جی این کے اردو
18/اگست 2022
از قلم : خواجہ کوثر حیات، اورنگ آباد(دکن) بھارت
Email:kauserhayat.deccan@bilal-ahmad
بھارت کی جنگ آزادی میں خواتین کا حصہ
غلامی سے آزادی تک کا سفر ہم بھارتیوں کے لئے ناقابل فراموش ہے۔ ایک طویل عرصے تک انگریزوں نے بھارتیوں پربے دریغ ظلم و ستم کئے ۔ سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا ، ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دئیے گئے ۔ جن میں بے گناہ اور معصوم شامل تھے ۔
انگریزوں کو بھارت میں اگر کسی سے خطرہ تھا تو وہ مسلمانوں سے تھا۔ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی حکومت انگریزوں نے چھینی تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں ان سے نفرت بھری ہوئی تھی۔ اس لئے انگریزوں نے خصوصاً مسلمانوں کو سب سے زیادہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا ۔ مسلمانوں کے ہنر، تجارت کو تباہ و تاراج کیا اور ساتھ ہی مسلمان اور ہندوؤں کو آپس میں لڑانے کی سازش کرتے رہے ۔ ان ظلم و جبر کے سبب انہیں ذہنی ، جسمانی ،نظریاتی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا ۔ قید و پند، تشدد ، حقوق کی پامالی ، عزت نفس و وقار زندگی کو کچلے جانے اور روایات ، تہذیب و تمدن غرض ہر چھوٹے و بڑے حق سے دستبردار ہونا پڑا ۔ یہ ایک طویل تاریخی باب ہے جو نسلیں کبھی بھلا نہیں سکیں گی ۔ دوچار نہیں بلکہ دیڑھ سو سالوں کے لامتناہی جبر و بربریت سے بھارتی عوام نبرد آزما رہی ۔
اپنے ہی ہاتھوں سے سر اپنا کٹانا ہے ہمیں
مادر ہند پہ یہ بھیٹ چڑھانا ہے ہمیں
مثل پروانہ کے رکھتے نہیں کچھ بال و پر
اک فقط جان ہے وہ تجھ پر مٹانا ہے ہمیں
کس طرح مرتے ہیں احرار وطن بھارت پر
یہ تماشہ ہے جو دنیاکو دکھلانا ہے ہمیں
اگست 1858ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعہ ایسٹ انڈیاکمپنی کا خاتمہ کرکے بھارت کو مکمل طور پر تاج برطانیہ کے سپرد کردیا ۔اور پھر شروع ہوئی تحریک آزادی ۔ آزادی کا ذکر آتے ہی ہم بے اختیار اپنے قد آور مجاہدین کو یاد کرنا نہیں بھولتے ۔ جن میں قابل ذکر نام ہیں بھارت کی جنگ آزادی کا پہلا مجاہد آزادی ’ٹیپو سلطان‘ جو 1780ء سے انگریزوں سے نبرد آزما رہے ۔ بہادر شاہ ظفر ،لوک مانیہ بال گنگا دھر تلک سے لے کر مہاتماگاندھی ، پنڈت نہرو، ابوالکلام آزاد، سبھاش چند ربوس ساتھ ہی چاند بی بی ،رانی لکشمی بائی ،سروجنی نائیڈو کو بھی ہم یاد کرتے ہیں ۔ اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں ۔
ہم نے آزادی کو چند مخصوص اور چنندہ ناموں تک محدود کر رکھا ہے ۔ بے شک کسی تحریک کے لئے کامیاب نمائندگی کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر ہم اس نمائندگی کو محور و مرکز بنانے والی ان چھوٹی چھوٹی طاقتوں کو فراموش نہیں کرسکتے جو تیِلیوں کا کام کرکے جوالہ تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔
ملک کی آزادی کا کوئی بھی باب خواتین کی قربانیوں سے خالی نہیں ہے ۔ وہ کبھی حوصلہ بن کر ،کبھی طاقت بن کر اور کبھی تحریک بن کر متحرک رہیں اور مجاہدین کے حوصلے بلند کرتی رہیں۔خواتین نہ حق سے دستبردار ہوتیں اور نہ ہی فرض سے ۔ امور خانہ داری سرانجام دینے والی خواتین ضرورت پڑنے پر اپنی تنظیمی صلاحیتوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر میدان جنگ میں بھی لڑیں۔کئی کئی مرتبہ جیل بھی گئیں ۔تلوار اور قلم کی دھار اور کاٹ کو بوقت ضرورت استعمال کیا اور خوب کیا ۔
