کرناٹک اردو چلڈرنس اکادمی کے بینر تلے یوم اقبال کے موقع سے جشن اردو
علامہ اقبال کی شاعری نے ہر حساس دلوں تک رسائی حاصل کی ہے:ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی
آج بہ روز بدھ ۹/نومبر ۲۲۰۲ء کو یوم اقبال کے موقع سے گلشن زبیدہ میں ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی صدارت میں ایک جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ اس جلسے میں گلشن زبیدہ کے نائب سرپرست جناب انیس الرّحمان صاحب، معاون منتظم محمد حماد صاحب، ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی، انجنیر شعیب صاحب، مولانا اظہر ندوی، میر مدرس زبیدہ ہائیر پرائمری اسکول محمد عزیز صاحب، ماسٹر محمد سہیل صاحب اور دوسرے اساتذہ اور عمائدین کے علاوہ مدرسے اور اسکول کے طلبا و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس خاص موقع سے بچوں نے اپنی مادری زبان اردو کی شیرینی کے احساس کے ساتھ علامہ اقبال کی کئی نظمیں سنائیں۔ اور اردو زبان کے پڑھنے، سیکھنے، اور زندگی کے ہر معاملے میں استعمال کرنے کے جذبے اور عہد کا اعلان کیا۔
جلسے کا آغازنور محمدکے قرأت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعدآمیرہ نے ایک پیاری سی حمد سنائی، اس کے بعدعفیفہ تسنیم نے نہایت خوب صورت آواز میں نعت سنائی۔ جلسے کی غرض و غایت مولوی اظہر ندوی نے پیش کی اور کہا کہ اردو زبان ہماری مادری ملکی اور ہندوستان کی حدتک مذہبی زبان بھی ہے۔ کیوں کہ مذہب کا بہت سارا سرمایہ اسی زبان میں محفوظ ہے۔ اس لیے اسے زندہ رکھنا ضروری ہے۔ علامہ اقبال کے بارے میں کہا کہ وہ اردو کے اہم شاعر تھے، ان کا اپنا فلسفہ تھا، وہ قوم کے مصلح تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں جذبے کے فروغ کے لیے کام کیا۔ اور بچوں کے لیے نظمیں لکھ کر بچوں کے ادب کی اہمیت کا احساس دلایا۔
میر معلّم محمد عزیز نے تشریف لائے ہوئے مہمانوں اور ادارے کے بانی و سرپرست ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی اور اساتذہ و طلبا طالبات کا استقبال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ اس اردو زبان نے ہمیں علامہ اقبال جیسا قابل فخر شاعر دیا تو ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی جیسا ادیب اور بچوں کا بڑا شاعر دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی معیت میں اقبال ڈے کے موقع سے یوم اردو منارہے ہیں۔ ان کی شخصیت میں اقبال اور اردو زبان کی دانش اور مٹھاس کو یکجا دیکھا جاسکتا ہے۔
اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے کہا کہ یہ اردو زبان کی طاقت اور اس کی ثروت مندی کی مثال ہے کہ اس نے سرسید احمد خان، شبلی نعمانی اور میروغالب کے ساتھ علامہ اقبال جیسا عظیم شاعر دیا۔
علامہ اقبال صرف اپنے ہی زمانے کے یا صرف برصغیر کے ہی شاعر نہیں تھے، ان کی فکر میں ایسی تابناکی تھی کہ ساری دنیا نے انہیں احترام کی نظروں سے دیکھا اور ان کی شاعری کے توسط سے اردو زبان کے حسن اور اس کی اظہار کی طاقت کو جانا، ان کی فکر اور ان کی زبان میں ایسی تازگی ہے کہ آج بھی جو انسان سنجیدگی سے ان کا کلام پڑھتا ہے وہ اردو زبان کی جادو اثری اور علامہ کی فکر و نظر کا اسیر بن جاتا ہے۔ جس طرح اردو زبان اپنی پیدائش سے جمہور پسند اور اپنی مٹی سے محبت کا درس دیتی آرہی ہے، اسی طرح علامہ اقبال کی حب الوطنی بھی بے مثال تھی۔ علامہ اقبال نے بچوں کے لیے بہت ساری نظمیں لکھیں، ان کی ہر نظم بہت مؤثر اور دل پر نقش ہوجانے والی ہے۔”ٹہنی پہ کسی شجر کی بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا“ ایسی سبق آموز نظم ہے جسے پڑھنے کے بعد بچوں میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار علامہ کی نظم”سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا“ایسی نظم ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ علامہ بے مثال شاعر، اور روشن دماغ فلسفی تھے۔ ان کی فکر نے اردو زبان و ادب اور اردو بولنے والے لوگوں کو نئی طاقت اور توانائی بخشی ایسے عبقری شاعر، ادیب، اور فلسفی کو یاد کرنا اور ان کی یوم پیدائش کو یوم اردو کے طور پر منانا خوش ذوقی، اور دانش مندی کی دلیل ہے۔ جب تک اقبال کا نام زندہ رہے گا اردو زبان کا سرمایہ کم مایہ نظر نہ آئے گا۔ اور جب تک اردو زبان زندہ رہے گی علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر اور انسان کے پیدا ہوتے رہنے کا امکان روشن رہے گا۔ ادارہ کے نائب سرپرست جناب انیس الرّحمان صاحب نے کہا کہ؛ علامہ اقبال اور اردو زبان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایک طرف ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو زبان و ادب کی ہی زرخیزی تھی جس کی بدولت علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر پیدا ہوئے تو دوسری طرف ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال جیسے عظیم شاعروں نے اردو زبان و ادب کے وقار میں اضافہ کیا۔ اس طرح یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ جن لوگوں کو اپنی مادری زبان سے محبت ہوتی ہے ان کی صلاحیتیں زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ اور وہ لوگ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کو یاد کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی زبان سے محبت کریں، اسے اپنی زندگی کا حصّہ بنائیں۔ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ جانیں۔ اور ہر سطح پر اس کے فروغ کے لیے کام کریں۔
ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے کہا کہ یہ اردو زبان کا کمال ہے کہ جب کوئی علامہ اقبال نہیں تھا تو اردو میں علامہ اقبال، پیدا ہوا۔ اس لیے جب تک اردو زبان زندہ ہے یہ امکان ہے کہ ابھی کئی علامہ اقبال پیدا ہوں گے۔ کسی بھی زبان کا بڑے سے بڑا شاعر، ادیب، دانشور، عالم، اور مفکر کبھی بھی زبان اور اس کے اجتماعی تفاعل سے بڑا نہیں ہوتا ہے۔ اردو نے دنیا کو سرسید احمدخان، حالی، غالب، میر، شبلی نعمانی، اور ابوالاعلیٰ مودودی جیسی کتنی ہی بڑی بڑی شخصیات دی ہیں۔ یہ اردو زبان کا بڑا کمال ہے کہ یہ خود سے محبت کرنے والوں کو کیا سے کیا بنادیتی ہے۔ ویسے تو ہر زبان کے بولنے والوں میں وزیر، وکیل، جج، افسر، سائنسداں، صحافی، انجینئر، اور ڈاکٹر پیدا ہوتے ہیں مگر شہرت اور کہنا چاہیے کہ دائمی شہرت انہیں کو ملتی ہے جنہیں اپنی زبان سے محبت ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اردو ہماری تہذیب، اور علمی سرمائے کی جڑ ہے۔ جب تک ہم اس سے جڑے رہیں گے ہماری شناخت مستحکم رہے گی۔ اور ہمارے اندر علم و عمل، اور فکر و نظر کے نت نئے چشمے بھی پھوٹتے رہیں گے۔اور جس دن ہم اپنی زبان کو بھلادیں گے اس دن ہم اور ہمارا ذہن بنجر ہوجائے گا۔ پھر نہ کوئی گلاب کھلے گا، نہ فکر و نظر کا کوئی سورج طلوع ہوگا۔ اس لیے اپنی مادری زبان کے ساتھ مادرانہ رشتہ قائم کریں کیوں کہ اس کے بغیر علم و ادب اور فکرو نظر کی جنت نصیب نہیں ہوگی۔
کئی اساتذہ نے بھی اس موقع سے اردو زبان و ادب کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور حصول علم کے لیے مادری زبان کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ انجنیر محمد شعیب نے کہا کہ آپ انجینئربنیں کہ ڈاکٹر، وکیل بنیں کے افسر، اپنی مادری زبان پر دسترس کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ علامہ اقبال بھی وکیل تھے۔ فلسفہ کے اسکالر تھے۔ انگریزی زبان، اور فارسی زبان پر مہارت رکھتے تھے مگر ان کی فکر، فکر کا محور اور اس کے اظہار کا طاقتور مرکز اردو زبان تھی۔ اسی زبان نے انہیں سربلندی بخشی۔ یہ خوب صورت اور معنیٰ خیز جلسہ ماسٹر محمد سہیل صاحب کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہونچا۔