شخصی مضامین

اقبال کا مرد مومن: شکیب اکرم

اقبال کا مرد مومن : شکیب اکرم

( یوم ولادت 28 مئی پر خصوصی پیشکش)

✍️ راشد احمد سینئر صحافی نیوز ایڈیٹر : دور درشن ، پٹنہ بہاد

سانولا سا وہ لڑکا جیسے کہ ابھی میرے پاس سے اٹھ کر گیا ہو۔ چھریرہ سا بدن ، جھکی جھکی سے پلکیں، گہری آنکھیں لہجہ میں ٹھہراؤ اور بردباری۔ اس عمر میں ایسی باتیں کہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ عمر تو کھلنڈرے پن کی ہوتی ہے۔ ابھی فوراً ہی تو اس کا انجینئر نگ مکمل ہوا تھا۔ ابھی فوراً ہی تو اس کا کنووکیشن ہوا تھا۔ ہاں کیمپس سلیکشن ہو گیا تھا۔ باپ نے جا کر رہنے سہنے کا معاملہ بھی دیکھ لیا تھا۔ کچھ دن بعد نوکری جوائن کرنی تھی ۔ اس عمر کے بچے تو گویا زندگی جینا سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ اسے کم وقت میں بہت کچھ کرنا تھا۔ اسی لئے تو اس نے ماں کی کوکھ میں بھی زیادہ قیام نہیں کیا اور نومہینوں کے بجائے سات مہینوں میں ہی اس عالم رنگ و بو میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے خود کو اقبال کے شعر میں ڈھال لیا تھا :یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومنقاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اور یہ عمل بچپن سے ہی تھا۔ اس کے دادا بزرگ شخصیت کے حامل تھے۔ اس کے والد میرے بھائی خورشید ا کرم سوز خود ہی ایسے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر منزل قریب آجاتی ہے۔ اعلیٰ عہدہ پر فائز بہترین شاعر لیکن نہایت منکسر المزاج انسان، ہر عمل میں دین کی ہدایات کو زیر نظر رکھنے والے حلیم اور خاموش مددگار ۔ یہ تمام خصوصیات اس کی ذات میں بھی شامل تھیں۔ عام طور پر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونے میں بہت سی خوبیوں اور خصوصیات میں کمی اور کمزوری آجاتی ہے لیکن اس نے اپنے والد سے ملنے والی وراثت کو اور نکھار کر، تراش خراش کر ، مضبوط بنا کر اپنی شخصیت کا حصہ بنالیا تھا۔ اسی لئے تو جب خورشید بھائی اپنے اس بچے کو سات آٹھ سال کی عمر میں بھی اسکوٹر کے آگے بٹھا کر لے جاتے تو وہ مستقل قرانی آیات کا ورد کرتا رہتا تھا۔ اس لئے کہ ماں نے اسے قرآن روایتی انداز میں نہیں پڑھایا تھا بلکہ اس کے رگ وپے میں قرآن کو اتارنے کی کوشش کی تھی ، قرآن سمجھانے کی کوشش کی تھی اور اس نے اسے اپنے خون کی روانی کا حصہ بنالیا تھا، دل کی دھڑکنوں میں شامل کر لیا تھا۔ وہ بہت ذہین تھا، بہترین عصری تعلیم سے آراستہ تھا، انجینئر تھا لیکن دینی شعور بھی بہت بالیدہ تھا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ دیتا تو چھپا کر دیتا تھا اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے بیتاب و بے چین رہتا تھا۔ لیکن مانگتا کسی سے نہیں تھا۔ مانگتا صرف اس سے تھا جو دینے پر قادر ہے اور جس کے سامنے سب عاجز ہیں۔ وہ صرف اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرتا تھا اور اس کے حضور شکر کی نمازوں اور روزوں کے ساتھ حاضر ہوتا تھا۔ ایک نہایت ہی پر ہیز گار، نمازوں کا پابند، تہجد گزار، نیک طبیعت ۔

ہاں ! شکیب اکرم ۔ انجینئر شکیب اکرم جواب ہمارے درمیان نہیں ہے۔ دوستوں کا بہترین دوست، نہایت سلیم الطبع شاگرد، بہت ہی فرماں برادر بیٹا اور نہایت ہی خلیق انسان ۔

