غیر درجہ بند

مولاناآزاد جیسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں: پروفیسر شیخ عقیل احمد

جی این کے اردو

مولاناآزاد جیسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں: پروفیسر شیخ عقیل احمد


مولانا آزاد کے افکار پر عمل کرکے ہم تمام سماجی و سیاسی مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں:سیدہ سیدین حمید
پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے یومِ پیدایش کی مناسبت سے مولانا آزاد کی وراثت کے موضوع پر
قومی اردو کونسل میں خصوصی لکچر

نئی دہلی: آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدایش کی مناسبت سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں معروف دانشور محترمہ سیدہ سیدین حمید کے خصوصی لکچر کا اہتمام کیا گیا۔اس موقعے پر تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے مہمان مقرر کا استقبال کیا ،ساتھ ہی مولانا آزاد کی شخصیت کے اہم پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد نے ہندوستان کے وزیر تعلیم کی حیثیت سے لائق تحسین خدمات انجام دیں ۔ انووں نے آزاد ہندوستان کے شاندار مستقبل کےلئے سائنس، ٹکنالوجی اور میڈیکل سائنس کی تعلیم کے بہترین ادارے قائم کرنے میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تحریک آزادی کے دوران ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اِس ملک کی آزادی میں جن عظیم رہنماؤں نے غیر معمولی کردار ادا کیا اور جن کے فکروعمل نے ہندوستان سے انگریزی اقتدار کے خاتمے کو یقینی بنایا ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کانام نمایاں ہے۔ شیخ عقیل نے کہا کہ مولانا آزاد قومی یکجہتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سب سے بڑے داعی تھے اور انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں جا بجا متحدہ قومیت اور اس مشترکہ وراثت کو موضوع ومحور بنایا، جو ہندوستانی قوم کا ہزاروں سال کا قابل فخر سرمایہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد جیسی نابغۂ روزگار شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں،وہ اپنے پیچھے قومی یکجہتی ، اتحاد و اتفاق اورملک کی تعمیر و ترقی کے تئیں جو نظریاتی نقوش چھوڑ گئے ہیں ،ان پر عمل کرکے ہندوستان میں نہ صرف سماجی اتحاد کا بے مثال کارنامہ انجام دیا جاسکتا ہے،بلکہ اس طرح ہندوستان وشوگرو بھی بن سکتا ہے۔
محترمہ سیدہ سیدین حمید نے اپنے لکچر میں مولاناآزاد سے وابستہ دلچسپ یادیں تازہ کرتے ہوئے ان کی شخصیت اور زندگی کے مختلف علمی،فکری،سیاسی و سماجی پہلووں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ مولانا آزاد ابتدائی عمر سے ہی قومی و ملی جدوجہد میں شرکت کرنے لگے تھے۔انھوں نے کم عمری میں ‘لسان الصدق’ نامی اخبار جاری کیا ،جس کے ذریعے قوم کو بیدار کرتے ہوئے اس وقت کے حالات میں ضروری طرزِ عمل اختیار کرنے کی دعوت دی،آگے چل کر انھوں نے یہی کام’الہلال‘ اور’البلاغ‘ جیسے مشہور اخباروں کے ذریعے کیا،جس کی گونج کلکتہ اور پھر پورے ملک میں سنی گئی جس کی وجہ سے اس وقت کی برطانوی حکومت نے انھیں شہربدر کرکے رانچی میں نظربند کردیا۔انھوں نے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کے بعد مولاناآزاد کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آگئی اور اپنے آپ کو انھوں نے قومی تحریکوں کے لیے وقف کردیا۔انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد کی سیاسی فکر مشترکہ قومیت اور ہندومسلم اتحاد پر قائم تھی اور ان کا ماننا تھا کہ تمام طبقات مل کر ہی نئے ہندوستان کی تعمیر و ترقی کا فریضہ انجام دے سکتی ہیں۔انھوں نے مولانا کی اخلاقی و شخصی خصوصیات پر بھی خاص طورپر گفتگو کی اور اس حوالے سے ان کی مختلف خوب صورت تحریروں کے حوالے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا آزاد کی ذات میں بہت غیر معمولی قسم کی انسانی و اخلاقی خوبیاں جمع ہوگئی تھیں۔انھوں نے عصرحاضر میں مولانا آزاد کے افکار کی معنویت پر زور دیا اور کہا کہ آج ہم جس قسم کے تشویش انگیز حالات سے گزر رہے ہیں،ان میں خصوصاً مولانا کے افکار ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور ان پر عمل کرکے ہم اپنی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔ پروفیسر شیخ عقیل احمدکے اظہارِ تشکر کے ساتھ مجلس اختتام پذیر ہوئی۔اس موقعے پر کونسل کا تمام عملہ موجود رہا۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