ڈاکٹر پریمی رومانی کی کتاب اقبال اور جدید اردو شاعری کی رسم رونمائی
جی این کے اردو ڈیسک 9/ نومبر 2022
اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی کشمیر یونیورسٹی سر نگر اور گورتمنٹ ڈگری کالج فار بائز سوپور سری نگر کے باہمی اشتراک سے شاعر مشرق علامہ اقبال کی یوم پیدائش پر کشمیر یونیورسٹی کے گاندھی بھون میں ” اقبال اور تصور انسان“ کے موضوع پر ایک سیمنار منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر نیلو فرخان وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی سری نگر کشمیرنے گی۔ پروفیسر فاروق احمد مسعودی ڈین اکیڈ مک افیرز اور ڈاکٹر نثار احمد میر رجسٹرارکشمیر یونیورسٹی نے خصوصی طور پر اس پروگرام میں شرکت کی۔ ڈاکٹر ستیش ومل پروگرام ایگزیکٹیو آل انڈیا رڈیو سری نگر نے اس پروگرام میں مہمان ذی وقار کی حثییت سے شرکت فرمائی، ڈاکٹر غلام نبی حلیم ممبر وقف بوڈ بھی ایوان صدارت میں شامل تھے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر مشتاق احمدگنائی کوآرڈی نیٹر اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی، کشمیر یونیورسٹی سری نگر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ بعد میں ڈاکٹر پریمی رومانی کی تازہ تصنیف” اقبال اور جدید اردو شاعری“کی رسم رونمائی وایس چانسلر محترمہ پروفیسر نیلوفر خان صاحبہ کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائی۔ سیمنار میں ”اقبال اور تصور انسان“کے موضوع پر مختلف اسکالروں نے اپنے اپنے مقالات پیش کئے۔ جن کو کافی سراہا گیا۔ بعد میں کتاب کے مصنف ڈاکٹر پریمی رومانی نے اپنی وی ڈی یو کلپینگ کے ذریعے سے اقبال کے موضوع سے اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”علامہ اقبال وسیع مطالعہ، فکری تجربہ اور ذہنی مشاہدہ رکھتے تھے۔ وہ ایک بڑے فنکار تھے اور غزل اور نظم دونوں پر یکسان قدرت
رکھتے تھے۔ ان کی شاعری کے تیور شروع سے ہی بتا تے تھے کہ یہ فنکار آگے جاکر بڑی باتوں کا اظہار کر کے فکر کے نئے گوشے دریافت
کریں گے چنانچہ وقت آ گیا برصغیر ہند و پاک میں صرف ایک ہی آواز اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی۔ اس آواز کی باز گشت
کافی دور سے سنائی دینے لگی اور جلد ہی سارے اردو داں طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اقبال کے معاصرین بھیء یہ آواز سن
کر متاثر ہونے لگے۔ جدید اردو شاعری پر بھی اس آواز کے واضح اور گہرے اثرات مرتسم ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے“
انہوں نے مزید کہا کہ
” بیسویں صدی کے اوایل سے جب اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اس زمانے میں اردو شاعری میں کئی اہم شخصیات موجود تھیں جنہوں
نے اپنی حثییت منوائی تھی۔ اقبال کی شاعری کا آہنگ شروع سے ہی مختلف قسم کا تھا۔ جس نے بہت جلد اپنے منفرد انداز اور آہنگ سے پورے عہد
کو متاثر کیا۔ اقبال کے معاصرین اور ان کے بعد آنے والی نسل کی خاصی تعداد ایسی ملتی ہے جن میں بیشتر لوگوں نے اقبال کے فکر اور ان کے فلسفے
کا اثر قبول کیا۔ جس کا پورا جائزہ میں نے اپنی کتاب میں لینے کی کوشش کی “
بہر حال اس کتاب کو میں نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے
۱۔ اقبال کی فکر ۲۔ اقبال کا فن ۳۔ اقبال کے فکر و فن کے اثرات کا جائزہ ۴۔ معاصرین اقبال پر کلام اقبال کے اثرات ۵۔ شعرائے مابعد پر کلام اقبال کے اثرات ۔ یہاں پر میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے اس کتاب کا ایک نسخہ علامہ اقبال کے لخت جگر جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی خدمت میں ارسال کیا۔ مجھے دلی خوشی ہو رہی ہے کہ انہوں نے نہ صرف کتاب کی رسید مرحمت فرما کر میری حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ اپنے ذرین خیالات سے بھی مجھے نوازا۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ چنانچہ وہ میرے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں؛۔
” آپ کی کتاب کے بارے میں میں نے یہی لکھا تھا کہ یہ ایک نیا پہلو ہے جسے آپ نے لکھا ہے پہلے اس طرف کسی کی توجہ نہیں رہی۔
یہی نقطہ نظر جگن ناتھ آزاد کا ہے اور جو کچھ انہوں نے لکھا میں نے اس کی تائید کی ہے“ خیر اندیش جاوید اقبال
اس کتاب کے بارے میں پروفیسر آل احمد سرور صاحب فرماتے ہیں.۔ مجھے اس بات سے دلی مسرت ہو رہی ہے کہ سبھاش چندر ایمہ (پریمی رومانی) نے میری نگرانی میں جدید اردو شاعری اور اقبال کے موضوع پر قابل قدر اور معیاری کام کیا ہے۔ وہ ایک محنتی اور ہونہار اسکالر ہیں۔ اس تحقیقی کام کی تکمیل پر میں انہیں مبارکباد باد پیش کرتا ہوں
پروفیسر گوپی چند نارنگ فرماتے ہیں؛، آپ کی کتاب اقبال اور جدید اردو شاعری موصول ہو ئی دیکھ کر خوشی ہو ئی۔ یہ بہت ہی مشکل موضوع ہے لیکن آپ نے اس کا حق ادا کرنے کی پوری پوری سیع کی ہے۔ اور آپ سے اسی کی توقع تھی۔ آپ نے اپنے والد کی علمی روایت کو زندہ رکھا ہے جس کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں
دوستو مجھے فخر ہے کہ میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کا طالب علم رہا ہوں اور مجھے پروفیسر آل احمد سرورصاحب کے قدموں میں بیٹھ کر فیض حاصل کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ ان دنوں اقبال انسٹی ٹیوٹ ایک ثمر بار انسٹی ٹیوٹ تھا جہاں سرور صاحب کے ساتھ ساتھ پروفیسر مسعود حسین خان، پروفیسر کبیر احمد جائسی،پروفیسر محمد امین اندرابی اور چیف لابریرین عبداللہ خاور صاحبان بھی کام کرتے تھے اور یہ سب لوگ انسٹی ٹیوٹ کی ترقی و بقا کے لئے سرگرم عمل تھے۔ سرور صاحب کے عہدہ سنبھالنے کے بعد اقبال انسٹی ٹیوٹ کے وقار میں اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے سیی میناروں کے ساتھ ساتھ لائبریری کو فعال بنانے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ جہاں دنیا بھر سے اقبالیات کے موضوع پر چھپنے والی کتابیں منگوائی جاتی تھیں جن سے اسکالوں کے علاوہ شہر کے دور دراز علاقو ں سے استفادہ کرنے کے لئے عا شقان اقبال تشریف لاتے تھے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ سے منسلک بہت ساری یادیں میرے دل کے نہاں خانوں میں نقش ہیں جن کا ذکر کسی اور وقت کیا جائے گا ۔ بہر حال مجھے دلی مسرت ہو رہی ہے کہ موجودہ دور میں بھی اقبال انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی کی سربراہی میں اُس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال بنانے میں سرگرم عمل ہے۔ دوستو اس وقت علامہ اقبال کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خون جگر کے بغیر
(بشکریہ فوٹو؛۔پروفیسر الطاف انجم، جناب اشرف عادل، ڈاکٹر توصیف احمد ڈار)