بیگم زینت محل ، بیگم حضرت محل ،ارونا آصف علی ،سروجنی نائیڈو، اینی بیسنٹ، ڈاکٹر لکشمی سہگل،بھیکاجی کاما، رما دیوی چودھری کے علاوہ ایسی خواتین کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتی ہوں جن کے جنگ آزادی کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اس میں بی اماں، محمد علی اور شوکت علی کی والدہ کا کردار بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔
1922ء میں خلافت کا خاتمہ کردیاگیا۔ تحریک بھی سرد پڑ گئی ۔ لیکن اس نے عوامی اتحاد و سیاسی بیداری کی جو فضاء قائم کی اس نے کاروان آزادی کو ایک نئی جہت عطا کی ۔ خلافت کی یہی تحریک ہے جس نے قوم کو بیداری عطا کی ۔ خواتین کا سیاسی شعور اور قومی سیاسی زندگی میں ان کی شرکت جرأت مندانہ اقدام تھا۔بی اماں براہ راست گاندھی جی و کانگریس کے دیگر رہنمائوں کے خیالات و نظریات کے زیر اثر قومی محاذ آرائی میں شامل ہوئیں۔
انڈین نیشنل کانگریس کے ہمہ جہت مقاصد، ہندومسلم اتحاد ، عدم تشدد، دیہی ترقی ، تعلیم بالغان، ہریجنوں کی فلاح و بہبودکے تعمیری منصوبے ، عوامی رابطہ، منصوبے جیسی کاموں سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہیں ۔وہ کھل کر عوامی جلسوں میں شریک ہوئیں ، ولایتی کپڑوں اور شراب کی دکانوں پر دھرنا دیا ان کی اکثریت قید و بند کی صعوبتوں کی تلخ چاشنی سے بھی نامانوس نہیں ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا واحد مقصد آزاد بھارت کا خواب تھا۔
’’کاروان حریت کے مسافروں نے اپنے اس میر کارواں کو ’ام الاحرار‘ کے خطاب سے نوازا لیکن پیار میں اپنے پوتوں اور پوتیوں کی ’بی اماں‘ بن گئیں۔ ‘‘
مولانا محمد علی جوہر کے نومبر 1924ء کے کامریڈ میں شائع شدہ مضامین بہ عنوان ’ماں کی یاد‘ سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ مسٹرایس ایس سیتا مورتی نے بی اماں کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ’’ اب میں ایک بات اور کہہ کر اپنی تقریر ختم کردوں گا ۔ ہندو شاستروںمیں لکھاہے کہ قومیں دولت اورر وپے پیسے سے سربلند اور سرتاج نہیں ہوتیں بلکہ اپنی قربانیوں سے وہ قربانی جوحق و صداقت کے لئے ہو ۔ نظر بند علی برادران نے قربانی دی اورملک نہ صرف ان کے سامنے خراج وفاداری اور اطاعت پیش کرتا ہے بلکہ وہ ان کی والدہ کے سامنے بھی سرنیازخم کرتا ہے ۔ ‘‘ (بحوالہ اخبار جمہور کلکتہ ۔8؍جنوری 1918ء)
30؍دسمبر1917ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو کلکتہ میں ہی منعقد ہوا ۔ بی اماں کی طرف سے ایک پیام بنام مسلمانان ہند محترم قاضی عبدالغفار نے پڑھا ۔ جس کے ولولہ انگیز الفاظ نے مسلمانوں کی سیاسی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ دہلی کے ایک صاحب کے بیان کے مطابق بی اماں کے پیغام عمل کا ایک ایک لفظ تیر و نشتر کاکام دے رہا تھا اور جس نے اجلاس لیگ کو مجلس ماتم بنادیا ۔ (بحوالہ سیرت محمد علی ، رئیس احمد جعفری ۔ صفحہ 260)
حبیبہ : ضلع مظفر نگر ، یوپی کے ایک گائوں میں1833ء میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا تعلق ایک مسلم گوجر خاندان سے تھا۔ برطانوی فوج کی مزاحمت کی پاداش میں گرفتار ہوئیں اور1857ء میں پھانسی کی سزا پائی ۔(P.49-lbid)
