جی این کے اردو، 24/مئی 2023
محمود شکیل کے افسانوں کے مجموعہ ’’پناہ‘‘ کا اجرأ او ر’’ جشن شخص سے شخصیت تک ‘‘ کا افتتاح
شمیم طارق نے جشن کا افتتاح اور ڈاکٹرارتکاز افضل نے کتاب کا اجرأ کیا
اورنگ آباد ۔معروف افسانہ نگار محمود شکیل کے افسانوں کے مجموعہ ـ’’پناہ‘‘ کا اجرأبتاریخ۲۱؍مئی ۲۰۲۳ء کی شب مولانا آزاد ریسرچ سینٹر میں ڈاکٹر ارتکاز افضل و معروف اہلِ قلم و صحافی شمیم طارق کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اجرأ سے پیشتر وارثانِ حرف و قلم کے تحت جشن’’ شخص سے شخصیت تک ‘‘ کا افتتاح شمیم طارق نے کیا۔
انہوں نے غالب اور اقبال کے اشعار کے ذریعہ شخص اور شخصیت کے فرق کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی شخص کوئی کارنامہ انجام دے۔ کسی مقصد کیلئے محنت و مشقت کرکے جب کوئی امتیاز حاصل کرے تو پھر وہ شخصیت بن جاتا ہے۔ جس کی مثال انہوں نے اقبال کے اس شعر سے دی ہے کہ ؎ عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں۔ کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔ اس مقام تک پہنچنے کا راستہ انہوں نے اقبال ہی کی نظم لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری۔ زندگی شمع کی صورت خدایا میری۔ اس نظم کے دیگر اشعار پڑھ کر انہوں نے بتایا کہ انسانیت کی خدمت کا یہ جذبہ شخص کو شخصیت بناتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج میں اورنگ آباد میں اس جشن کا افتتاح کررہا ہوں۔ جس کے تحت اُردو ادب، ثقافت ، تعلیم اور قلم و قرطاس سے وابستہ افراد کا جشن منایا جائے گا۔ مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ میں اس جشن کے افتتاح کا اعلان کررہا ہوں۔ اس سلسلے میں جس شخصیت کا انتخاب اس افتتاح کے لیئے کیا گیا وہ کہنہ مشق اور معروف افسانہ نگار محمود شکیل ہیں۔ ہم نے اوراق، ادبِ لطیف ،شب خون اور شاعر جیسے معیاری اولی رسائل میں محمود شکیل کی کہانیاں پڑھی ہیں جن کا خوشگوار تاثر آج تک قائم ہے۔ جو آج ان کی کہانیوں کے پہلے مجموعہ ’’پناہ‘‘ کے اجرأ کے موقع پر مزید تازہ ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر ارتکاز افضل نے اس موقع پر کہا کہ یہاں موجود بیشتر افراد اور ہم نے محمود شکیل کی کہانیاں پڑھتے ہوئے لکھنا لکھانا شروع کیاہے۔ جن میں میں نور الحسنین، ابوبکر رہبر ، عظیم راہی اور سلیم محی الدین شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمود شکیل کی کہانیوں کا امتیازی وصف ان کی منظر نگاری ہے ۔ڈاکٹر ارتکاز اٖفضل نے کہا کہ انہوں نے جس زمانے میں کہانیاں لکھنا شروع کیا تھا وہ ترقی پسندی کے عروج کا دور تھا۔ لیکن محمود شکیل کی کہانیاں ترقی پسندی کے شور اور ہنگامے ان کے مِنی فیسٹو سے بالکل متاثر نہیں ہوئیں۔ وہ اپنی کہانی لکھتے رہے۔ اس کے بعد جب جدیدیت کا دور آیا اور ادب کی شکست و ریخت کے تجربے کئے جانے لگے۔ انحراف و ابہام ادب میں فیشن کی طرح رائج ہوگئے تب بھی محمود شکیل کی کہانیوں پر ان کا قطعی اثر نہیں ہوا۔ بہت تاخیر ہی سے سہی لیکن دیر آید، درست آید کے بمصداق آج ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’پناہ‘‘ عزیزی خواجہ کوثر حیات کی مساعئی جمیلہ سے اجرأ کے مرحلہ تک پہنچا ہے۔ افسانہ نگار اور مرتبہ دونوں کیلئے مبارکباد اور نیک تمنائوں کے ساتھ میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ مجموعہ مقبول عام و خاص ہوگا۔ کتاب کے اجرأ کے ساتھ ہی وارثانِ حرف و قلم کی جانب سے محمود شکیل کی خدمت میں ایک سپاسنامہ بھی پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ان کا اور ان کی اہلیہ کا استقبال وارثانِ حرف و قلم بزم تلامیذ ادب بزم ِ خواتین، فیم اور مسلم گریجویٹس فورم مہاراشٹر کی جانب سے کیا گیا۔
نیز ان کے چاہنے والوں دوست احباب اور عزیز و اقارب نے بھی اس موقع پر ان کا استقبال ہار شال سے کرکے انہیں مبارکباد دی۔ اس موقع پر ابو بکر رہبر، ڈاکٹر شکیل احمد خان، ڈاکٹر رضوانہ خان نے مقالے پیش کئے جبکہ اسلم مرزا، نورالحسنین اور سلیم محی الدین نے محمود شکیل کے فن پر اظہار خیال کیا۔ واضح رہے کہ اس اجلاس کی صدارت بزرگ و کہنہ مشق شاعر سید شاہ حسین نہری نے فرمائی۔ ابتداء میں خالد سیف الدین نے وارثانِ حرف و قلم کی جانب سے جشن’’ شخص سے شخصیت تک ‘‘ کا تعارف اور منصوبہ و عزائم پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس جشن میں صرف اورنگ آباد یا مراہٹواڑہ ہی نہیں پورے مہاراشٹر کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں کام کرنے والی ممتاز شخصیات کا بھی جشن منائیں گے۔ ہم نے ۳؍سال تک مسلسل ۱۵۱؍پروگرام کرکے جشنِ نورالحسنین منایا ہے۔ ہمارا مقابلہ ہمیں سے ہے ۔ہم ان شاء اللہ اب اپنے تین سال تک مسلسل جشن منانے اور ۱۵۱؍پروگرام کرنے کے ریکارڈ کو بھی خود ہی توڑیں گے او ر’’ شخص سے شخصیت تک‘‘ کے جشن میں ہر شخصیت کا مجلہ علاحدہ علاحدہ شائع کریں گے۔ ہر ماہ کسی ایک شخصیت کا جشن منایا جائیگا اور اب اگلا جشن ہم ڈاکٹر ارتکاز افضل کا منائیں گے۔ خالد سیف الدین کے اس اعلان کے ساتھ مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ محود شکیل نے اس موقع پر بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ کوثر حیات، وارثانِ حرف و قلم اور تمام کا شکر ادا کیا۔
اس اجلاس کا آغاز زبیر ندوی کی قرأت کلامِ مجید سے ہوا اور نظامت کے فرائض سید امجد الدین قادری نے انجام دئیے۔ ابتداء میں خواجہ کوثر حیات نے محمود شکیل کا تعارف پیش کیا۔ پروگرام کے اہم شرکاء میں اسٹیج پر ڈاکٹر رضوانہ شمیم جبکہ سامعین میں احمد اقبال، ڈاکٹر سہیل بیابانی، ڈاکٹر عبدالقادر، ڈاکٹر مخدوم فاروقی، کے ایم چشتی، ڈاکٹر عظیم راہی، ڈاکٹر غزالہ پروین، سید محمود ، خان مقیم، مولانا محفوظ الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر مولانا عبدالرشید ندوی مدنی، سید افسر علی، سہیل قادری، ڈاکٹر رضوی اور عمائدین ِ شہر میں متعدد شادیاں اور دعوتیں ہونے کے باوجود موجود تھے۔