جی این کے اردو
غزل: اشہر اشرف
سنائیں داستان کیا بھلا تمہیں سراب کی
نہ اپنی ہے خبر کوئی ہمیں نہ ہم رکاب کی
مثال کیا دوں لا مثال حسن اور شباب کی
تمہیں کلی کہوں میں یا کہ پنکھڑی گلاب کی
اتار دو گے خود کہ یا خبر میں لوں نقاب کی
یہی ہے آرزو فقط مرے دلِ بے تاب کی
سمیٹ لے یہاں سے دفتر اپنے ظلم و جبر کے
ستم گر آ رہی ہے ہر گھڑی ترے حساب کی
نہ جانے کب ہنسائے گا نہ جانے کب رلائے گا
قسم سے لاجواب ہے ہر اک ادا جناب کی
کوئی امید اس کے آنے کی رہی نہیں ہے اب
نہ پوچھ انتہا ندیم میرے اضطراب کی
کہاں گئے وہ رات دن کہاں گئے وہ صبح شام
نہ خوف تھا گناہوں کا نہ فکر تھی عذاب کی
دکھائیں کیسے چہرہ ہم خدا کو روزِ حشر کل
نہ نیکیاں ہمیں نہ ہے عمل کوئی ثواب کی
میں کیوں نہ ناز اشؔہر اپنی خوش نصیبی پر کروں
زمانہ دے رہا ہے داد میرے انتخاب کی
اشؔہر اشرف