جی این کے اردو
۱۳ نومبر ۲۰۲۲
برائے توجہ
میرا ماننا ہے کہ ”یومِ اردو“ کے لئے سب سے مناسب نام ” حضرت امیر خسرو ؒ “کا ہو سکتا ہے
”اردو برادری یومِ اُردو کے عنوان“سے گزشتہ کئی برسوں سے علامہ اقبال کی تاریخِ ولادت (9 /نومبر) پر یومِ اُردو کا انعقاد کر رہی ہے۔ شاعرِ مشرق کی شاعرانہ عظمت سے انکار ممکن نہیں، وہ اُردو کے ہی نہیں عالمی ادب میں بھی اپنی فکر اور شاعری کی بنا پر ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری فکر اور عمل کا حسین امتزاج ہے۔ لیکن جہاں تک”یومِ اردو“ کو ان سے منسوب اور معنون کرنے کا تعلق ہے یہ تاریخی ادب کی رو سے اور زبان کے بننے کے حوالے سے بہت مناسب رویہ نہیں کہا جا سکتا۔
میرا ماننا ہے کہ ”یومِ اردو“ کے لئے سب سے مناسب نام ” حضرت امیر خسرو ؒ “کا ہو سکتا ہے چونکہ دراصل یہی وہ شخصیت ہے جنہوں نے اردو زبان کی تشکیل اور تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔اس زبان کا کینڈا پہلی بار انہیں کے یہاں تیار ہوتا نظر آتا ہے۔ امیر خسرو اور ہندوستانی مشترکہ تہذیب و ثقافت دراصل ایک سکے کے دو رُخ ہیں۔ انہی کے کلام میں گنگا اور جمنا کی تمام لہریں موجزن نظر آتی ہیں۔ پوری انسانیت بلاتفریق مذہب و ملت ان کی ذات میں ضم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اُردو زبان کا تصورامیر خسرو ؒ کے بغیرنا ممکن ہے۔ تاریخ ِ ادبِ اردو کی روشنی میں بھی اور ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کے پیش نظر بھی اردو برادری کو چاہئے کہ ہر سال3/ اپریل کو امیر خسرو کی تاریخِ ولادت کے موقع پر”یوم اردو“ منانے کا اہتمام کرے۔ امیر خسروؒ کے نام پر تمام مکاتبِ فکر اور مسالک کے افراد لبیک کہیں گے۔ کسی کو اس پر اعتراض بھی نہ ہوگا چونکہ امیر خسروؒ میں ”ہند وستان کی روح“ رچی اور بسی ہوئی ہے۔ ان کے فیضان سے ہی اردو زبان پھولی اور پھلی ہے۔ اس لئے ”یوم اردو“ کو ان کے نام سے منسوب کرنا اور اس حوالے سے تقریب کا اہتمام اور انعقاد کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔
اس سلسلے میں میں حکومت ِہند کو بھی متوجہ کیا جائے کہ یومِ تعلیم کی طرز پر ہر سال ”یومِ اردو“ کو باضابطہ گزٹ کرکے 3/ اپریل کو”یوم اردو Declareکرے تاکہ پوری اردو برادری ایک ساتھ ایک ہی تاریخ یعنی ہر سال3/ اپریل کو”یومِ اردو“ کا انعقاد کر سکے۔اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس دن کوئی چھٹی نہیں ہوگی۔
راقم نے اس سلسلے میں وزارتِ تعلیمِ حکومتِ ہند کو بھی دو سال قبل مکتوب لکھا تھا جس پر ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے لیکن ایک دو نشستوں میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ہم لوگ اس پر دستخطی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ امید ہے کا میابی ملے گی۔آپ سے مشورے اور تعاون ن کی درخواست ہے۔ذیل کے کچھ اشعار سے امیرخسروؒ کی شاعری سے پیدا ہونی والی گنگا جمنی تہذیب، مشترک رنگوں کے حسین امتزاج، مٹی کی بو باس اور ہندوستان کی روح کو سمجھا جا سکتا ہے:
خسرو رین سہاگ کی، جاگی پی کے سنگ
تن میرو من پیو کو، دوئے بھئے ایک رنگ
خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار
جو اُترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار
کھیر پکائی جتن سے، چرخہ دیا چلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
گوری سووے سیج پر مُکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے، سانجھ بھئی چہو دیس
راقم: سید علی کریم (ارتضیٰ کریم)، پروفیسر، دہلی یونیورسٹی، دہلی