جی این کے اردو
سینئر صحافی سراج نقوی سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
انٹرویو نگار علیزےنجف سرائے میر اعظم گڈھ
سراج نقوی اردو میدان صحافت میں ایک معتبر مقام رکھتے ہیں، انھوں نے اردو صحافت کا معیار اور مقام بلند کرنے میں ایک خاص کردار ادا کیا ہے ان کی صحافت کی پہچان ان کی بیباکی اور بذلہ سنجی ہے، ان کا تعلق امروہہ جیسے علمی و ادبی سرزمین سے ہے جہاں کی مذہبی و مسلکی رواداری دنیا بھر میں مشہور ہے جہاں جون ایلیا جیسا مفکر،دانشور،فلسفی،نثر نگار اور اردو شاعری کی تاریخ کا منفرد شاعر پیدا ہوا۔ ان کا خاندان امروہہ میں ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے ان کی شخصیت سازی میں اس سرزمین سے جڑے کئی عناصر کے ساتھ ان کے خاندان کی تعلیمی روایت نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ راشٹریہ سہارا کی جب بھی بات کی جائے گی سراج نقوی کا ذکر اس میں نمایاں ہوگا عزیز برنی کے ساتھ انھوں نے اس اخبار کو اوج کمال پہ پہنچانے کے لئے اپنے شب و روز وقف کر دئے تھے روزنامہ راشٹریہ سہارا نے ان کی صلاحیت کو ایک ایسی راہ دکھائی جس پہ چل کر انھوں نے نہ صرف اپنی شناخت بنائی بلکہ اردو صحافت کی روایت کو مزید مستحکم کیا۔ سراج نقوی زندگی اور حالات کے حوالے سے ہمیشہ مثبت نظریے کے اپنانے کی بات کرتے ہیں، کیوں کہ ہر صورتحال میں ایسا کوئی نہ کوئی روزن ضرور موجود ہوتا ہے جو روشنی کا منبع بن سکتا ہے، سراج نقوی کی بذلہ سنج کالم قاری کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتے وہ ہر سنجیدہ بات میں مزاح کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال ہی لیتے ہیں یہ ان کے مزاج کی بھی ترجمانی کرتا ہے، اس وقت میں سراج نقوی کے سامنے میں بطور انٹرویو نگار کے حاضر ہوں موجودہ وقت کی صحافت اور سیاست ان کی شخصیت ان کے خاندان کے حوالے سے بےشمار سوالات میرے ذہن میں سر اٹھا رہے ہیں میں یکے بعد دیگرے ان سے وہ سارے سوالات کرنے جا رہی ہوں
علیزے نجف: سب سے پہلے اپنا بنیادی تعارف دیں اور بتائیں کہ آپ کی پیدائش کہاں ہوئی اور اس وقت کہاں مقیم ہیں؟
سراج نقوی: میرا قلمی نام سراج نقوی اور مکمل نام سراج مہدی نقوی ہے۔میری پیدائش عالمی شہرت یافتہ علمی و ادبی بستی امروہہ کے ایک اعلیٰ علمی خانوادے میں ہوئی، لیکن ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک کے تمام مراحل میرٹھ میں طے کیے ۔جہاں میرے والد وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ فی الحال میری رہائش امروہہ اور دلّی سے متصل ایک ٹاؤن شپ اندرا پورم دونوں ہی جگہ ہے۔ان دونوں کے درمیان دو گھنٹے سے بھی کم کا راستہ ہے ۔اس لیے میر ا وقت ضرورت کے مطابق دونوں ہی جگہ گزرتا ہے۔ دونوں ہی جگہ اپنا مکان ہے۔امروہہ کا مکان جدّی ہے۔
علیزے نجف ـ: آپ کا تعلق امروہہ جیسی تاریخی سرزمین سے ہے ،جس کی مٹّی نے بے شمار تابندہ شخصیات کو جنم دیا ۔میں چاہتی ہوں کہ آپ عصر حاضر میں امروہہ کی علمی و امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالیں۔یہ بھی بتائیں کہ اس مٹی نے آپ کی شخصیت پر کتنے اثرات مرتب کیے؟
