جی این کے اردو، ۲۰ فروری ۲۰۲۳
گورنمنٹ اردو ہائیر پرائمری اسکول اور مولانا آزاد ہائی اسکول کے مشترکہ تعاون سے شکاری پور میں بچوں کا سالانہ تعلیمی جشن
٭ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے سارے اکابر سرکاری اسکولوں کے تعلیم یافتہ تھے، اس لیے ان اسکولوں
کو فراموش نہ کریں۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی
آج بہ روز جمعرات ۶۱/فروری کو گورنمنٹ اردو ہائیر پرائمری اسکول شکاری پور میں بچوں کا سالانہ تعلیمی جشن منایا گیا۔ اس جشن کا افتتاح شیموگا حلقے کے ایم پی جناب بی وائی راگھویندرا نے کی اور صدارت کے فرائض ایچ،ڈی،ایم،سی جناب کبیراحمد نے اداکیے۔
مہمانان گرامی کی حیثیت سے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی سابق چیرمین کرناٹک اردو اکادمی، محترمہ ریکھا بائی صدر میونسپل کارپوریشن شکاری پور، محترمہ ممتا سالی میر معلمہ مولانا آزاد ہائی اسکول شکاری پور، جناب صادق نائب صدر میونسپل کارپوریشن شکاری پور، جناب اوستھی شیٹی دھرم سر بی،ای،او شکاری پور، محمد غوث سی، آر،پی شکاری پور، محترمہ فریدہ بیگم میر معلمہ مین اسکول شکاری پور، جناب محمد حنیف، اور یوسف علی صاحب نے شرکت کی۔
اس جشن کا افتتاح کرنے کے بعد جناب بی،وائی، راگھویندرا ایم،پی نے کہا کہ میں اسکولوں کے ان بچوں کے درمیان آکر بے حد خوشی محسوس کررہا ہوں، میں ذاتی طور پر تعلیم و تعلّم میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں۔ بچے ہی ہمارے ملک کے مستقبل کے معمار ہیں۔ میرے ضلعے میں مولانا آزاد اسکول کے چھ سینٹر چل رہے ہیں۔ ایک سینٹر شکاری پور میں بھی ہے۔ اور بہت کامیابی سے چل رہا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ ہم سب ہر طرح کے بھید بھاؤ سے اوپر اٹھ کر کام کررہے ہیں۔ میرا مشن سب کا ساتھ سب کاوکاس اور سب کا وشواس ہے۔ آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ۷۲/فروری ۳۲۰۲ء کو شیموگہ کے ائیر پورٹ کا افتتاح ہونے جارہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس سے ضلع کی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے بچے جب پڑھنے میں دل لگائیں گے تو ہمارا ملک ترقی کرے گا۔ اساتذہ ہی کی محنت سے دیش کا مستقبل بدلے گا۔ میں یہاں کے اسکولوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں اپنا تعاون پیش کرکے خوشی محسوس کروں گا۔ مولانا آزاد ہائی اسکول کی عمارت کی تعمیر میں بھی مجھے دلچسپی ہے۔ میں نے خواتین کی ترقی کے لیے بھی کام کیے ہیں۔ اسی لیے ریکھا بائی جی میونسپل صدر کے عہدے پر فائزہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس سے خواتین کے حوصلے بڑھیں گے۔
محمد غوث نے کہا کہ آج ہم سبھی کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم سرکاری اسکولوں کو آباد رکھ سکیں۔ اور ایسا رزلٹ پیش کریں کہ لوگ پرائیویٹ اسکولوں کو بھول جائیں۔
فریدہ بیگم نے کہا کہ اس میں شبہ نہیں ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا ہے، ہم اپنے اپنے اسکولوں کے تعلیم کے معیار پر توجہ کریں گے تو بچوں کی تعداد یقینا بڑھے گی۔
ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں نے ابتدائی تعلیم جس اسکول میں حاصل کی تھی آج اسی اسکول کے اسٹیج پر حاضر ہوں۔ میں بھی اسکول و کالج چلاتا ہوں مگر میں سرکاری اسکولوں کا دل سے قائل ہوں۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے فوراً بعد سرکاری اسکولوں میں اتنی اچھی تعلیم دی جاتی تھی کہ اس زمانے کے ہمارے سارے رہنما لیڈر اور دانشور انہیں اسکولوں سے نکلتے تھے۔ اس لیے ان اسکولوں کو فراموش نہ کریں۔انہیں آباد کرنے کی فکر کریں۔ کیوں کہ یہ ہماری تعلیمی وراثت کے مراکز ہیں۔ آج یہ اسکول جو اتنے اہم جشن کا مرکز بناہے تو ظاہر ہے کہ یہ اساتذہ کی محنت کا پھل ہے۔ میں تمام اساتذہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے نامساعد حالات میں بھی اسکولوں کو آباد رکھا۔
میں تمام عمائدین شہر اور حاضرین سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ سرکاری اسکولوں سے فائدہ اٹھائیں۔ حکومت بہت ساری مراعات فراہم کررہی ہے۔ مفت تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اور والدین کا بوجھ کم کرنے کے لیے حکومت کھانا، یونیفارم، کتابیں، کاپیاں اور ضرورت کا ہر سامان مہےّا کررہی ہے۔ اس لیے آپ اپنے بچوں کو ضرور پڑھائیں۔ تعلیم کے بغیر زندگی نامکمّل ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ریاست میں اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں تھی، جو بہت زیادہ کم ہوگئی ہے کیوں کہ اسکولوں میں بچے ہی نہیں آتے ہیں۔ آپ اپنی زبان، اپنی تہذیب سے محبت کریں، مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میرے اسکول سے بچے اور بچیاں پانچویں جماعت کے بعد مولانا آزاد اسکول میں آتی ہیں۔ اور اچھی تعلیم پاتے ہیں۔ یاد رہے کہ پرائیویٹ اسکول امیروں کے بچوں پر توجہ کرتا ہے، جبکہ سرکاری اسکول سبھوں کے لیے ہے۔ اسی لیے اسے آباد رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ غریبوں کے بچے تعلیم سے محروم ہوجائیں۔ بچوں کو پڑھائیے، بڑے خواب دکھائیے اور اسے پورا کرنے میں ان کا تعاون کیجئے۔
اخیر میں صدر جلسہ نے خطاب کیا اور اپنے خطاب میں کہا کہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہم سبھی ان وظیفہ یاب اساتذہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں جن کے پڑھائے بچوں میں سے کئی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ ان اساتذہ کا اعزاز کرنا خود ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اساتذہ کے اعزاز سے ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی ہمارے دلوں میں علم کی، تعلیم کی، اور اساتذہ کی عزت باقی ہے۔ یہ عزت اور احساس جب تک زندہ رہے گا تعلیم کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا۔