جی این کے اردو
ڈاکٹر قدوس جاوید : فکشن کا ایک اہم ناقد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فخرالدین عارفی
9234422559
ڈاکٹر قدوس جاوید نے اردو تنقید کے منظر نامے پر بحیثیت ایک ناقد اپنی جو شناخت قائم کی ہے ، وہ بہت واضح اور نمایاں ہے ۔ ڈاکٹر قدوس جاوید کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب میں صرف پندرہ سال کا تھا ۔ یہ 1969 ء کی بات ہے ۔ تب قدوس جاوید صاحب اردو روزنامہ “ساتھی ” میں ملازمت کرتے تھے ، ساتھی کے مدیر و مالک ڈاکٹر خالد رشید صبا صاحب تھے ، ساتھی کے دفتر سے بچوں کا بھی ایک رسالہ نکلتا تھا ، اس کے بھی مالک و مدیر ڈاکٹر خالد رشید صبا صاحب ہی تھے اور رسالے کی ترتیب و تہذیب کے فرائض ڈاکٹر قدوس جاوید صاحب انجام دیا کرتے تھے ، اسی ماہنامہ “مسرت ” میں میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا ، جس کا عنوان تھا ” بادل آیا جھوم کے ۔۔۔۔۔” یہ شمارہ اکتوبر 1969 ء کا شمارہ تھا ۔ ماہنامہ مسرّت دراصل شروع میں ضیاء الرحمن غوثی صاحب نکالا کرتے تھے ۔ لیکن پھر بعد میں ضیاء الرحمن غوثی صاحب نے اس کو فروخت کردیا تھا اور ڈاکٹر خالد رشید صبا صاحب نے اس رسالے کو خرید لیا تھا ۔ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے سامنے ایک پٹرول پمپ ہوا کرتا تھا ، اس سے متصل ایک عمارت کے بالائی حصّے میں “ساتھی ” اخبار کا دفتر ہوا کرتا تھا ، جہاں اس وقت ڈاکٹر قدوس جاوید کے علاوہ بزرگ صحافی شاہد رام نگری اور نوجوان صحافی خورشید تاباں بھی ساتھی کے ایڈوٹوریل سیکشن سے وابستہ تھے ۔ ماہنامہ ” مسرت ” اور روزنامہ ” ساتھی میں میرے درجنوں مضامین اور افسانے شائع ہوئے ہیں ۔ اس وقت مسرّت میگزین کی بہت شہرت اور مقبولیت تھی اور اس رسالے میں سب لوگ شائع ہوتے تھے ، خواہ نےء لکھنے والے ہوں یا قدیم لکھنے والے ۔ لہذا ڈاکٹر قدوس جاوید اس کی وجہ سے بہت مقبول و معروف تھے ۔ ڈاکٹر خالد رشید صبا صاحب ان ہی دنوں ایک معیاری ادبی رسالہ بھی شائع کیا کرتے تھے ، جس کا نام ” مطالعہ ” تھا ۔ اس طرح دیکھا جائے تو بہار میں اردو صحافت کے فروغ میں ڈاکٹر خالد رشید صبا صاحب ، شاہد رام نگری اور ڈاکٹر قدوس جاوید کا بہت اہم رول رہا ہے ۔
ڈاکٹر قدوس جاوید اس وقت پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہٴ اردو کے ایک طالب علم تھے اور ڈاکٹر اسلم آزاد قدوس جاوید کے ہم جماعت تھے ۔ “زہرہ ” بھی قدوس جاوید کی ہم جماعت تھیں ، جن سے بعد میں ڈاکٹر قدوس جاوید کی شادی ہوگئ تھی ، یہ شادی ان کے پیار کی شادی تھی ، جس کی وجہ سے شادی میں بہت ساری دشواریاں بھی پیش آئی تھیں ، لیکن بالآخر شادی ہوگئی تھی اور اس طرح قدوس جاوید نے اپنے دل کی پہلی جنگ جیت لی تھی ، پھر جب پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہٴ اردو میں وی سی اپوئنٹمنٹ کا مسئلہ سامنے آیا تھا تو اس بحالی کے عمل میں قدوس جاوید کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور وہ زندگی کی یہ جنگ ہار گےء تھے ، کیوں کہ پٹنہ یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر اچاریہ دیویندر نرائن شرما نے اسلم آزاد کے حق میں اپنا فیصلہ دیا تھا اور قدوس جاوید کی قسمت نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی تھی اور وہ پٹنہ یونیورسٹی کی ملازمت کی لڑائی ہار گےء تھے ۔ تب قدوس جاوید کو بہت دنوں تک بہار ٹکسٹ بک کارپوریشن میں نوکری کرنی پڑی تھی ۔ جہاں ان کے رفیق کار اسمعیل حسنین نقوی تھے ۔ جو ان دنوں پٹنہ میں ایک سرگرم سماجی کارکن اور محب اردو کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہ تھے ۔ بعد کے دنوں میں ڈاکٹر قدوس جاوید کی بحالی شعبہٴ اردو کشمیر یونیورسٹی میں ہوگئی اور اس طرح ایک جھار کھنڈی اور بہاری دانشور سدا کے لیےء کشمیر کی خوب صورت وادیوں میں “پورے چاند کی رات ” میں خوبانیوں کے درمیان کھوگیا تھا “چنار ” کے درختوں نے بھی اس کی محبت کا آشیانہ بنانے میں پوری مدد کی تھی ، سنا ہے کہ وہاں قدوس جاوید صاحب نے ایک انتہائی خوب صورت حویلی نما مکان تعمیر کرایا ہے ، جو لوگوں کی توجہ کا ایک اہم مرکز بنا ہوا ہے ، لیکن اب اس حویلی نما مکان میں ان کی شریک حیات “زہرہ ” کے وجود کی خوشبو موجود نہیں ہے ، اس لیےء کہ محبت کا وہ شگفتہ گلاب شائد نوابوں کے شہر لکھنوٴ میں کہیں سوکھ کر بکھر گیا ہے ، اس کی ایک بھی پنکھڑی اب ثابت و سالم نہیں بچی ہے ۔
آج ڈاکٹر قدوس جاوید ایک اہم ناقد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ، خاص طور پر انہوں نے اردو فکشن کے حوالے سے بہت کام کیا ہے ، تنقید میں وہ اپنے منفرد لب ولہجے اورطرز فکر کے لیےء جانے جاتے ہیں ۔ حال کے دنوں میں ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے “غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی نے “فخرالدین علی احمد غالب ایوارڈ ” سے انہیں نوازا ہے ، یہ ایوارڈ انہیں ان کی تحقیق و تنقید کے میدان میں نمایاں کارکردگی کے لیےء دیا گیا ہے ۔ غالب ایوارڈ کے علاوہ بھی ڈاکٹر قدوس جاوید کو متعدد دیگر ایوارڈز سے بھی سرفراز کیا گیا ہے ، جن میں ابھی حال میں چودھری چرن سنگھ یونیورسیٹی کے شعبہء اردو کے زیر اہتمام منعقدہ انٹر نیشنل پانچ روزہ سمینار میں ملنے والا “منظر کاظمی ایوارڈ ” بھی شامل ہے ۔ اس موقعے پر میں اپنے بڑے بھائی اور بزرگ دوست کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے از حد مسرت کا احساس کررہا ہوں ۔۔۔۔۔اللہ ان کو مزید بلندیاں اور کامرانیاں عطا کرے ۔ آمین ! ڈاکٹر قدوس جاوید ایک طویل عرصے تک کشمیر یونیورسیٹی کے شعبہء اردو میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد صدر شعبہء اردو کشمیر یونیورسیٹی ، ( جمو ) سے سبک دوش ہوکر ان دنوں وہیں قیام پذیر ہیں ۔ ڈاکٹر قدوس جاوید کی تاریخ پیدائش 27 اکتوبر 1947 ء ہے ۔ ان کے والد کا نام محمد سلیم الدین احمد تھا ، جو ایک مجاہد آزادی تھے ۔ قدوس جاوید کے بڑے بھائ کا نام پروفیسر شاہد احمد شعیب تھا ، جو مگدھ یونیورسیٹی میں عمرانیات کے پروفیسر تھے ۔
ڈاکٹر قدوس جاوید کی پہلی کتاب 1978 ء میں شائع ہوئ تھی ، جس کا نام “ادب اور سماجیات ” تھا ، ان کی دیگر کتابوں میں “تعبیر و تنقید ” 1991 ء “اقبال کی تخلیقیت ” 2007 , “متن معنی اور تھیوری ” 2015 , “اقبال اور مابعد جدید شعریات ” 2016 اور ” اکیسویں صدی میں اردو شعریات ” 2022 وغیرہ خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔
فخرالدین عارفی
محمد پور _ شاہ گنج ۔ پٹنہ 800006