طاہر تلہری ایک انسان دوست شاعر
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
زبان ترسیل خیال کا وسیلہ ہوتی ہے، لیکن شعر موزوں الفاظ کے خاص اہتمام کا نتجہ ۔ جس میں فن کے ساتھ فکر و اسلوب موجود رہتا ہے ۔ جو عام آدمی کو متوجہ کرتا ہے اور اس کے جذبات وخیالات کا آئینہ بن جاتا ہے ۔ یہی صفت شاعری کو اصناف سخن میں ایک مقبول صنف کا درجہ عطا کرتی ہے ۔ امیر خسرو سے طاہر تلہری تک بے شمار شعراء نے اسے سنوارا، نکھارا اور خون جگر سے نہ صرف سینچا ہے بلکہ مختلف اصناف سخن اور اقسام نظم کو اپنے افکار و تخیل سے مالا مال بھی کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے شاعری میں اپنے عہد کی ترجمان اور جہان نو کی بشارت بننے کی اہلیت پیدا ہوئی ۔ اس طرح شاعری میں عصری محسوسات شاعر کے ادراک و بصیرت کے ذریعہ فکری دستاویز کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں ۔ جناب طاہر تلہری اسی زمرے کے شاعر ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداء نعت گوئی سے کی ۔ جہاں ان کے نقش قدم تابندہ ہیں ۔ ان کی نعتیں مقامی میلاد کی محفلوں میں بڑے شوق سے پڑھی اور سنی جاتی تھیں ۔ نعتیہ اشعار کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے ؛
کبھی عابد کبھی قائد کبھی منصف طاہر
ایک ہی شکل میں کیا کیا ہے رسولؐ عربی
نہ رنگ ونسل کا جھگڑا نہ ذات پات کاامنڈ
سبھی کے واسطے وا ہیں نبیؐ کے دروازے
جو باندھتے رہتے تھے دن رات دشمنی پہ کمر
اماں انہیں بھی ملی آپ ہی کے دروازے
اس شعر میں طاہر صاحب نے دنیا کی پریشانیوں کا مداوا پیام رسالت میں بتایا ہے؛
قبول کر لے زمانہ اگر پیام رسولؐ
کسی پہ بند نہ ہوں پھر کسی کے دروازے
آگے فرماتے ہیں؛
تو نے دنیا کو دیا ایسی حکومت کا نظام
مطمئن ہوں جس میں سب مزدور اور سرمایہ دار
میں وہ مفلس ہوں کہ جس کے پاس دنیا ہے نہ دیں
صرف تیری ذات سے نسبت ہے وجہ افتخار
طاہر صاحب کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں تخلیقی فکر، معاشرہ میں اقداروں کے فقدان کا احساس، تہذیب و تمدن کے بگاڑ کا غم اور روشنی کی تلاش میں اندھیرے میں ٹکریں مارتے لوگوں کی حالت چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔ ان کا مشاہدہ اور تجربہ فطری طور پر شعر کے پیکر میں ڈھل کر انسانی زندگی کی چلتی پھرتی حقیقت بن جاتا ہے ۔ اسی حقیقت کی ادائیگی کے لئے انہوں نے اقسام نظم میں غزل کو اپنایا ۔ اپنی طبیعت کے فکری میلان کی وجہ سے وہ اسی کے ہو کر رہ گئے ۔ ویسے غزل ہر عہد میں شعراء کی فکر کا مرکز رہی ہے ۔ اس کا ایک شعر وسیع مفہوم کو نہایت موثر طریقہ سے ادا کر دیتا ہے، جس کے لئے نثر کی طویل عبارت درکار ہوتی ہے ۔
اس روشنی کے شہر کی تاریکیاں نہ پوچھ
آنکھیں ہوئی ہیں مگر سوجھتا نہیں
لہجے کی نغمگی میں سبھی کھو کے رہ گئے
