جی این کے پبلی کیشنز

کوتاہیاں کی خوش بیانیاں از ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

جی این کے اردو، 27/جون 2023

کوتائیاں کی خوش بیانیاں
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری


ایس معشوق احمد کی کتاب” کوتائیاں ” کا مطالعہ فرحت بخش رہا اور مہندر پرتاب چاند کا مصرع یاد آیا:
غرض یہ ہے نہ ہو فکر و عمل میں کوتاہی
بے شک ایس معشوق احمد نے فکر و عمل میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ چند برس سے ان کے افسانے ‘ انشائیے اور مضامین پرنٹ اور سوشل میڈیا پر شائع ہوتے رہے تو کئی بار گفتگو کے دوران حوصلہ افزائی کرتے ہوئے راقم نے بتایا کہ آپ مضامین اور انشائیہ لکھنے کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھیں کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آپ کا ذہن انشائیہ لکھنے کی عمدہ صلاحیت رکھتا ہے۔ باقی رہا مضامین لکھنے کا کام وہ تو بہت سارے لوگ لکھتے رہتے ہیں اور آپ بھی لکھتے رہیں۔تاہم مضامین پر مشتمل ایک اہم کتاب” دبستان کشمیر کے درخشاں ستارے” لکھ کر انہوں نے ایک اہم ادبی کام انجام دیا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جو مشورے پر عمل کرتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایس معشوق احمد بھی ان میں سے ایک ہیں اور آج ان کی یہ کتاب پڑھ کر مسرت ہورہی ہے کہ واقعی ایس معشوق احمد کے اندر ایک اچھا انشائیہ نگار موجود ہے اور خوشی اس بات کی بھی ہے کہ کشمیر کی نوجوان نسل میں سے کوئی ایسا بھی انشائیہ نگار سامنے آیا ہے جو اس صنف کی آبیاری کرنے میں اہم خدمات انجام دے سکتا ہے۔ میرا طریقہ کار ہے کہ میں کسی کا دل رکھنے یا ناراضگی سے بچنے کے لئے خواہ مخواہ کی تعریف نہیں کرتا ہون۔ کئی لوگوں کی کتابوں پر میں نے اسی وجہ سے نہیں لکھا کیونکہ ان میں فنی اور زبان کی ناقابل بیان اغلاط ہوتی تھیں اور بالمشافہ یا کال کرکے انہیں بتا دیا کہ میں لکھنے سے کیوں قاصر ہوں۔
پیش نظر کتاب کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس کے بیشتر مضامین شگفتہ اسلوب کے حامل ہیں اور نفس موضوع کے مطابق خیال آرائی خوش بیانی سے کی گئی ہے جو کہ ایک انشائیہ کی بنیادی خصوصیت ہوتی ہےاور جوقاری کے ذوق جمال اور ذوق ظرافت میں لطافت بھردیتا ہے۔ اس میں طنزومزاح کے عناصر بھی موجود ہیں جس سے انشائیہ کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ مضامین میں اپنی بات یا موضوع کو آگے بڑھانے میں حسب ضرورت افسانوی اسلوب بھی اپنایا گیا ہے جس کے دوران کہیں کہیں تحریر میں واقعہ نگاری بھی درآئی ہے جس سے انشائیےکی شگفتگی میں اضافہ ہوا ہے۔خیال کے مطابق مناسب اشعار بھی حسن پیدا کررہے ہیں ۔ البتہ چند مضامین ایسے بھی ہیں جو بنیادی موضوع کو پیش کرتے کرتے کئی اور موضوع سامنے لارہے ہیں جو کہ انشائیہ کے فنی حدود سے باہر چھلانگ مارنے کے مترادف ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر سبھی مضامین پر بات نہیں ہوسکتی ہے ‘البتہ ایک انشائیہ”بائیک خریدنےکا خواب” کایہ اقتباس دیکھیں:
ایک عرصہ بعد مجھے احساس ہوا کہ اب مجھ میں پیدل چلنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ ہرگز نہیں سمجھنا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ اس کے سوا اس احساس کے پیچھے دو محرکات ہیں۔ ایک یہ کہ میرے بغل سے کل کے لونڈے فرفر سے اپنی بائیک نکال لیتے ہیں۔ اس کا مجھے گلہ نہیں لیکن جب سے صنف نازک نے اپنے نازک ہاتھوں میں بائیک کی پرخطر ہینڈل لی اور انہوں نے بھی کبھی میرے دائیں اور کبھی بائیں ہارن بجابجا کر قیامت کا شور برپا کیا تو شدت سے یہ احساس زور پکڑنے لگا کہ میرے پاس بھی کم از کم ایک عدد بائیک ہونی چاہے۔۔۔۔ “
انشائیہ میں بے ساختگی کا ہونا ضروری ہے اور ایس معشوق احمد کے بیشتر انشائیوں میں یہ جز نظرآتاہے۔ مطالعہ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے معیاری انشائیہ نگاروں کا مطالعہ کیا ہے جو کہ قابل ستائش بات ہے۔ اس طرح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایس معشوق احمد کے اندر انشائیہ لکھنے کی فکری اور تحریری مہارت کا ملکہ موجود ہے۔ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس فن کی طرف مزید سنجیدگی سے توجہ دیں گے اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرتے رہیں گے۔
کتاب سے متعلق بیک کور پر پروفیسر غیاث الرحمن کے توصیفی کلمات ہیں اور انشائیوں سے پہلےدرجہ ذیل معلومات افزا مضامین شامل ہیں:
معشوق احمد:ایک سحر بیان انشائیہ پرداز(پروفیسر خورشید احمد)’مرزا کہتے ہیں معشوق سنتے ہیں(ڈاکٹر فریدہ تبسم)’صنف انشائیہ کا عاشق معشوق(ڈاکٹر مظفر نازنین)’ معشوق احمد لفظوں کاساحر(وقار احمد ملک)’ یوسفی ثانی معشوق(شمع اختر انصاری) ‘ سنگین کو رنگین کرنے والا انشائیہ نگار(اقرا یونس)۔
یہ خوبصورت’ کتاب کیونکہ کاغذ اور چھپائی عمدہ ہے’ جی این کے پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔ امید ہے کتاب قاریین کو پسند آئے گی۔
…شاگرد عزیز ایس معشوق احمد کی صلاحیتوں کے لئے مسکراہٹ۔۔۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