سراج نقوی: امروہہ ہمیشہ سے ایک علمی و ادبی بستی کے طور پر نمایاں رہا ہے۔اس شہر کو آم و روہو مچھلی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔گھریلو صنعتوں میں یہ شہر سوتی قالین کی صنعت کے لیے مشہور ہے ۔یہاں کی منفرد انداز کی عزاداری اور مذہبی و مسلکی رواداری بھی دنیا بھرمیں مشہور ہے۔اس شہر میں آج بھی بے شمار معیاری شعراء ،نثر نگار،ادیب اور اس کے علاوہ جدید تعلیم کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے نوجوان قومی اور بین الاقوامی سطح پر امروہہ کا نام روشن کر رہے ہیں۔جہاں تک مجھ پر امروہہ کے ماحول کے اثرات کا تعلق ہے تو اس شہر کی جو علمی و ادبی فضا ہمیشہ رہی اور آج بھی ہے اس نے لا شعوری طور پر میرے خمیر میں بھی یہ ذوق پیدا کیا،اور اسی کے نتیجے میں صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو گیا۔
علیزے نجف: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیں،اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کی پرورش و پرداخت میں کن کن شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا،اور آپ کی نظر میں ان کی تربیت سازی کی خصوصیات کیا تھیں؟
سراج نقوی: میری پیدائش امروہہ کے اس محلے و گلی میں ہوئی کہ جس نے رئیس ؔامروہوی جیسا بلند قامت صحافی،ادیب اور قطعہ گوئی کو نئی و صحافتی جہت دینے والا شاعر پیدا کیا،جہاں جون ؔایلیا جیسا مفکر،دانشور،فلسفی،نثر نگار اور اردو شاعری کی تاریخ کا منفرد شاعر پیدا ہوا۔جہاں روزنامہ جنگ کے سابق مدیر اعلیٰ اور بین الاقوامی سطح کے فلسفی سید محمد تقی پیدا ہوئے۔جہاں کمال امروہی جیسی فلمی دنیا کی عظیم شخصیت اور معروف مکالمہ نگار وہدایت کار نے جنم لیا۔جہاں مشہور منقبت نگار قائم ؔامروہوی،مشہور مصور اقبال مہدی نے آنکھیں کھولیں ،اور جہاں عظیم ؔامروہوی جیسی رثائی ادب کی قد آور شخصیت کی پرورش ہوئی۔خود میرے والد اور میرے دو تایا اور ایک چچا عربی،فارسی اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے۔میرے سب سے بڑے تایا الطاف حسین کو ثریؔ کو جونؔ ایلیاجیسی شخصیت نے ایک مضمون میں ماہر لسانیات کے طور پر تسلیم کیا ہے۔خود میرے والد مذکورہ زبانوں میں مہارت کے ساتھ قانون خصوصاً مسلم عائلی قانون پر اچھی دسترس رکھتے تھے۔ اس پورے علمی و ادبی منظر نامے نے میری شخصیت کے خد و خال طے کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ظاہر ہے اس میں سب سے اہم رول میرے والد کا تھا۔ میری والدہ کا تعلق بھی ایک نامور مجتہد خاندان سے تھا ۔میرے نانا مجتہد تھے ۔اس طرح میری والدہ اور میرے ننیہال نے بھی میری کردار سازی میں بہت مدد کی۔
میرے پھوپی زاد بھائی اور رثائی ادب کی بڑی شخصیت ڈاکٹر عظیمؔ امروہوی سے بھی میری بہت قربت رہی اور انھوں نے بھی قدم قدم پر میری رہنمائی کی۔ان تمام شخصیات کی خوبی یہ تھی کہ مختلف موضوعات پر بہت جامع،مدلل اور عالمانہ انداز میں گفتگو کرتے تھے ۔اس ماحول نے میرے ادبی اور تخلیقی ذوق کو پروان چڑھایا اور میں نے ادبی،سماجی و سیاسی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ اوائل نوجوانی میں ہی بطور صحافی شروع کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اس وقت میں روزنامہ‘انقلاب’،روزنامہ ‘قومی آواز’(ای ایڈیشن) روزنامہ ‘اعتماد’،روزنامہ‘ممبئی اردونیوز’، روزنامہ ‘صحافت’، روزنامہ‘آگ’، روزنامہ ‘قومی تنظیم روز نامہ ’صدائے حسینی’’ اور اس کے علاوہ بھی کئی دیگر اخبارات میں مستقل کالم نگار کے طور پر سیاسی و سماجی موضوعات پر مضامین لکھ رہا ہوں۔ساتھ ہی ادبی ،نیم مذہبی اور ثقافتی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حالانکہ میں نے طالبعلمی اور اس کے کچھ عرصے بعد تک شاعری بھی کی،چند افسانے اور طنزیہ مضامین بھی لکھے لیکن جلد ہی یہ محسوس کر لیا کہ اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرسکتا۔ لہذٰا اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھایا۔البتہ روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ‘تلخیاں’ کالم لکھااور روز نامہ ‘انقلاب’ میں‘ کچوکے ’کے عنوان سے میں اب بھی یہی طنزیہ کالم لکھ رہا ہوں۔یہ کچھ اسی طرح کا کالم ہے کہ جیسا ‘ماہنامہ بیسویں صدی’ میں خوشتر گرامی ‘تیر و نشتر’کے عنوان سے لکھتے تھے۔
علیزے نجف: اپنے تعلیمی سفر کے بارے میں بتائیں۔آپ کو کس طرح کے اساتذہ ملے؟ان سے وابستہ کوئی یاد جسے آپ شئیر کرنا چاہیں؟
سراج نقوی: میں نے میرٹھ کے بی اے وی انٹر کالج سے ہائی اسکول،فیض عام انٹر کالج سے انٹر میڈئیٹ،میرٹھ کالج،میرٹھ سے گریجویشن،ایل ایل بی اور اردو میں ایم اے کیا۔آٹھویں کلاس میں مرزا منظور بیگ،انٹر میڈئیٹ میں جناب شفیق احمد صاحب نے میری رہنمائی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔خصوصاً شفیق احمد صاحب نے میری شخصیت کو بہت متاثر کیا۔یہ ان کی ہی کوششیں تھیں کہ جن کے سبب میں نے انٹر میڈئیٹ کے دوران کئی ریاستی اور کل ہند سطح کے تقریری مقابلوں میں شرکت کی اور کالج کے لیے ٹرافی جیتنے کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر بھی اوّل انعام حاصل کیا۔ایسے ہر مقابلے سے پہلے شفیق صاحب مجھے کسی منجھے ہوئے ہدایتکار کی طرح ٹریننگ دیتے تھے۔ گریجویشن سے اردو میں ایم اے کرنے تک ڈاکٹر امیر اللہ خان جیسے ماہر لسانیات ،ڈاکٹر بشیر بدر ؔجیسے عالمی شہرت یافتہ شاعر اور استاد اور پروفیسر خالد حسیں خاں کی قربت مجھے ملی۔شاہینؔ
صاحب کی مجھ پر خاص نظر عنایت رہی اور ان کی رہنمائی میں میں نے اقبالؔصدی کے موقع پر کولکاتا کے مسلم انسٹی ٹیوٹ میں منعقد کل ہند سطح کے مقابلہ مضمون نگاری میں گریجویشن زمرے میں اوّل انعام حاصل کیا۔
علیزے نجف: آپ نے اپنے دور کے تعلیمی نظام کو کیسا پایا۔تب کے اساتذہ آج کے اساتذہ سے کتنے مختلف تھے۔موجودہ نظام ِتعلیم کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟
سراج نقوی: جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے تعلیمی نظام اور اساتذہ کے رویّے میں فرق آرہا ہے۔ آج تعلیم کا شعبہ کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے اسی لیے اساتذہ کے رویّے میں بھی اس ملنساری اورشاگردوں کے تعلق سے خلوص میں کمی ہے کہ جو پہلے کے اساتذہ میں نظر آتی تھی۔ان کی دلچسپی تعلیمی کامیابی سے زیادہ مالی منفعت میں ہے ۔جب کہ پہلے اساتذہ بے لوث انداز میں طلباء کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق ایک ایسے علمی خانوادے سے ہے جس میں عصری اور مذہبی دونوں طرح کی تعلیم کو یکساں اہمیت حاصل رہی۔آپ کی شخصیت کی تشکیل میں عصری تعلیم کے ساتھ مذہبی رجحان کا کتنا دخل رہا،اور کیا مذہبی تعلیم کے بغیر ایک متوازن شخصیت کی تشکیل ممکن ہے؟