چہرے پہ کیا لکھا تھا کسی نے پڑھا نہیں
ہر گام پر ہے جان کا دھڑکا لگا ہوا
گو اس نگر میں کوئی مجھے جانتا نہیں
شاعر اپنے عہد کا صرف آئینہ نہیں بلکہ تاریخ داں، ناقد، مصلح اور مفکر بھی ہوتا ہے ۔ ایک طرف وہ اپنے دور کی تاریخ رقم کرتا ہے تو دوسری طرف سماجی نظریوں سے متاثر ہوتا ہے ۔ سماج کی کمیوں، خرابیوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ ان پر تنقید کر سماج کو راستہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس طرح شاعری معاشرے کی نمائندہ بن جاتی ہے ۔ اس لحاظ سے طاہر تلہری کی شاعری پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت وہ اپنی شاعری کے ابتدائی منازل طے کر رہے تھے، اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی ۔ ترقی پسند شعروادب کی گھن گرج اور خوش نما نعروں سے طاہر صاحب بھی متاثر ہوئے اور اس درجہ متاثر ہوئے کہ کمیونزم میں ہی انہیں پوری انسانیت کے دکھ درد کا علاج نظر آنے لگا ۔ اس دور کی شاعری میں یہ رنگ صاف دکھائی دیتا ہے؛
تم تو دولت کے پجاری ہو تمہیں کیا معلوم
فاقہ ہوتا ہے تو اولاد بھی بک جاتی ہے
لذّتِ وعدہ دیدار کی باتیں نہ کرو
کام کا وقت ہے بے کار کی باتیں نہ کرو
طاہر صاحب کے چار مجموعے ‘پہلا پتھر’ ‘الکلام’ ‘حرف بے لباس’ اور ‘پتھر کو موم کیا ہے’ منظر عام پر آچکے ہیں ۔ چوتھا مجموعہ طاہر صاحب کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں کی کوششوں سے شایع ہو سکا ۔ مگر مجھے ان کا صرف ایک مجموعہ “الکلام” پڑھنے کو مل پایا ۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی پسندی کے بعد جدیدیت کی جمالیات سے بھی متاثر ہوئے، لیکن اپنے گہرے مطالعہ، افکار و خیالات میں عمق و تجر پیدا ہونے اور غیر معمولی قوت مشاہدے کی وجہ سے وہ بہت جلد ان نظریات سے دامن کش ہو گئے ۔ وہ شعوری طور پر تقلید کے مخالف ہیں ۔ اپنے ذہن سے سوچتے اور اپنے انداز میں اس کا اظہار کرتے ہیں ۔ جو بات انہیں بھلی لگتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں اور جو بات ان کا ذہن قبول نہیں کرتا اسے رد کر دیتے ہیں ۔ وہ غزل کے لئے خیال کی ندرت، اسلوب کی تازگی، سادہ و با محاورہ زبان اور حقیقت نگاری کو ناگزیر تصور کرتے ہیں ۔ ان کا مشاہدہ کمال کا ہے، روزمرہ کی معمولی باتوں کو شعر کا موضوع بنانا ان کا خاص فن ہے ۔ طاہر کی یہی خصوصیت انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے؛
تو کرے لاکھ ابھرتے ہوئے سورج کو سلام
تیرے حصّہ میں اجالا نہیں آنے والا
