، اسی طرح امانت میں رکھے ہوئے باغ کے پھل، نیز زمین امانت میں رکھی تھی اس کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا، وغیرہ۔
امانت دہندہ (امانت گزار) اور امانت دار (امین ) میں چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، جس میں بنیادی دو شرطیں یہ ہیں کہ دونوں عاقل اور بالغ یا باشعور ہوں۔ اگر امین کا انتقال ہوگیا تو اس کے ورثاء پر لازم ہے کہ امانت یعنی ودیعہ امانت دہندہ کو واپس کریں۔
امین کے کسی لمبے سفر پر جانے کی صورت میں امین کو چاہیے کہ وہ امانت، امانت دہندہ کو واپس کرکے جائے، اگر اس وقت امانت دہندہ نہ ملے تو کسی شخص کو مکلف کردے کہ وہ امانت کو امانت دہندہ کے حوالہ کرے۔
امانت دہندہ کو چاہیے کہ امانت کی واپسی پر امین کا شکریہ ادا کرے، کیوں کہ اس نے لوجہ ﷲ یہ خدمت انجام دی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ ﷲ کا کیا شکر ادا کرے گا۔ (ترمذی) اگر امانت دہندہ، امین کو کوئی ہدیہ بھی پیش کردے تو بہتر ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا،  “اگر تمہارے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ کرے تو تم اس کو کچھ اپنی طرف سے پیش کردو۔”
اگر تمہارے پاس ہدیہ دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے تو تم اس کے لیے خوب دعائیں کرو۔ (ابوداؤد) دوسری جانب امانت دار کو اُس پر کوئی احسان نہیں جتانا چاہیے بلکہ اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر چل کر یہ عمل خیر کیا ہے، لہذا ﷲ تعالیٰ سے اس عمل خیر کے قبول ہونے اور اس پر اجر و ثواب کی دعا کرنی چاہیے۔
جو شخص کسی کا مزدور یا ملازم ہو اسے چاہیے کہ مالک اور ذمہ دار سامنے ہو یا نہ ہو مکمل دیانت داری کے ساتھ کام کر ے، نہ تو وقت میں کمی کرے اورنہ کام میں سستی اور نہ ہی اپنی صلاحیت کو استعمال کر نے سے گریز کرے، ان تینوں میں سے کچھ بھی پایا گیا تو خیانت شمار ہوگی؛ اس لیے کہ ایک ملازم کی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تنخواہ طے ہوتی ہے اگر اس نے کام کر نے میں پوری صلاحیت صرف نہ کی اورکسی بھی وجہ سے دلچسپی لیے بغیر محض ظاہری طور پر کام کر دیا تو کام میں وہ معنویت پیدا نہیں ہوگی جو ذمہ دار کو مطلوب تھی؛ اس لیے وہ تنخواہ بھی مشکوک ہو جا ئے گی اور خیانت کا بھی گناہ ہوگا ۔اسی طرح اگر مزدور وملازم سے پانچ چھ گھنٹے کام کرنے کا وقت طے ہوجائے اور پھر کام کر نے والا وقت میں چوری کرے،  وقت کے بعد آئے یا متعین وقت سے پہلے چلا جائے تو یہ بھی خیانت ہے، ایک مسلمان ملازم جو کائنات کے مالک کو سمیع و بصیر سمجھتا ہے اور اس پر پورا یقین رکھتا ہے اسے احساس ہو نا چاہیے کہ اگر چہ میرا مجازی مالک اور ذمہ دار مجھے نہیں دیکھ رہا ہے ؛ لیکن رب تو مجھے دیکھ رہا ہے، اس کی گرفت سے جوبچ گیا وہی کامیاب اور فلاح پانے والا ہے، اسی طرح کام میں سستی اور ٹال مٹول کر نا بھی خیانت ہے، وہ کام جو پانچ گھنٹے میں ہوسکتا تھا اس کو دس گھنٹے میں تکمیل کر نا، تاکہ مزید پیسے ملتے رہیں اور اس کے معاش کا مسئلہ حل ہو تا رہے ، یہ بری سوچ اور ناپسندیدہ عمل ہے، امانت داری کا تقاضا ہے کہ مکمل تندہی سے کام کو انجام دیا جائے پورا وقت اور پوری طاقت اس کے لیے صرف کی جائے، ورنہ وہ مالک کے ساتھ خیانت کر نے کا مرتکب ہوگا اور اس کا بھی حساب روز محشر میں دینا ہوگا.
اسلام میں “امانت ” اس قدر اہمیت کی حامل ہونے باوجود آج ہمارے معاشرے میں اسکا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا ، اچھے اچھے لوگ حاجی، نمازی بھی جو عرف میں دین دار سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی امانت اور حق کی ادائیگی سے کوسوں دور دکھائی دیتے ہیں.
غرض یہ کہ شریعت اسلامیہ نے ہمیں اپنے پاس امانت رکھنے اور امانت دہندہ کے مطالبے پر واپس کرنے، نیز مجھے جو فریضہ سونپا گیا ہے اسے بحسن و خوبی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خصوصی تعلیمات دی ہے ، کیوں کہ اس کے ذریعے آپس میں میل جول، محبت، ہمدردی اور ایک دوسرے پر بھروسا پیدا ہوتا ہے، جو ایک اچھے معاشرہ کے وجود اور تشکیل کا سبب بنتا ہے۔*** 

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