افسانہ افسانوی نثر

پھول اور خوشبو (تحریر) از ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری، افسانہ ایونٹ 2022 ، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 45

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر_45
بینر :- عمران یوسف


افسانہ:- پھول اورخوشبو


افسانہ نگار :- ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری


آسمان کی بارش سے سمندر کا پیٹ پُرہورہاتھا۔دھوپ نکلتے ہی جب سورج کی کرنیں سمندر کے سینے کو چیرنے لگیں تو بارش کا یہی پانی بھاپ بن کر پھر سے آسمان کی جانب اٹھنے لگا۔چالیس سال سے وہ اپنے گھرکے کتب خانے کی سمندر والی کھڑکی سے یہ نظارہ دیکھتے آیا تھا۔بچپن میں جب وہ بارش اور سمندر کا یہ نظارہ دیکھتا تو لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر سے ایک عجیب قسم کااضطراب پیدا ہوجاتااور یہ اضطراب اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتا جب وہ بارش تھم جانے کے بعد آسمان کی طرف دیکھتا رہتا۔کبھی کبھی وہ سوچتا:
”بارش سے سمندر…. سمندر سے بارش اور پھر بارش سے سمندر…کتنا حسین رشتہ ہے۔ان دونوں کاوجود ایک دوسرے کے بغیر ادھورا ہے۔“
بچپن میں اس کی سوچ بس اسی خیال تک محدود تھی۔لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ روح کی بے قراری میں اضافہ ہوتا گیا۔صبح کے وقت وہ مکتب چلا جاتا اور اس کے بعد سرکاری اسکول۔ایک دن جب استاد نے بورڈ پر درخت اور سیب کی تصویر بنائی اور نیوٹن کے فارملے ’کشش ثقل‘ کو سمجھانے لگا کہ پیڑ سے سیب اسی کشش کی وجہ سے زمین پر گرتا ہے یعنی یہ زمین اور سیب کا رشتہ ہوا تو اس کے اندر سے سمندر بارش کا تعلق موجیں مارنے لگا اور روح میں ایک ہلچل سی مچ اٹھی۔ یہی کیفیت اس پر اذان کے الفاظ”حی علی الفلاح“سن کر طاری ہوجاتی اور مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کے ساتھ ہی اس کی روح تسکین کی مٹھاس سے سرشار ہوجاتی۔پھر وہ مسجد کے مکتب میں کچھ دیر تک امام صاحب کے پاس بیٹھ جاتا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ آنکھیں بند کرکے پند ونصیحت سے اطمینان کی سانس لیتا۔
جب اس کی سوجھ بوجھ تھوڑی بہت بڑھ گئی تو بارش اور سمندر کے کھیل کا چکر اس پر زیادہ اثر انداز ہونے لگا۔وہ کئی کئی گھنٹوں تک روح کی پیاس کے بارے میں کھوکر سوچتا رہتا۔موسم سرما میں ایک دن وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر صحن کے پیڑ پر بیٹھے ایک گم سم پرندے پر پڑی۔پرندہ بہت خوبصورت تھا۔جو کہ سرما میں کسی اور خطہ سے ہجرت کرکے وہاں چلاآیا تھا کیونکہ اس موسم میں اکثر دوسرے خطوں کے پرندے وہاں آتے رہتے تھے۔ لیکن اس کی مایوس صورت سے لگ رہا تھا کہ غالباََاپنے ساتھی کے بچھڑنے کے فراق میں اس کا دل ڈوبتا جارہا ہے۔ دھیرے دھیرے اسے بھی ایسا محسوس ہونے لگاکہ اس کی روح کسی مہاجر پرندے کی طرح اپنے ساتھی کی تلاش میں ازل سے بے چین بھٹک رہی ہے۔
………………………………