شاعری کے مطالعہ سے قاری کو طاہر کے نظریہ زندگی، نظریہ شعر و ادب اور مذہبی عقائد کا پتا چلتا ہے ۔ مگر یہ سب کچھ غزل کے پردے میں ہوتا ہے ۔ کہیں بھی شعریت مجروح نہیں ہونے پاتی ۔ وہ غزل میں سادگی کے قائل ہیں مگر لہجے میں باکپن کے ساتھ ۔ ان کے یہاں کلاسکی روایت اور جدید غزل کے اثرات نمایاں ہیں ۔ معروف اخلاقی قدروں کو غزل میں سمونے، زندگی کو صالح و حیات بخش زاویہ سے دیکھنے اور معاشرے کے منفی پہلووں پر شدید وار کرنے میں انہیں مہارت حاصل ہے ۔ حسین تشبیہات، عمدہ استعارے اور دل کش تلمیحات کے استعمال نے ان کی غزل کو انتہائی پر کشش بنا دیا ہے ۔
دھوپ آئی سر پہ آنکھ کھلی خواب چھٹ گئے
سورج ہوا بلند تو سائے سمٹ گئے
کچھ ایسے بد حواس ہوئے آندھیوں سے لوگ
جو پیڑ کھوکھلے تھے انہیں سے لپٹ گئے
گزرے ہیں زندگی کے شب و روز اس طرح
گویا کسی کتاب کے اوراق الٹ گئے
یہ بات طاہر کی شاعری پر پوری طرح صادق آتی ہے کہ غزل میں شاعر خود سے باتیں کرتا ہے ۔ غزل کی اس خود کلامی کی کیفیت نے ان کے منفرد انداز کا پیرہن اختیار کر لیا ہے ۔ ان کی شاعری میں شہر، صحرا، پتھر، سورج، دریا کی علامتیں بار بار سامنے آتی ہیں ۔ ان علامتوں کو زندگی کے تجربات کے ساتھ جوڑ کر طاہر کی شاعری میں استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر و سخن کی ساری نزاکتوں کو بہ خوبی نبھایا ہے ۔ شہر ان کے یہاں ہنگاموں سے عبارت ہے، تو دریا (طغیانی میں) حد سے تجاوز کے باعث تباہی کا سبب ہوتا ہے ۔ سورج اور پتھر کو شعری ضرورت کے مطابق الگ الگ معنی میں استعمال کیا گیا ہے مثلاً؛
شہر کا شہر امنڈ آیا ہے لے کر پتھر
دیکھیے کس کو گنہ گار بنایا جائے
چاہوں تو کائنات کے خرمن کو پھونک دوں
تم کیا سمجھ رہے ہو کہ پتھر میں قید ہوں
آزر کا فن ہے جس کو خدا کہہ رہے ہیں لوگ
پتھر تو بے قصور ہے پتھر میں کچھ نہیں
اشک آنکھوں میں سنبھالے رہو کام آئیں گے
راستے میں کوئی دریا نہیں آنے والا
قوم و ملت کا غم ان کی ذات کا حصہ ہے ۔ انہیں اپنی ذات کے ساتھ مظاہر کائنات کے دکھوں کا بھی احساس ہے ۔ وہ دنیا کی تباہی و بربادی اور اعلیٰ انسانی اقدار کے زوال سے پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ قوم و وطن کی بدحالی اور اپنے شاندار ماضی کو سامنے رکھ کر جب وہ حال کا جائزہ لیتے ہیں تو بے حد مایوسی سے دوچار نظر آتے ہیں ۔ ان کا دل غم زدہ ہو جاتا ہے اور روشن ماضی کے خیال ہچکولے کھانے لگتے ہیں ۔ وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جس قوم نے ہزاروں سال دنیا کی حکمرانی اور انسانیت کی رہنمائی کی وہ اس حال کو کیوں پہنچ گئی ۔ جس کی عقل و ذکاوت نے ہنرمندی کے بے مثال جوہر دکھائے، آج وہ دنیا کے سامنے بے ہنر کیوں قرار دے دی گئی ۔ یہ درد طاہر تلہری کی شاعری میں کچھ اس طرح پھوٹتا ہے؛
اب تو جیسے ہمیں کوئی ہنر آتا ہی نہیں
پہلے کر لیتے تھے ہر معرکہ سر لمحوں میں
یہ خیال لمحہ فکریہ ہے اور قوم و وطن کو دنیا کی دوڑ میں آگے آنے کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
جس طرف دیکھیے تاریکی ہی تاریکی ہے
ہم یہاں شمعیں جلائیں تو جلائیں کتنی