سراج نقوی: جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میرے نانا ایک بڑے عالم دین اور مجتہد تھے،لیکن میرے والد بھی وکالت جیسے پیشے سے وابستہ ہونے کے باوجود بہت مذہبی ،پنجگانہ نمازی اور مذہب کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنے والی شخصیت تھے۔اسی لیے انھوں نے میری تربیت میں مذہبی کٹّر پن کی بجائے اس رواداری،اخلاقیات اور دیگر انسانی خوبیوں کو ہی اہمیت دی کہ جس کی تلقین اسلام نے سب سے زیادہ کی ہے۔میں مانتا ہوں کہ اگر کسی بھی مذہب کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھا جائے تو اس سے کسی بھی انسان کی شخصیت کو متوازن بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔البتّہ اگر مذہب کے نام پر کٹّر پن کو اپنایا جائے تو پھر مذہب کے نام پر شرانگیزی اور فتنہ و فساد ہوتا ہے۔
علیزے نجف: ہر انسان اپنے اندر امکانات کی دنیا سمیٹے ہوئے ہے،میں جاننا چاہتی ہوں کہ ان امکانات یا پوٹینشیل کو کس طرح بروئے کار لایا جا سکتا ہے؟کیا اس معاملے میں تعلیمی نظام اور خاندان کی کوششوں کے علاوہ ذاتی کوششیں بھی ضروری ہیں؟
سراج نقوی: ہر انسان تھوڑے سے غور و فکر کے بعد یا کچھ ابتدائی تجربوں کے بعد یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ اپنی مثبت صلاحیتوں کا بہترین استعمال کس طرح کر سکتا ہے۔اس معاملے میں ہمیں دوسروں کے مشوروں سے سیکھنے کے باوجود خود اپنے شعور کے مطابق فیصلہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔مثلاً خود میں نے اپنے معاملے میں عرض کیا کہ شاعری،افسانہ نگاری یا چند دوسرے شعبوں میں ابتدائی تجربوں کے بعد یہ محسوس کیا کہ میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کس شعبے میں کر سکتا ہوں اور میں نے اس پر عمل کیا۔ہر آدمی کو اللہ نے اس شعور سے نوازا ہے بشرطیکہ وہ اس کا ادراک کرے۔جہاں تک تعلیمی نظام ،خاندانی یا ذاتی کوششوں کا معاملہ ہے تو ان سب کی بھی ہر انسان کی تعمیر و ترقی میں اہمیت مسلّم ہے۔
علیزے نجف: کہتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا والدین کے لیے ذہن سازی کے مماثل ہوتا ہے۔آپ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے کن مراحل سے گزرے اور یہ تجربہ آپ کے لیے مجموعی طور پر کیسا رہا؟
سراج نقوی:بچّوں کی تعلیم و تربیت میں والدین کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔انھیں اپنے بچّوں کے سامنے اس معاملے میں عملی نمونہ بننا پڑتا ہے۔میں نے اور میری اہلیہ نے ان باتوں کا اپنے بچّوں کی تربیت میں خاص خیال رکھا۔مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ؑ کا ایک مشہور قول ہے کہ ،‘‘اپنے بچّوں کو اپنی سی تعلیم مت دو اس لیے کہ وہ تمھارے دور کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔اسکولی تعلیم کے معاملے میں ہم نے بچوں کے تعلق سے اسی اصول کو اپنایا۔بدلتی ہوئی اور جدید اقدار کے ساتھ روائتی اخلاقی اقدار کو بھی ان کی تربیت سازی میں اس طرح اہمیت دی کہ بچوں کو یہ احسا س نہ ہو کہ انھیں فرسودہ روایات کا پابند بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایسے معاملوں میں جس محتاط توازن کی ضرورت ہوتی ہے اس کا خیال رکھا گیا۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ماشااللہ میرے تینوں بیٹے عصری علوم حاصل کرنے کے ساتھ اسلامی اقدار پر بھی عمل پیرا ہیں،اور جدیدیت کے جنون میں لا مذہبیت کی طرف نہیں گئے ہیں۔ انھیں تمام اخلاقی،سماجی اقدار اور رواداری کو اسلام کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے۔اس لیے کہ اسلام صحیح معنیٰ میں ہمیں ہر طرح کے معاشرے میں جینے کا بہترین طریقہ بتاتا ہے۔