وہ اب جوانی کی سرحد کو پار کرچکا تھا۔لیکن اب بھی صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد مکتب میں بزرگ مولوی صاحب کے درس میں بیٹھ جاتا۔ مولوی صاحب کبھی کبھار اسے فرماتے تھے:
”آپ کی موجودگی سے دل میں ایک سکون سا آجاتا ہے نہیں تو بیشتر لوگ بس بچپن کے ایام میں ہی مکتب
کا رخ کرتے ہیں اور دین کی چند باتیں سیکھ کر دنیا کے رنگ میں کھوجاتے ہیں۔“
مولوی صاحب کی باتیں سن کر اس کے دل میں بھی اطمینان کی لہر سی اٹھتی۔کئی بار اس نے سوچا کہ وہ مولوی صاحب سے دل کی بات بتائے کہ اس کی روح ہمیشہ بھٹکتی رہتی ہے لیکن کبھی دوسرے لوگوں کی موجودگی اور کبھی کہنے کا خوف اس کے آڑے آتا۔جب دل کے سمندر میں سونامی کی لہروں نے زیادہ ادھم مچائی تو دماغ کی نسیں پھٹنا محسوس ہوئیں اور احساس نے لفظوں کی صورت اختیار کی:
”حضرت‘بچپن سے میرا دل بے قرار ہے۔میری روح ہمیشہ تڑپتی رہتی ہے جیسے کوئی پرندہ اپنے ساتھی سے بچھڑ گیا ہو اور اپنے بچھڑے ساتھی کے وصال کے لئے تڑپ رہا ہو۔“
بزرگ مولوی صاحب یہ سن کر اس کے چہرے کو تکنے لگے۔تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد انہوں نے معروف صوفی بزرگ سید علی ہجویری ؒکے قول کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:
”نفس کو اس کی خواہش سے دور رکھنا حقیقت کے دروازے کی چابی ہے۔“
یہ قول سنتے ہی اس پر لرزا طاری ہوگیااور خوفزدہ ہوکر پوچھا:
”یہ حقیقت کا دروازہ کیا ہے؟“
”محبوب کے وصال کا دروازہ۔“
”اس کا راستہ۔۔۔؟“
”مرشد کی تربیت۔“
”مرشد کی پہچان۔“
یہ سنتے ہی مولوی صاحب نے تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کیں اور پھر فرمایا:
”دراصل یہ دل کا جہان ہوتا ہے۔جب بھی دل کسی پاک روح کی رفاقت قبول کرتا ہے تو پہچان
کا سرا ہاتھ آتا ہے۔“
…………………….
پہچان کا سفر شروع ہوا۔دل کا جہان مرشد کی تلاش میں بھٹکتا رہا۔کہیں سراب ہی سراب نظرآتا اور کہیں پر پھول کی صورت میں کانٹے ہی کانٹے دکھائی دیتے۔روح میں جب اضطراب کی کیفیت حد سے زیادہ بڑھنے لگی اور ذہن پر ایک عجیب سا غبارا چھاگیا تو عشق کا سمندر محبوب کے وصال کے لئے موجیں مارنے لگا۔اب نماز کے وقت بھی دل میں ابلتی ہانڈی کی طرح جوش آتا رہتا۔ سفرِپہچان جب طویل ہوا تو ایک رات خواب میں ایک نورانی چہرے کا دیدار نصیب ہوا۔صبح کی نماز پڑھنے کے بعد خواب کا ذکر مولوی صاحب کے سامنے کیا گیا۔یہ سنتے ہی مولوی صاحب کی آنکھوں میں نورسا پھیل گیا اور وہ کافی دیر تک اس کے چہرے کو تکنے کے بعد بولے:
”انجم عثمانی صاحب۔۔۔کیا آپ کو اپنے نام انجم کامعنی پتا ہے۔“
”جی مولوی صاحب۔۔۔ستارہ۔“
”بے شک تم ایسے روشن ستارے ہو جو اپنی منزل کو پہنچنے والا ہے۔مبارک ہو۔‘جاؤ‘اس پاک روح کا مسکن مشرقی گلستان کے نزدیک ہے۔“
…………………………………