رحیمی : اس نوجوان خاتون کا تعلق ایک مسلم راجپوت خاندان سے تھا ۔ پیدائش و ڈسٹرکٹ مظفر نگر اتر پردیش کے ایک دیہات میں ہوئی ۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا ۔برطانوی فوجوںسے مزاحمت کی پاداش میں پھانسی کی سزا دی گئی ۔ اندازاً 255؍خواتین برطانوی افواج سے لڑتی ہوئی شہید ہوئیں اور 11؍نوجوان عورتوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ۔ (P118:lbid)
جھانسی کی گمنام شہید : سینٹرل انڈیا کے لئے گورنر جنرل کے ایجنٹ روبرٹ ہملٹن نے اپنی رپورٹ مورخہ 30؍اکتوبر 1858ء میں ایڈسن اسٹون سکریٹری گورنمنٹ آف انڈیا کو رانی لکشمی بائی کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’رانی لکشمی بائی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار تھی ۔ اس کے ساتھ اس موقع پر ایک دوسری مسلمان خاتون بھی جو عرصے سے اس خاندان سے وابستہ تھیں اور ہمیشہ رانی کی مصاحبت میں رہتی تھی ، سوار تھی، دونوں کو گولی لگی اور دونوں ہی ساتھ میں زمین پر گرگئیں۔
زلیخا بیگم (زوجہ مولانا ابوالکلام آزاد) : جو بڑی ہمت والی خاتون تھیں ۔معاشی پریشانیاں انہیں بہت اٹھانی پڑی ۔ مولانا جنگ آزادی کی جدوجہد میں مصروف رہتے تھے لیکن زلیخا بیگم نے ان کو کبھی پریشان نہیں کیا۔ 1924ء میں جب مولانا کو ایک سال کی سزا ہوئی تو انہوںنے مہاتماگاندھی کو خط لکھا کہ ’’میرے شوہر کو محض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے ۔ اگر ملک و قوم سے محبت کا نتیجہ میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائے گا ، یہ ان کی اہلیت کے لئے بہت کم ہے ۔ آج سے میںبنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی ۔‘‘ کیا خود اعتمادی اور بہادری تھی۔ حالانکہ اس وقت وہ صحت مند نہیں تھیں پھر بھی انہوں نے شوہر کی سزایابی کی خبر بہت ہمت سے سنی اور یہ طئے کیا کہ آزادی کی تحریک میں وہ عملی طور سے شامل ہوں گی ۔
امجدی بیگم (زوجہ مولانا محمد علی ) : ان کا تعلق رام پور کے ایک معروف خاندان سے تھا۔ وہ مولانا کی فلسفیانہ اور سیاسی اصولوںکی پیروکار تھیں اور مولانا کے ہر سفر ، عوامی جلسوں اور دیگر سرگرمیوں میں ساتھ ساتھ رہتی تھیں ۔ انہوں نے ’ستیہ گرہ ‘ اور ’خلافت فنڈ‘ کے لئے روپیے جمع کئے اور گاندھی جی کے سفری اخراجات ان ہی کے ذمہ تھا۔
زبیدہ دائودی : یہ مولانا شفیع دائودی کی بیگم تھیں ۔جنہوں نے انگریزوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں شامل ہوکر آزادی کی جنگ میں عملی طور پر حصہ لیا ۔ انہوں نے اپنے شوہر اور دوسرے رشتہ داروں سے انگریزی کپڑے اکٹھا کئے اور کانگریس دفتر میں اس کی ہولی جلائی ۔ در در جاکر انگریز ی کپڑے اکٹھا کرنے والوں کی یہ رہنما تھیں ۔ وہ آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے لئے، خواتین کو اپنے خیالات سے متاثر کرنے کے لئے تمام عوامی اجتماعیت منظم اجلاسوں میں شرکت کرتی تھیں ۔
عزیزن : ان کی پیدائش لکھنومیں 1823ء کو ہوئی تھی۔ سارنگی محل میں امرائو جان کے ساتھ رہتی تھیں ۔ 4؍جون 1857ء کو جب نانا صاحب نے ہندوو مسلمانوں سے انگریزوں کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دینے کے لئے کہا تو مسماۃ عزیزن نے بھی گھر چھوڑ دیا اور آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئیں اور انہوں نے خواتین کی ایک بٹالین کو منظم کیا ۔ وہ جنگ کے فن میں ماہر تھیں اور دوسری خواتین کو اسلحہ کے استعمال کرنے کی تعلیم دی۔ وہ پکڑی گئیں اور جنرل ہیلاک کے سامنے پیش کی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ اگر تم اپنا گناہ قبول کرلو تو تمہیںمعاف کردیا جائے گا ۔ انہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا اور شہادت کو ترجیح دی ۔