علیزے نجف: میں جاننا چاہوں گی کہ آپ کا رجحان صحافت کی طرف کیسے ہوا ،اور آپ نے اس سفر کا آغاز کب اور کہاں سے کیا۔اگر آپ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
سراج نقوی: دراصل کیونکہ میرے والد وکیل تھے اس لیے میں نے بھی ایل ایل بی کرنے کے بعد میرٹھ میں ہی وکالت شروع کر دی تھی،لیکن اس دوران میں اس بات کے لیے کوشاں تھا کہ وکالت کی بجائے کسی ڈگری کالج میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو جاؤں اور اپنے ذوق کے مطابق اپنی قلمی کاوشیں بھی جاری رکھوں جو وکالت سے پہلے ہی میں شروع کر چکا تھا،لیکن جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ میں اپنی شاعری،افسانہ نگاری ،یا پھر وکالت سے بھی مطمئن نہیں تھا۔حالانکہ زمانہ طالبعلمی سے ہی میری کچھ غزلیں دلّی کے کچھ روزناموں میں شائع ہو چکی تھیں۔ بہت کم عرصے کے لیے میں میرٹھ کے ایک اخبار اور دلّی کی ایک فیچر ایجنسی سے بھی وابستہ رہا،لیکن یہ مدت ایسی بہرحال نہیں تھی کہ میں صحافت سے پوری طرح وابستہ ہونے کے بارے میں سوچتا۔اسی دوران مجھے وکالت کے ساتھ جزوی طور پر میرٹھ سے اردو میں شائع ہونے والے روزنامہ ‘پربھات’ میں کام کرنے کا موقع ملا۔اس اخبار میں کام کے پہلے ہی دن مجھے یہ محسوس ہوا کہ اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کر سکتا ہوں،اور میں نے صحاٖفت سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا۔اسے میں صرف اپنی خوش نصیبی ہی کہوں گا کہ مجھے تھوڑی بہت جد و جہد کے بعد1994میں ‘روزنامہ راشٹریہ سہارا’ میں ملازمت مل گئی اور اس طرح ہندوستان کی تاریخ کے پہلے سب سے بڑے اور تما م جدید سہولیات سے مزیّن اخبار میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔اس اخبار میں کیونکہ تنخواہیں بھی اور سہولیات بھی دوسرے اردو اخبارات کے مقابلے میں کافی تھیں اسی لیے صحافت کو شوق اور ذریعہ روزگار بنانے میں مجھے کوئی دشواری نہ ہوئی۔ملازمت کے دوران روزنامہ ‘راشٹریہ سہارا’ سے متعلق کئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ساتھ میں ہفت روزہ ‘عالمی سہارا’کا ایڈیٹوریل انچارج بھی رہا۔اسی پلیٹ فارم نے مجھے شہرت اور عزت کے ساتھ مالی اعتبار سے بھی اس لائق بنایا کہ بچوّں کو معیاری تعلیم دلا سکا۔میری اہلیہ بھی ‘ہولی ٹرینیٹی اسکول’ میں کیونکہ ریاضی کی ٹیچر ہیں اس لیے معاشی اطمینان کے ساتھ بچّوں کی جدید تعلیم میں بھی اس سے مدد ملی۔البتہ یہ بات طے ہے کہ اگر میں صحافی نہ ہوتا تو پھر درس تدریس کے پیشے سے ہی وابستہ ہوتا۔
علیزے نجف: بطور صحافی یہ بتائیں کہ آپ کی نظر میں صحت مند اور موثر سیاست کے تین بنیادی اصول کیا ہیں؟
سراج نقوی: شاعر مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا کہ،‘‘جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی’’،تو معاملہ یہ ہے کہ سیاست کسی بھی ملک یا خطّے کی ہو اور مذہب کوئی بھی ہو ان دونوں کو ساتھ لیکر ہی اعلیٰ اقدار پر مبنی سیاست ہو سکتی ہے۔ایک اچھے صحافی کے لیے ایمانداری،لگن اور اپنے موضوع پر گرفت ہونا بہت ضروری ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہونگا کہ مذہب اور سیاست کے تعلق کو عصری سیاست میں مذہب کے غلط استعمال سے نہ جوڑا جائے۔اسلام ہو یا ہندوازم یا پھر کوئی بھی دوسرا مذہب ان سب کے نام پر شر پھیلانا کسی طرح جائز نہیں ،اور نہ ہی سچّا مذہبی ہونے کا ثبوت ہے۔ ہے۔سیاست کو جب تک ہر مذہب کی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے نہ جوڑا جائے گا تب تک اس کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔
علیزے نجف: سیاست میں عوام ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں،تو اگر سیاست اپنے بنیادی اصولوں سے منحرف ہو جائے اور اس میں آمریت کو فروغ ملنا شروع ہو جائے تو اس کے لیے عوام کس حد تک ذمہ دار ہیں،اور اس آمریت کو روکنے کے لیے عوام کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟
سراج نقوی: جمہوری سیاست میں عوام ہی اپنے نمائیندوں کا انتخاب کرتے ہیں۔اس لیے اگر جمہوریت کی راہ سے کوئی لیڈر آمریت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس بات کی بڑی ذمہ داری عوام پر ہی عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے کسی ایسے نمائندے کو منتخب ہی کیوں کیا کہ جو جمہوریت کی جڑیں کاٹے۔دراصل محدود مفادات اور سیاسی خود غرضیاں غلط نمائندوں کے انتخاب کا سبب بنتی ہیں۔ایسی قیادت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے درس عدم تشدد پر چلتے ہوئے لیکن پوری مضبوطی اور قوت ارادی و اتحاد کے ساتھ آمروں کے خلاف جد و جہد کرنا ضروری ہے۔امام حسینؑ نے میدان کربلا میں دنیا کو یہی درس دیا کہ کس طرح پر امن طریقے سے آمریت کا سر کچلا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: آپ روزنامہ راشٹریہ سہارا اور عالمی سہارا سے بھی بطور مدیر وابستہ رہے۔اس حوالے سے یہ بتائیں کہ ایک کامیاب ایڈیٹر بننے کے لیے صحافتی قابلیت یا لیاقت کے ساتھ مزید کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔یہ صلاحیتیں خدا داد ہوتی ہیں یا انھیں سیکھا بھی جا سکتاہے؟
سراج نقوی: خداداد صلاحیتوں کے بغیر کوئی بھی تخلیقی کام ممکن نہیں۔صحافت کا بھی یہی معاملہ ہے۔اس کے ساتھ مختلف کورسز کے ذریعہ،تجربوں سے اور اس پیشے کے سینئیر افراد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتاہے۔یہ ایک طویل عمل ضرور ہے،لیکن ہر تخلیقی کام میں اس کی اپنی اہمیت ہے۔صحافت کے تئیں ایمانداری اور عصری معاملات کے تئیں آگہی بھی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ہی بات کو سلیقے اور ممکنہ اہم پہلوؤں کے ساتھ بیان کرنابھی ضروری ہے۔کون سے موضوعات انسانیت اور سماج کو بیدار کرنے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں اس کا شعور صحافی کو ہونا چاہیے۔
علیزے نجف: اردو صحافت میں لکھنے والے تو کم نہیں البتہ معیاری لکھنے والے ضرور کم ہیں۔آج صحافی کا مقصد محض شہرت اور اشاعت ہو گیا ہے،اس کے لیے وہ دوسروں کے خیالات کو اپنے نام سے ہو بہو نقل کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔اس منظر نامے پر آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
سراج نقوی: یہ درست ہے کہ اردو صحافت میں معیاری تحریریں کم سامنے آرہی ہیں۔اس کا سبب ایک طرف کچھ اردو صحافیوں کی زبان اور موضوعات پر گرفت میں کمی بھی ہے اور بات کو پر اثر طریقے سے کہنے کی صلاحیت کا فقدان بھی ہے۔جہاں تک دوسروں کے کے خیالات کو ہو بہو نقل کرنے کا معاملہ ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔صحافت سے لیکر ،تنقید،تحقیق،شاعری،افسانہ نگاری سمیت تمام شعبوں میں یہ وبا پائی جاتی ہے۔بلکہ