سفر طویل تھا لیکن روح کی پیاس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔اہل خانہ سے رخصت لے کر وہ سفر کے لئے نکل پڑا۔ ایک رات وہ ایک ایسی بستی میں پہنچا جہاں پر اس کا کوئی جان پہچان والا نہیں تھا۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعدجب لوگ ایک ایک کرکے نکلنے لگے تو وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ میں ہی ٹھہر ا اورچادر بچھا کر لیٹ گیا۔چند لمحوں کے بعد ایک اور آدمی سلام کرنے کے بعد اس کے نذدیک آکر بیٹھ گیا۔ چاند کی روشنی سے ہر طرف چمک رہی تھی۔ اس آدمی نے تھیلی سے کھانے کا سامان نکالا اور اسے آواز دے کر کھانے کے لئے کہا۔ وہ یہ سن کر کھڑا ہوا اور دونوں کھاناکھانے میں لگ گئے۔ کھانا کھانے کے دوران تعارف ہوا اور باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ دونوں ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔اسی دوران وہاں پر ایک کتا نمودار ہوا۔ اس آدمی نے تھیلی کا منہ کھول کر ایک روٹی نکالی اور ٹکڑے کرکے کتے کی طرف پھینکی۔یہ دیکھ کر اس نے آدمی سے پوچھا:
”یہ کتا اچانک کہاں سے آگیا۔“
”یہ میرے ساتھ ہے۔”اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔”ویسے کتا تو انسان کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔“
”انسان کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔“وہ حیراں ہوکر بولا۔”میں کچھ سمجھا نہیں!!!“
”بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کا نفس بھی کتے کی طرح ہوتا ہے۔“اس نے کتے کی طرف دیکھتے ہوئےکہا۔”اگر قابو میں رہا تو دوست بن جائے گا اگر قابو سے باہر ہوگیا تو دشمن۔پھر انسان کو تباہ کئے بغیر نہیں چھوڑتا۔“
یہ سن کر اس کوایک جھٹکاسا لگا جیسے اچانک کسی بچھو نے کاٹا ہو۔وہ کبھی اس آدمی کی طرف‘کبھی کتے کی طرف اور کبھی خود کو دیکھتا رہا۔آدھی رات تک وہ نفس اور کتے کا موازنہ کرتا رہا۔پھر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد دونوں سفر پر روانہ ہوئے۔آج کا دن ان دونوں کے لئے خوشی کا دن تھا کیونکہ کئی روزکی مسافت کے بعد وہ پاک روح بزرگ تک پہنچنے والے تھے۔ شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ دونوں پاک روح کے مسکن پر پہنچ گئے۔ اپنا تعارف اور مقصد بتانے کے بعد انہیں مسافر خانے میں ٹھہرا یاگیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد اس آدمی نے چند روٹیاں ہاتھ میں لیکر باہر کتے کو کھلائیں۔نصف شب سے پہلے انہیں بزرگ کے دربار میں حاضر کیا گیا۔ بزرگ کا نورانی چہرہ دیکھ کر دونوں کے دل خوشی سے شاد ہوئے۔ ذکرواذکار کا دور شروع ہوا۔ہر طرف نورانی ماحول پھیلا ہوا تھا۔ کمرہ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ نصف شب کے بعد بزرگ کی منہ سے اصلاح نفس کے موتی نکلنے لگے:
”اپنے نفس کو قابو میں رکھو۔شیطان کا وار نفس پر ہی ہوتا ہے۔ وہ نفس کو دھوکہ دے کر پھول سے کانٹا بنا دیتا ہے۔اس کے لئے وہ انسان کی عقل کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کرتا ہے اور باطل پر حق کا رنگ چڑھا کر انسان کو گمراہ کردیتا ہے۔اس لئے جب ایسا محسوس ہوجائے کہ عقل بھٹک رہی ہے تودل کےجہان میں عافیت تلاش کرو۔کیوں دل گلاب کی طرح ہوتا ہے اور دماغ کانٹوں کی طرح الجھتا رہتا ہے۔“