بے سروسامانی میں جب زمانہ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے شاعر نے اپنے تجربہ کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔
ارادہ جب کیا دنیا کو آئینہ دکھانے کا
زمانہ جا کے سارے شہر کے پتھر اٹھا لایا
کہوں کیا دشت غریب میں گزاری زندگی کیسے
جہاں سایہ نظر آیا وہیں بستر اٹھا لایا
زندگی کے اتار چڑھاؤ سے پریشان ہو کر وہ فرار اختیار نہیں کرتے بلکہ ہمت و حوصلہ کا ثبوت دیتے ہیں ۔ وہ حالات اور سیاسی تبدیلیوں کا سوجھ بوجھ سے مقابلہ کرنے کی صلاح دیتے ہیں ۔ ان کی دنیا شناسی قابل داد ہے ۔ انہوں نے انتہائی خوبصورت استعارے میں اس خیال کو قلم بند کیا ہے ۔
ابھی مجھ کو ترغیب پرواز مت دو
ابھی میری جانب نشانے بہت ہیں
طاہر کے احساس فکر کو ان کے مشاہدہ اور بالغ نظری نے بہت وسیع کر دیا ہے ۔ ان کی نگاہ سے ایسے گوشے بھی پوشیدہ نہیں رہتے جن تک عام ذہن کی رسائی ممکن نہیں مثلاً چھوٹے بچوں کی سنجیدگی ان کی حساس طبیعت کو بے چین کر دیتی ہے ۔ وقت سے پہلے بڑے ہوتے بچوں کے بارے میں ان کی زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے ۔
کس درجہ ہیں سنجیدہ مرے عہد کے بچے
آنکھوں میں شرارت ہے نہ ہونٹوں پہ ہنسی ہے
محبت و نفرت کے بارے میں بھی ان کا مشاہدہ کمال کا ہے ۔
محبت ہے زمانے میں بہت کم
محبت کی اداکاری بہت ہے
دیوار اٹھانی تھی تو دیوار اٹھاتے
لیکن اسے نفرت کی علامت نہ بناتے
اندھیرے کے حوالے سے بھی طاہر کی شاعری میں ایک اہم شعر کے پیکر میں ڈھل کر اس طرح سامنے آتا ہے ۔
کس کو خبر تھی ایک دن ایسا بھی آئے گا
سورج کے ساتھ گھر میں اندھیرا بھی آئے گا
ہم اس زمیں پہ چاند ستارے نہ لا سکے
لیکن کسی کے گھر میں اندھیرا نہیں کیا
صحافت کے غیر ذمہ دارانہ رویہ، بگاڑ اور بے احتیاطی پر تنقید کرتے ہوئے طاہر تلہری کہتے ہیں ۔
جس آگ نے جلائی تھیں دو چار بستیاں
وہ آگ دور دور تک اخبار لے گئے
اخبار میں خبر تو نہ ہوگی کوئی درست
لاؤ پڑھیں ضرورت رشتہ کے اشتہار
ایک ادیب و شاعر یا فن کار کو زمانہ میں کتنی ہی مقبولیت حاصل ہو لیکن اپنوں کے ذریعہ نظرانداز یا فراموش کئے جانے پر وہ جس کیفیت سے گزرتا ہے ۔ طاہر نے اس کا اظہار انتہائی خوبصورت انداز میں کیا ہے ۔
دوستوں میں کوئی خدا تو نہ تھا
تم نے پھر کیوں بھلا دیا مجھ کو
بہر حال طاہر کی شاعری میں وہ سب کچھ ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرنے کے علاوہ ادب میں الگ پہچان دلانے کے لئے کافی ہے ۔ ان کے فکری سمندر میں ایسے بہت سے قیمتی گوہر موجود ہیں جنہیں ناقدین کو دریافت کرکے انہیں شعری ادب میں وہ مقام دلانا چاہئے جس کے وہ مستحق ہیں ۔ اس خواہش کا اظہار طاہر تلہری نے اپنے دیوان “الکلام” کی ابتداء میں کیا ہے ۔
طاہر مٹے گا کیسے یہ بے چہرگی کا غم
وہ سنگ ہوں جسے کوئی آزر نہیں ملا
—