صحافت میں یہ بات کسی قدر کم ہے،اس لیے کہ صحافت کے بہت سے موضوعات عصری منظر نامہ بدل جانے کے سبب غیر اہم ہو جاتے ہیں ایسے میں نقل یا چربہ کرنے کی گنجائش کم ہی رہتی ہے۔جبکہ شاعری میں توارد کے نام پر دوسروں کے اشعار کا چربہ کرنے کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔آج کل تو سوشل میڈیا میں غالبؔ،اقبالؔ اور جونؔ ایلیا کے نام سے انتہائی غیر معیاری تک بندی کو منسوب کرنا اور بڑے شعراء کے اشعار کو اپنا بتا کر پیش کرنا عام بات ہے۔حد تو یہ ہے کہ تحقیق کے شعبے میں بھی اب چربہ عام بات ہو گئی ہے۔ایک اچھے صحافی کو ان باتوں سے بچنا چاہیے۔البتہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ باتیں لاشعور سے نکل کر شعور میں اس طرح آ جاتی ہیں کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ اپنی فکر کا نتیجہ ہے یا غیر محسوس طریقے سے اس میں دوسروں کے خیالات بھی در آئے ہیں۔
علیزے نجف: صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے،لیکن آج کل ہمارے ملک میں صحافت کو جو خطرات درپیش ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ایک صحافی کو کیا کرنا چاہیے؟ایک طرف قومی و ملکی مفادات ہیں تو دوسری طرف میڈیاپر برسر اقتدار لوگوں کا دباؤ۔ ایسے میں دونوں کے درمیا ن کس طرح توازن قائم کیا جا سکتا ہے؟
سراج نقوی: اگر آپ صحافت کو مشن کے طور پر اپنا رہے ہیں تو معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے روزگار کے متبادل ذرائع تلاش کرکے صحافت کو ایمانداری کے ساتھ جاری رکھ سکتے ہیں۔زیادہ دباؤ کی صورت میں بھی بغیر اپنے اصولوں سے سمجھوتا کیے اور متوازن زبان میں اپنی بات کہہ سکتے ہیں،لیکن اگر یہ سب کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہے تو پھر اسے صحافی کہلانے کا حق نہیں۔تمام تر دباؤ کے باوجود آج بھی ہر زبان میں ایسے بیشمار صحافی ہیں کہ جو سچ لکھنے کے خطرات کے باوجود سچ ہی لکھ رہے ہیں۔
علیزے نجف: آپ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب بھی ہیں۔آپ کی تین کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔سیاست کے علاوہ آپ نے کن موضوعات پر بکثرت لکھاہے؟ مستقبل قریب میں شائع ہونے والی اپنی کتابوں کے بارے میں بتائیں؟
سراج نقوی: میری صحافتی تحریروں میں سیاست کے علاوہ تہذیب،ثقافت،سماجیات سمیت ایسے کئی موضوعات شامل ہیں کہ جن کا ہمارے معاشرے سے گہرا تعلق ہے ۔اپنے ایسے مضامین کو میں جلد ہی کتابی شکل میں پیش کرنے کا ارداہ رکھتا ہوں۔اس کے علاوہ کربلا اور اس کی آفاقی اہمیت و افادیت پر دیگر بڑے قلمکاروں کی بہت سی اہم تحریروں کو بھی میں کتابی شکل میں مرتب کر رہا ہوں۔میں نے چند نیم مذہبی موضوعات پر بھی کچھ مضامین تحریر کیے ہیں ۔ان کی بھی کتابی شکل میں اشاعت کا ارادہ ہے۔اب تک جو کتابیں آئی ہیں ان میں دو کتابیں ادبی تحریروں پر مشتمل ہیں ،جبکہ تیسری کتاب ‘تیر و نشتر’ والے انداز میں لکھے گئے میرے اخباری کالم کا انتخاب ہے۔
علیزے نجف : سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کی یلغار ہے۔کیا اس کے ذریعہ ادب کی خدمت ہو رہی ہے ،یا اس کے منفی اثرات بھی ہیں جن کا سد باب ضروری ہے؟