شکیب اکرم عزیز بھائی خورشید ا کرم کا اکلوتا بیٹا ، جو شاید جنت کی کسی کھڑکی سے اپنے اس نا دیدہ چچا کو یہ سب لکھتا ہوا د یکھ رہا ہو گا ۔ نادیدہ چچا، کیونکہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا۔ مگر میں اس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں ۔ جاننے کی طرح نہیں بلکہ محسوسات کی سطح سے اسے جانتا ہوں۔ یہ عمر نہیں ہوتی رخت سفر باندھنے کی لیکن اللہ کی مصلحت وہی بہتر جانتا ہے۔ اس کے ہر کام میں خیر ہوتا ہے۔ شکیب اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ باپ ماں نے کمال ضبط اور شکر گزاری و اطاعت کا ثبوت دیا ہے۔ شاید یہ ان کی آزمائش ہو اور اس نیک بچے نے جاتے جاتے اپنے ساتھ ساتھ اپنے والدین کو بھی اللہ کی اس آزمائش میں پورا اتار کر سرخرو کر دیا۔ اس بچے کے بارے میں اتنی باتیں سامنے آئی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ میرے ساتھ بھی اٹھتا بیٹھتا رہا ہو۔ اس کی شخصیت کی خوشبو میں اپنے آس پاس محسوس کرتا ہوں۔ کاش میں اس سے مل پاتا ، اسے دیکھ پاتا، اسے چھو پاتا! لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا۔ سڑک حادثہ میں زخمی ہونے اور کئی ہفتوں تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد شاید خود اسے جنت کے نظارے نظر آنے لگے ہوں گے کہ اس نے زندگی کا دامن چھوڑ دیا اور مالک حقیقی سے جا ملا۔

برادر خورشید اکرم کے ساتھ خون کا رشتہ نہیں ہے لیکن دل کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ بہار شریف کے ہی ہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنے ہر مشورہ میں شامل رکھتے ہیں، اپنے حالات سے آگاہ رکھتے ہیں۔ جب انہیں کووڈ ہوا تھا تب بھی مجھے بار بار فون کیا کرتے تھے۔ بڑے عزم اور حوصلہ کے ساتھ اور اللہ پر کمال یقین کے ساتھ۔ پھر جب بیٹے کو حادثہ پیش آیا تو اس کی بھی خبر کی ۔ جو حالات تھے وہ نہایت صبر آزما تھے لیکن ان کا رویہ اس صبر کے پیمانہ پر شکر کے ساتھ قائم تھا۔ اور پھر اللہ نے جواں سال بیٹے کو اپنے پاس بلا لیا۔ انتقال کے کچھ ہی دیر بعد میرے پاس ان کا میسج آگیا۔ رات کا وقت تھا۔ میری نیند اڑ گئی۔ میں ان سے کوئی بات نہیں کر پایا۔ میں نے صبر کی تلقین کی گو کہ مجھے پتہ ہے کہ صبر بہت مشکل ہے۔ ایک باپ کے لئے اس سے زیادہ مشکل گھڑی اور کوئی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بیٹے کی آخری نماز کی امامت کرے۔ باپ کے کاندھے پر سب سے بڑا بوجھ بیٹے کا جنازہ ہوتا ہے۔ خورشید بھائی نے یہ بوجھ اٹھایا اور نم آنکھوں کے ساتھ اللہ کی امانت کو لوٹاتے ہوئے کوئی شکایت نہیں کی۔ خورشید بھائی کے استقلال کو دیکھ کر ہی اللہ نے انہیں یہ عظیم صبر دیا ورنہ کوئی بھی ٹوٹ کر بکھر جاتا۔ پورے چار دن تک میں ان سے بات کرنے کے لئے حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن نہیں کر پایا، سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ ایک باپ کو میں کیا کہہ پاؤں گا۔ وہ بھی اس صالح اور نیک بچے کے بارے میں جو نصیبوں والوں کو ملتا ہے! جو دنیا و دین دونوں ہی کے معاملات میں آج کے نوجوانوں کے لئے باعث تقلید تھا۔ جو ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ہی نہیں بلکہ رشتہ داروں اور احباب کا بھی پیارا تھا، ٹیچروں کا بھی پسندیدہ تھا۔ یہ غم بہت بڑا ہے لیکن انہوں نے جس صبر و حوصلہ کے ساتھ اس کا سامنا کیا یقیناً یہ ان کے لئے اور ان کے بیٹے دونوں ہی کے لئے آخرت کے دن بڑی خوشخبریوں کا باعث بنے گا۔ ایمان کا یہ جذبہ بہت مشکلوں سے ملتا ہے۔ ان لمحوں میں پیچھے چھوٹ جانے والوں کی بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ کم لوگ ان پر کھرے اترے ہیں۔ میرے بھائی خورشید اکرم اس معاملے میں بھی بازی مار گئے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی اہلیہ کے اس صبر کو بھی قبول فرمائے ان کے دل کو سکون عطا فرمائے۔ اور ان کے لئے اور مرحوم کے لئے بہترین اجر کا التزام فرمائے کیونکہ باپ سے بھی کہیں زیادہ ماں کا کلیجہ کٹ جاتا ہے۔ آج میرا یہ حال ہے کہ دو بول بھائی خورشید سے بولنا ہی نہیں بلکہ کچھ لکھ پانا بھی مشکل ہو پارہا ہے۔ بس دعائیں ہیں۔ اللہ دعاؤں کو قبول فرمانے والا ہے، معاف فرمانے والا ہے اور ہمارے معاملات ہم سے زیادہ بہتر سمجھنے والا ہے۔ ہم سب کو صبر عطا فرمائے ۔ آمین ! ***

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu