غیر درجہ بند

اردو شاعری کی ایک منفرد آواز: مظفر ابدالی از فخرالدین عارفی

جی این کے اردو

اردو شاعری کی ایک منفرد آواز : مظفر ابدالی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فخرالدین عارفی (پٹنہ )

گزشتہ چند برسوں میں اردو میں ، جن چند جواں سال شعرا نے اچھی شاعری کے نمونے پیش کیےء ہیں اور اپنے منفرد لب و لہجے سے اپنے قارئین کے ساتھ ساتھ اردو کے بڑے ناقدین کو بھی متوجہ کیا ہے ، ان میں ایک نمایاں اور اہم نام مظفر ابدالی کا بھی ہے ۔ ان کے نہ صرف افکار دور جدید کی گہری عکاسی کرتے ہیں ، بلکہ لہجہ اور انداز بھی بالکل منفرد اور الگ ہے ۔ اردو کے سربرآوردہ ناقد اور جدیدیت کے سب سے بڑے علم بردار شمس الرحمن فاروقی صاحب نے مظفر ابدالی کے دوسرے شعری مجموعہ “در و دیوار سے آگے ” کا پیش لفظ تحریر کیا ہے ، ان کے پہلے شعری مجموعے کا نام ” آٹھواں دروازہ ” تھا ۔ یعنی ایوان شاعری میں مظفر ابدالی فکر و فن اور شعر و سخن کا ایک ایسا گھر بنانے کی شعوری کوشش کررہے ہیں جس کی تمنّا غالب نے کی تھی ۔ آج ہم جس دنیا میں زندہ ہیں ، وہاں ایسا لگتا ہے جیسے ہماری سانسوں پر بھی پہرے بیٹھا دیےء گےء ہیں اور ہمارے سماجی رشتوں کے درمیان نہ صرف کنکریٹ کی ایک مضبوط دیوار ہمارے سماج میں بہت تیزی سے بڑھتے ہوئے اپارٹمنٹ کلچر نے کھڑی کردی ہے ، بلکہ ہمارے وجود کو بھی ریزہ ریزہ کردیا ہے اور ہم احساس کی سطح پر نہ صرف یہ کہ بہت مادیت پسند ہوگئے ہیں بلکہ اپنے مفاد اور ذات کے حصار میں قید ہوکر بھی رہ گےء ہیں ، ہمارا سب کچھ ہم سے چھن چکا ہے ، حتیٰ کہ ہماری سانسیں بھی وقت کی قیدی ہوچکی ہیں ۔۔۔۔
ہونٹ کی مہر ہیں ہم ، پاوٴں کی زنجیر ہیں ہم
زندگی دیکھ ، ترے خواب کی ، تعبیر ہیں ہم
۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئ ہنستا ہمیں دیکھ کے ، روتا ہے کوئی
اپنے اجداد کی ہاری ہوئی جاگیر ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا دونوں شعر مظفر ابدالی کے ہیں ۔ ان اشعار میں شاعر نے بہت سلیقے اور ہنر مندی کے ساتھ موجودہ عہد کے المیہ کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ، کبھی کوئی دور ایسا بھی تھا کہ ہمارے لب آزاد تھے اور ہمارے قدم پا بہ زنجیر نہ تھے ۔ لیکن پھر بھی ہم نے خواب دیکھے تھے اور مزید کھلی فضا میں سانسیں لینے کی تمنّا کی تھی ۔ لیکن وقت نے آج یہ کیسا ستم کیا ہے کہ ہمارے خواب ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں اور ہماری حیثیت اپنے اجداد کی ہاری ہوئی جاگیر جیسی ہوگئی ہے ۔
یہ احساس محض ایک شاعر کا کرب اور درد ہی نہیں ہے ، بلکہ موجودہ عہد کا نوحہ بھی ہے ۔
شاعر کا احساس اسی نوحہ پر رکتا نہیں ہے ، بلکہ اس کی آنکھیں جہاں ایک طرف ماضی کی تصویریں دیکھتی ہیں اور ان کا گلہ شکوہ کرکے اپنی شکست پر آنسو بہاتی ہیں ، وہیں ہمیں مستقبل کے لیےء کچھ پیغام بھی دیتی ہیں :
خود اپنے ہونے کا اپنی جاں کو ثبوت دینے کا وقت آیا
یقیں کی ساری حدیں مٹا دو ، گماں کی بات چھیڑو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو زخم بننے تھے بن چکے اب کہاں تلک میں سبب بتاوں
جو تیر چلنے تھے چل چکے ہیں ، کماں سے آگے کی بات چھیڑو
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
قدم تو کہتے ہیں راستے کے کئی مراحل بچے ہوئے ہیں
نگاہ کہتی ہے کہ تھک چکی میں ، یہاں سے آگے کی بات چھیڑیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
مظفر ابدالی کی غزلوں کا لہجہ اردو کی روایتی غزلوں سے مختلف ضرور ہے ، فکر بھی جدا گانہ ہے