سراج نقوی: اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نے سماج میں ایک انقلاب پیدا کیاہے،
لیکن اس کے استعمال کے لیے ہر انسان کو اپنی فکر اور شعور کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔سوشل میڈیا پر کیا پڑھا یا دیکھا جائے اور کیا نہ پڑھا یا دیکھا جائے، اس کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے اگر آپ منفی مواد کی سمت رخ کرینگے تو ‘مصنوعی ذہانت ’آپ کے سامنے ایسے مواد کا ڈھیر لگا دیگی اور آپ گمراہ ہو سکتے ہیں،جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات یا معلومات بھی آپ کی فکر کو گمراہ کر سکتی ہیں۔دوسری طرف انٹر نیٹ پر مختلف موضوعات پر موجود لاکھوں کتابیں آپ کے ذوق مطالع کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ آپکی فکر کو مثبت رخ دینے میں مدگار ہو سکتی ہیں۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کا سد باب کسطرح کیا جائے تو ایک عمر تک اس معاملے میں والدین یا اساتذہ اور پھر آپ کا شعور ہی اہم رول ادا کر سکتا ہے۔غلط مواد کی نشاندہی کرکے آپ خود تو اس بچ سکتے ہیں لیکن اس کا مکمل سد باب ممکن نہیں۔
علیزے نجف: اللہ نے آپ کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ان نعمتوں میں آپ کو کون سی نعمت سب سے زیادہ عزیز ہے اور کیوں؟
سراج نقوی: میں اپنے وطن عزیز ہندوستان،اس کے بعد اپنے اجداد کے شہر امروہہ کو بھی اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں میں شمار کرتا ہوں۔میرا خانوادہ،میرے اجداد خصوصاً والدین، ،میری مخلص اہلیہ،میرے تین لائق بیٹے اور میری تین ہونہار بہوئیں،میرے تمام دوست اور میرے صحافتی سفر میں اپنے اخبارات کے ذریعہ میرے ساتھ تعاون کرنے والے تمام مدیر میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔میں اس کے لیے بھی اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے غم حسینؑ جیسی عظیم دولت سے نواز کر بہت سی باطنی نعمتیں عطا کیں۔لیکن میں ان نعمتوں کے درمیان کسی طرح کے تقابل کا قائل نہیں۔
علیزے نجف: اگر آپ کو اپنی اب تک زندگی کو ایک سطر میں سمیٹنا ہو تو وہ سطر کیا ہوگی؟وہ کون سا سبق ہے جو آپ نے اب تک کی زندگی سے سیکھا اور جو آپ کے دل پر نقش ہے؟
سراج نقوی: ‘کوشش کی کہ زندگی اور حالات کے تعلق سے زیادہ سے زیادہ مثبت رہوں۔’
مولا علیؑ کا قول ہے کہ،‘‘جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔’’ میں نے اپنے تعلقات کے معاملے میں اس قول کو کچھ مستثنیات کے ساتھ ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔
علیزے نجف: اس انٹر ویو کے دوران آپ کے احساسات کیا رہے۔سوالات کے تعلق سے آپ کیا کہنا چاہینگے؟کیا آپ صحافت کے پیشے سے وابستہ لوگوں کو کئی پیغام دینا چاہیں گے؟
سراج نقوی: میں اس انٹرویو کے لیے آپ کا شکر گزار اور آپ کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔آپ نے جو سوالات مجھ سے کیے وہ میری زندگی کے بیشتر پہلؤوں کا احاطہ کرنے والے ہیں۔بطور صحافی میں اپنے تمام چھوٹے بھائیوں اور نو واردان صحافت سے صرف یہ کہنا چاہونگا کہ اس پیشے کو مشن کے طور پر لیتے ہوئے ذاتی مفادات سے آزاد رکھیں اور ایمانداری سے اپنی بات کہنے کے باوجود ذاتی مخاصمت سے بچیں۔
صحافت کو سماج کی تعمیر و ترقی کا وسیلہ بنائیں ۔