جی این کے اردو
حمدیں نعتیں اور مناجاتیں وہی شعراء لکھ پاتے ہیں جن پر اللہ کی خاص رحمتیں ہوتی ہیں۔مولاناعبدالرب صاحب ندوی چیف قاضی بھٹکل
میرا خیال ہے کہ حمدوں کے توسط سے بچوں کے دلوں میں حب الہی پیدا کرنا بھی نیکی ہے۔ ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
آج بہ روز منگل ۸۱/اکتوبر ۲۲۰۲ء کو احاطہ گلشن زبیدہ شکاری پور میں ایک شاندار اجرائی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس مجلس میں مولانا عبدالرّب صاحب ندوی چیف قاضی و استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل، مولانا اسامہ صاحب ندوی، مولانا بشیر صاحب، ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی، مولانا اظہر ندوی کے علاوہ بہت سارے علمائے کرام اور ادب دوست حضرات نے شرکت کی۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے بہ نفس نفیس مجلس کو رونق بخشی اور پروگرام کے اخیر تک موجود رہے۔
آج بہ روز منگل ۸۱/اکتوبر ۲۲۰۲ء کو احاطہ گلشن زبیدہ شکاری پور میں ایک شاندار اجرائی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس مجلس میں مولانا عبدالرّب صاحب ندوی چیف قاضی و استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل، مولانا اسامہ صاحب ندوی، مولانا بشیر صاحب، ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی، مولانا اظہر ندوی کے علاوہ بہت سارے علمائے کرام اور ادب دوست حضرات نے شرکت کی۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے بہ نفس نفیس مجلس کو رونق بخشی اور پروگرام کے اخیر تک موجود رہے۔
اس مجلس کا باضابطہ آغاز قرأت کلام پاک سے ہوا۔ قرأت مولاناعرفان قاسمی نے کی۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے مولانا اظہر ندوی نے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی ادبی خدمات کا اختصار سے تعارف پیش کیا۔ بعد ازاں مولاناعبدالرب صاحب ندوی چیف قاضی بھٹکل نے حافظؔ کرناٹکی کے حمدیہ مجموعہ ”اللہ الصمد“ کا اجرا کیا۔ اور اپنی اجرائی تقریر میں صاحب کتاب کی دینی حمیت اور بچوں کو اللہ کی وحدانیت سے آگاہ کرنے کی سعی مشکور کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑی اہم بات ہے کہ آپ نہایت آسان اور سہل زبان میں بچوں کے لیے اللہ سے محبت اور ایمان و عقیدے کی پختگی کا سامان حمد کی صورت میں پیش کررہے ہیں۔سچ یہ ہے کہ حمدیں نعتیں اور مناجاتیں وہی شعراء لکھ پاتے ہیں جن پر اللہ کی خاص رحمتیں ہوتی ہیں۔اللہ آپ کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور دوسروں کو اس نیکی میں شرکت کی توفیق عطا کرے۔
ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے کہا کہ دراصل مذہب اور ادب کا بہت گہرا اور قدیم رشتہ ہے۔ قرآن کریم اپنی فصاحت وبلاغت معنوی تہہ داری، تمثیل و استعارات اور تشبیہات و کنایات اور ہر طرح کی ادبی خوبیوں سے مزین ایسی اعلیٰ ترین دینی و ادبی کتاب ہے جس کی مثال تاقیامت پیش نہیں کی جاسکے گی۔ اور چوں کہ حافظؔ کرناٹکی حافظ، اور عالم ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادیب بھی ہیں اس لیے ان کے لیے حمدیں کہنا آسان ہوگیا ہے۔ نعتیں شریعت کے دائرے میں رہتی ہیں۔ مناجاتیں طریقت کے دائرے میں آتی ہیں۔ اور حمدیں حقیقت کی غماز ہوتی ہیں۔ چوں کہ حقیقت اور الوہیت کے اسرار تک پہونچ بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے لوگ حمدیں زیادہ نہیں کہہ پاتے ہیں۔ اور حافظؔ کرناٹکی حمدیں کہنے میں اس لیے کامیاب ہوئے ہیں کہ انہیں شریعت، طریقت اور حقیقت تینوں کا علم ہے۔
مولانا اسامہ صاحب ندوی استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل نے کہا کہ حافظؔ کرناٹکی صاحب کو اللہ نے ایسا ذہن دیا ہے اور ایمان و عقیدے کی ایسی پاکیزہ دولت سے نوازا ہے کہ اس کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس لیے انہوں نے اللہ کی وحدانیت کا چراغ اپنے حمدوں کے توسط سے ملّت کے نونہالوں کے دلوں میں جلانے کی کامیاب کوشش کی ہے جو ہر طرح لائق تعریف ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کی حمدوں کی زبان، اس کی سادگی اور اس کی برجستگی کی بھی تعریفیں کی۔ اور ان کی ادبی خدمات کو سراہا۔ اور کہا کہ اللہ کرے ادب کے توسط سے قلب مومن کو منور کرنے کا یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جائے۔
ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں جو نعتیں، حمدیں اور مناجاتیں لکھ پاتا ہوں اسے اللہ کا کرم اور اس کی رحمتوں کا فیضان سمجھتاہوں۔ اللہ اگر توفیق نہ دے تو یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ مدحت رسول کریم ؐ اور تحمید و تمجید خداوندی کی جرأت کرسکے۔ شعر موزوں کرنا اور کرلینا اور بات ہے اور حمدیں اور نعتیں کہنا بہت ہی خاص بات ہے۔ اللہ جسے توفیق عطا کردیتا ہے وہی اس نعمت سے بہرہ ور ہوتاہے۔ حمدوں کی توسط سے بچوں کے دلوں میں حب الہی پیدا کرنا بھی نیکی ہے۔یہ میری خوش بختی ہے کہ مولاناعبدالرب صاحبندوی کے ہاتھوں میری اس کتاب کا اجراء عمل میں آیا۔کتاب بہت پہلے شائع ہو چکی تھی اور اس کی کئی حمدیں صدا بند ہوکر الیکٹرونک میڈیا پر ساری دینا میں مقبول ہوچکی ہیں۔اللہ کو جن کے ہاتھوں اس کتاب کا اجرا منظور تھا وہ شخصیت آج یہاں تشریف لائی اور کتاب کا اجرا عمل میں آیا۔انہوں نے کہا کہ میرے لئے یہ بات بھی مسرت کا باعث ہے کہ میری حمدوں کے دوسرے مجموعے اللہ جمیل کا اجرا شہر بھٹکل کے جید علمائے کرام کے ہاتھوں جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ہوا تھا۔اس کے بعد ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے سارے علمائے کرام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ بھی مشیت خداوندی ہے کہ آپ حضرات گرامی یہاں تشریف لائے اور پھر اللہ نے ہمیں یہ توفیق عطا کی کہ آپ کے ہاتھوں سے اس حمدیہ مجموعہ کا اجرا ہوا۔ پردہئ غیب سے کب کیا ظہور میں آئے گا یہ بات صرف وہی ذات والا صفات جانتی ہے۔ انہوں نے شاعری کی فنی نزاکتوں کا بھی ذکر کیا۔ اور حاضرین میں موجود علمائے کرام اور ائمہ کی حاضری کو بھی اس مجلس کے لیے باعث برکت بتایا۔ یہ مختصر مگر جامع مجلس مولانا بشیر احمد صاحب ندوی کی دعاکے ساتھ اختتام کو پہونچی۔