جی این کے اردو
31/ جنوری 2023
سہ روزہ جشن ادب اطفال کے دوران شکاری پور میں قومی سیمینار
حافظؔ کرناٹکی فنا فی ادب اطفال ہیں، ان کے دل میں ہندوستان بستا ہے: پروفیسر ارتضیٰ کریم
حافظؔ کرناٹکی تن تنہا اتنا کام کررہے ہیں جو ادارے نہیں کرپاتے: پروفیسر اعجاز علی ارشد
حافظؔ کرناٹکی اس وقت کے سر سید ہیں: پروفیسر مشتاق عالم قادری
حافظؔ کرناٹکی ایک دبستان کا نام ہے: پروفیسر دبیر احمد
کل بروز جمعرات 26/جنوری 2023کو سہ روزہ جشن ادب اطفال کی دوسری کڑی قومی سیمینار بعنوان ”حافظ کرناٹکی ہمہ جہت ادیب و شاعر“ کا صبح گیارہ بجے علامہ اقبال ہال احاطہ گلشن زبیدہ شکاری پور شیموگہ کرناٹک میں آغاز ہوا۔ علامہ اقبال ہال کا افتتاح پروفیسر دبیر احمد کولکاتہ نے کیا۔ سیمینار کی صدارت کے فرائض پروفیسر اعجاز علی ارشد سابق وائس چانسلر مولانا مظہرالحق یونیورسیٹی پٹنہ نے ادا کیے۔ کلیدی خطبہ پروفیسر ارتضیٰ کریم سابق ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان و ڈین فیکلٹی آف آرٹس دہلی یونیورسیٹی نے پیش کیا۔ اس موقع سے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی متعدد کتابیں مثلاً رفتگاں و جاوداں، مضامین نو بہ نو، ثریٰ، کمند، گلہائے عقیدت، اور ادب اطفال کے معمار نظیر اکبرآبادی کا اجرابھی ہوا۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی خدمات سے متعلق ڈاکٹر راکیش، ڈاکٹر روی کمار کشمیر کی مرتب کردہ کتاب ”حافظؔ کرناٹکی ایک عبقری شخصیت“ کا اجرا بھی پروفیسر ارتضیٰ کریم کے ہاتھوں ہوا۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اپنے خطبے میں ادب اطفال کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی تخلیقی کارناموں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے کہا کہ حافظؔ میں خداداد صلاحیتیں ہیں وہ نظم و نثر پر یکساں قدرت تو رکھتے ہیں۔ وہ نظم کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ انہوں نے نظمیں، نعتیں، حمدیں، رباعیاں، لوریاں، گیت، قطعات، غزلیں غرض یہ کہ ساری چیزیں لکھی اور خوب لکھی ہیں۔ وہ ایک عملی فنکار ہیں۔ وہ صرف شاعری کرتے نہیں ہیں بلکہ اپنے طلبا کوبھی شاعر بناتے ہیں۔ اور انہیں شاعری کے تمام رموز بھی سکھاتے ہیں۔ یہاں آکر جب میں نے دیار حافظ کے ادبی و تدریسی گلشن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو حیران رہ گیا کہ حافظؔ نے اردو کی کتنی پیاری بستی بسائی ہے۔ اسی لیے میں اکثر کہتا ہوں کہ کام ادارے نہیں کرتے ہیں ارادے کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے ارادے مضبوط ہوتے ہیں ان کے لیے راستے آسان ہوجاتے ہیں۔مزید یہ کہا کہ حافظؔ کرناٹکی اپنی شاعری کی صوتی پیش کش پر بھی زور دیتے ہیں اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ذوق کی تربیت ہوجاتی ہے۔ اور وہ حسن تلفظ اورحسن صوت سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حافظؔ کرناٹکی ایک فقیر ہیں جنہوں نے زبان و ادب او رقوم و ملّت کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تدریس کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے۔ ان کے دل میں قوم و ملّت کا درد موجیں مارتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانے میں لوگ ان کی شاعری کو رد کردیں مگر انہوں نے جو عملی کام کیے ہیں اسے دنیا کبھی بھلا نہیں پائے گی۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جن لوگوں نے اس سہ روزہ جشن ادب اطفال میں آنے کی حامی بھری اور جن لوگوں نے شرکت کی ان سبھوں کے نام پتھر پر کندہ کراکے ادارے کے صحن میں نصب کرادیا ہے۔ ایسا کہاں ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی سیمینار شروع ہورہا ہے اور ان کی خدمات پر ایک کتاب شائع ہو کر آگئی ہے۔