۔ لیکن غزل کی دنیا میں اپنی ایک مستحکم شناخت قائم کرنے کے لیےء ، اتنا ہی سب کچھ کافی نہیں ہے ، بلکہ غزل کو غزل کے لہجے میں ڈھالنا بڑی بات ہوتی ہے ، شعر وہ زندہ رہتا ہے ، جس کے اندر فکر و احساس کی ایک بڑی دنیا آباد ہو ، فلسفہ بھی ہو ، تاریخ بھی ہو ، ماضی کا نوحہ بھی ہو ، حال کا سرور بھی ہو اور بھی بہت کچھ ہو ۔ لیکن بنیادی طور پر جذبات و احساسات کی جو دنیا شاعر نے آباد کی ہے ، اس دنیا میں بارود کی مہک کے ساتھ ساتھ مہندی کی خوشبو بھی ہو ، ہجر کی کیفیتوں کے ساتھ ساتھ وصل کی راحتیں بھی ضرور ہوں ۔ چوں کہ غزل کی تہذیب اور غزل کے ڈکشن کو مجروح کرکے اردو میں غزل کی بڑی شاعری نہیں کی جاسکتی ہے ۔ میرے خیال میں اس مجموعے کی زیادہ تر غزلیں اور نظمیں مظفر ابدالی کے اس عہد کی تخلیقات ہیں ، جب وہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں الہ اباد میں تھے اور شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ ان کا گہرا رابطہ تھا ۔ ایک دائرہ ان کی شاعری کا بنتا ہوا بار بار نظر آتاہے ، لیکن لا شعوری طور پر بننے والا یہ دائرہ جب شعور کے آئینے سے ٹکراتا ہے تو نہ صرف ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے ، بلکہ ریزہ ریزہ ہوکر بکھر بھی جاتا ہے ۔ خود شمس الرحمن فاروقی صاحب مظفر ابدالی کے سلسلے میں کیا لکھتے ہیں ان کے تحریر کردہ پیش لفظ کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں :
” مظفر ابدالی کا کلام پڑھیےء تو ایک تازہ مسرت اور تحیّر کا احساس ہوتا ہے ۔ ان کے یہاں نےء مضامین کی تلاش اور اظہار ذات کی ایک سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے ، ان کے یہاں آج کے چلتے ہوئے مضامین کا شائبہ نہیں ۔ “
ایک دوسری جگہ وہ مزید یہ تحریر کرتے ہیں کہ :
مظفر ابدالی کو نئی نئی زمینیں نکالنے میں خاص مہارت ہے ، جیسا کہ ان کی غزلوں سے اندازہ ہوتا ہے ۔ “
وہ اور آگے لکھتے ہیں : ” خسرو سے لے کر آج تک تمام شاعری میں روانی کو بنیادی اہمیت دی گیء ہے ۔ مثلاً حافظ سے منسوب ایک نہایت مشہور شعر :
آں را کہ دانی استاد گر بنگری بہ تحقیق
صنعت گر است اما شعر رواں نہ دارد
مظفر ابدالی کی نظم میں مجموعی کیفیت غزلوں سے کچھ مختلف ہے اور یہ بڑی دلچسپ بات ہے ، کیونکہ عام طور پر شاعر کا ایک ہی انداز ہوتا ہے ہے جو غزل اور نظم دونوں میں یکساں نمایاں ہوتا ہے ۔”
شمس الرحمن فاروقی صاحب نے مظفر ابدالی کی غزلوں کے مقابلے میں ان کی نظموں کے تعلق سے زیادہ باتیں لکھی ہیں اور اس کے لیےء ان کی نظموں کے اندر پوشیدہ ابہام کو ان کی نظموں کا بڑا وصف قرار دیا ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے علاوہ اپنی تحریر کے آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
مظفر ابدالی زبان و بیان پر مزید قابو پالیں اور شعر کے لوازم کو ، جنہیں پرانے لوگ خوب جانتے تھے ، احتیاط سے برتنا سیکھیں تو اور بھی اچھا کہیں گے ۔ “
میں اس سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کی باتوں سے اپنے صد فی صد اتفاق کا اظہار کرتا ہوں ۔ یہ بات سچ ہے کہ مظفر ابدالی نظموں اور غزلوں ، دونوں کے اچھے شاعر ہیں ، لیکن ان کو اپنے فن کے جوہر کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیےء مزید ریاضت کی ضرورت ہوگی ۔ ان کی غزلوں کے چند اور اشعار جو بہت اچھے ہیں ، ملاحظہ کریں :
عقل کہتی ہے کہ کانٹے ہیں فقط کانٹے ہیں
شوق کہتا ہے کہ صحرا میں شجر زندہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونٹ کی مہر ہیں ہم ، پاوٴں کی زنجیر ہیں ہم
زندگی دیکھ ترے خواب کی تعبیر ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیوند ہی پیوند نظر آتے ہیں اب تو
حالانکہ وہی مخمل و کمخواب ہیں ہم لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کس کے حکم کی پابند ہوگئی دھڑکن
یہ کس کا زور ہے ہر اختیار ، چپ کیوں ہے
فخرالدین عارفی
محمد پور ، شاہ گنج ۔ پٹنہ 800006 ( بہار )

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