بزرگ کی تربیت سے لوگوں کے دل سرشار ہوئے اور وہ ایک ایک کرکے وہاں سے نکل پڑے۔اس کے دل میں نور کی نئی کرنیں اترنے لگیں۔وہ رات دیرتک بزرگ کی باتوں کے سحر میں کھویا رہا۔کئی مہینوں تک تربیت کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ایک شب انہیں بزرگ سے ملاقات کے لئے لے جایا گیا۔دونوں احترام کے ساتھ بزرگ کے سامنے بیٹھ گئے۔بزرگ ذکرواذکار سے فارغ ہوکر شگفتہ لہجہ میں بولے:
”اللہ کے بندو کس مقصد سے آئے ہو؟“
بزرگ کی شیریں آواز سے دنوں کے دلوں میں ٹھنڈک پڑگئی۔انجم عثمانی نے اپناتعارف کرتے ہوئے بتایا:
”حضرت!بچپن سے میرا دل کسی نامعلوم محبت کے لئے تڑپتا رہتا ہے۔ میرے پاس سب کچھ ہونےکے باوجود میری روح کسی بچھڑے پرندے کی طرح اپنے رفیق کے فراق میں سرگرداں رہتی ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے میں کسی بڑے سمندر کا بچھڑا ہوا قطرہ ہوں جو سمندر کے وصال کی تڑپ میں مرے جارہا ہو۔“
بزرگ نے یہ سن کر اطمینان کی سانس لی اور اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے بولے:
”یہ حقیقت کی تلاش کی کیفیت ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔“
”حقیقت کی کیفیت۔۔۔؟“وہ ملائم لہجے میں بولا۔”حضرت…یہ کونسی کیفیت ہوتی ہے؟“
”یہ روح کی وہ کیفیت ہوتی ہے جس کی طرف مولانا رومی ؒنے اشارہ کیا ہے کہ کنویں سے پانی کا ڈول نکالتے وقت وہ بھاری اس لئے ہوجاتا ہے کیونکہ وصل کے فراق میں کنویں کے پانی کی کشش اسے اپنطرف کھینچتی رہتی ہے۔“
”حضرت‘ اس کے مطلب سے ہمیں آگاہ کریں۔“
”یہ عشق حقیقی کی کیفیت ہوتی ہے جو خدا اور بندے کے عشق کے درمیان ایک راز ہوتا ہے۔“
”اس کا علاج کیا ہے تاکہ میری پیاسی روح کی پیاس بجھ جائے۔“
”بس اس کیفیت کو ایسے ہی رہنے دیں کیونکہ یہ مبارک روح کا جوہر ہے اور اپنے محبوب کا عشق ہمیشہ اپنی روح میں بسائیں۔جس طرح پھول اورخوشبوکا عشق ہوتا ہے۔“
”لیکن وصال کی کیا صورت ہے؟“
”بس خالق کے فرمان کو احساس کا حصہ بناؤ جو تمہیں آخرت میں محبوب کے دیدار سے سرخرو کرے گا۔“
”وہ فرمان کیا ہے؟“
”نحن اقرب الیہ من حبل الورید“
(ہم شہ رگ سے بھی زیادہ اس(انسان) کے قریب ہیں۔)
یہ نورانی پیغام سنانے کے بعد وہ رخصت کردیے گئے۔
برسوں بعد اس کی روح کو تسکین مل گئی۔ دوسرا آدمی وہیں پر ٹھہر گیا کیونکہ وہ مذید تربیت کا خواں تھا۔لیکن صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ اطمینان قلب کے ساتھ گھر کی جانب نکل پڑا۔نئے سال کا سرما تھا۔ وہ شام کے وقت گھر پہنچ گیا۔ سبھی لوگ اس کو دیکھ کر خوش ہوگئے۔صبح کے وقت وہ کتب خانے میں بیٹھا تھا کہ اس کی نظر پیڑ کی طرف اٹھی۔ وہاں کا خوبصورت منظر دیکھ کر اس کا دل خوش ہوا کیونکہ پیڑ پرپرندوں کے جوڑے کی چہچاہٹ سے خوشی کاسماں بندھا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