پروفیسر اعجازعلی ارشد نے کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی خدمات اور ان کی شخصیت کسی تعارف اور تعریف کی محتاج نہیں ہے۔ چوں کہ ان پر کئی کتابیں اور کئی رسالوں کے نمبر اور گوشے آچکے ہیں۔ اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ترتیب دی ہوئی کتاب حافظ کرناٹکی ایک عبقری شخصیت کا اجرا ہوا ہے۔ ان تین دنوں کی ملاقاتوں میں میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ حافظؔ کرناٹکی سراپا شاعر ہیں۔ ان کی گفتگو میں بھی شعر کا رنگ جھلکتا ہے۔ اور محور اوزان کا رنگ دمکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صبح میں جب بچے گھروں میں ناشتہ مانگتے ہیں تو والدین انہیں ناشتہ دیتے ہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ حافظؔ کرناٹکی بچوں کو ناشتے کی جگہ بھی نظمیں پکڑادیتے ہیں۔
اس سیمینار میں مندرجہ ذیل حضرات نے اپنے اپنے مقالات پیش کیے۔
پروفیسر مہ نور زمانی، داکٹردانش غنی، ڈاکٹر غضنفر اقبال،ڈاکٹرشبینہ طلعت، ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی، پروفیسر شاہ مدار عقیل، ڈاکٹر مشتاق حیدر، ڈاکٹر سید ثناء اللہ، ڈاکٹر مجاہد الاسلام قاسمی، ڈاکٹر سالک جمیل براڑ، ڈاکٹر اقبال حسین، ڈاکٹر غلام نبی کمار،محمد ازہر ندوی، ڈاکٹر امیر حمزہ، عابداللہ اطہر، ڈاکٹر داؤد محسن، تجمل حسین، عبدالباری قاسمی، ابواللیث قاسمی، جناب رحمت اللہ رحمت، ڈاکٹر عرشیہ۔ سیمینار اپنے وقت مقررہ پراختتام ہوا۔
دوسرے سیشن میں حافظؔ کرناٹکی نے مدینۃ العلوم شکاری پور کے کیمپس میں تمام مہمانان گرام کے ساتھ گلشن زبیدہ کے سبھی اساتذہ، اور ملازمین کو خراج تحسین پیش کیا۔ حافظؔ کرناٹکی نے برملا کہا کہ حافظؔ کرناٹکی تن تنہا کچھ نہیں ہے۔ حافظؔ کرناٹکی کے لیے پوری ٹیم اپنائیت سے کام کرتی ہے۔ اساتذہ نے بچوں کو تیار کیا۔ بچوں نے محفلیں سنبھالیں۔ اساتذہ نے مہمانوں کی خدمت کی ذمہ داری سنبھالی۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام کے خاکہ بننے سے لے کر اسٹیج کی تیاری، ہال اور گیسٹ ہاؤز کی بکنگ مہمانوں کو لانے لے جانے کے لیے گاڑیوں کی سہولت، بینر اور ہورڈنگ بنانے سے لے کر اسے لگانے کی ذمہ داری۔ دعوت نامہ بنانے اور اسے پرنٹ کرانے سے لے کر مہمانوں تک پہونچانے کی ذمہ داری، مہمانوں اور طلبا اور اساتذہ اور گاؤں اور دوسرے شہروں سے آئے لوگوں کے قیام و طعام کی ذمہ دای میں جن لوگوں نے محبت سے کام کیا جس میں ہندواور مسلمان سبھی شامل ہیں۔ ان تمام کا اعزاز خصوصی مہمانان گرامی کے ہاتھوں کرایا۔ چنانچہ یہ فریضہ حافظؔ کرناٹکی اور پروفیسر ارتضیٰ کریم نے پروفیسر اعجاز علی ارشد، پروفیسر دبیر احمد، پروفیسر مشتاق عالم قادری، ڈاکٹر مشتاق حیدر، ڈاکٹر سالک جمیل براڑ، ڈاکٹر امیر حمزہ دہلی، ڈاکٹر غلام نبی کمار اور بہت سے پروفیسروں اور اسکالروں کے ساتھ انجام دیا۔ بعد میں حافظؔ کرناٹکی نے کہا کہ لوگ اپنے کام کرنے والوں کا احترام کرتے ہیں، وہی لوگ ہر مشکل کام آسانی سے کرپاتے ہیں۔ ان کے اس کام کی بھی لوگوں نے ستائش کی۔ اور ان کی شخصی خوبیوں کو سراہا۔