سعادت بانو کچلو : ڈاکٹر سیف الدین کچلوایک مجاہد آزادی تھے ، بیرسٹر ہونے کے ساتھ ساتھ کانگریس کے مسلم قومی رہنماتھے۔ وہ پنجاب کے پہلے کانگریس کے صدربنائے گئے تھے اس کے بعد 1942ء میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے ۔ محترمہ سعادت بانوکچلو انہی کی بیگم تھیں۔ان کو اردو اور فارسی میں مہارت حاصل تھی اور مجاہدوںکی ہمت افزائی کے لئے حب الوطنی کی نظمیں اور گیت تیار کیے گئے تھے ۔ یہ وہ دو ر تھا جب مسلمان عورت کو تحریری طور پر اپنی آرأ کااظہار کرنا مشکل تھا۔ جب کچلو صاحب گرفتارہوئے تو ان کے بیگم سعادت بانو نے کہا کہ ’’انہیں فخر ہے کہ ملک کی خدمت میں انہیں جیل کی سلاخیںملیں۔‘‘ وہ ’سول نافرمانی ‘کی تحریک میں سرگرم رہیں ۔ انہوں نے ’سوراج آشرم‘میں بھی خدمت انجام دیں جسے ڈاکٹر کچلونے قائم کیا تھا اس کی وہ چیئر پرسن بھی تھیں ۔
بیگم خورشید (بیگم عبدالمجید خواجہ ) : یہ محترمہ نواب حمید اللہ سر بلند جنگ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں اور اردو کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے خاندان سے تھیں ۔ وہ ایک سماجی اور سیاسی کارکن تھیں اور خواتین کی تعلیم کے سلسلہ میں بہت ہی کوشاں رہتی تھیں۔وہ نہرو خاندان سے بہت قریب تھیں خاص طور سے محترمہ سروجنی نائیڈو کی صاحبزادی پدمجانا ئیڈو ، حیدر آباد میں ان کی ہم جماعت تھیں۔ اسی طرح سے جواہر لعل کی بہن وجئے لکشمن پنڈت سے دوستانہ تعلقات تھے۔ گاندھی جی کی تحریک ’عدم تعاون‘ سے متاثر ہوئیں اور اس میں شامل ہوئیں ۔اتنا ہی نہیں اپنے ملبوسات کو ترک کرکے کھادی پہننا شروع کردیا اور قیمتی گہنوں کو تحریک آزادی کے حوالے کردیا۔
نشا ط النساء بیگم : نشاط النساء بیگم نے سودیشی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور علی گڑھ میں خلافت تحریک کو قائم کرنے میں مدد کی ۔ اس بات سے انکار نہیںکیاجاسکتاہے کہ بھارت کی آزادی کی جدوجہد میں سبھی فرقوں اور تمام ہی طبقوں نے گرم جوشی سے حصہ لیا ۔ جنگ آزادی کے لئے کی کئی گئی جدوجہد کا عرصہ سال دو سال کا نہیں تھا ۔ برسوں لگاتار اور مسلسل سختیاں، تکالیف، مصیبتیں اور ظلم و ستم کی چکی پِستے گزاریں۔ لیکن ان سب تکالیف کے باوجود مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی دوش بدوش معرکے انجام دیتی رہیں ۔ خصوصاً خواتین بڑی پامردی سے اپنے اپنے محاذوںپر ڈٹی رہیں ۔ امور خانہ داری ،خاندان کی ذمہ داری، بچوں کی تعلیم و تربیت ان خواتین نے تن تنہا انجام دیں اور نا صرف انجام دیں بلکہ بہترین طریقے سے انجام دیں ۔ان کے اس کارناموں کورہتی دنیاتک سراہا جاتا رہے گا ۔ ان کی قربانیاں تاریخ کے اوراق پر سنہرے حرفوں سے لکھی گئی ہیں۔تمام مجاہدین کے ساتھ ساتھ ان ہی جانباز خواتین کی قربانیوں کے طفیل ہمیں آزادی نصیب ہوئی ۔
ان خواتین کی عظمت کو سلام جن کو گمنامی کی دھول نے پوشیدہ کر رکھا ہے ۔مگر جن کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئی اور آج ہم آزاد ملک کے شہری ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ انہیں خراج تحسین ک لئے یہ اشعار صادق آتے ہیں ۔
ہماری آنکھ میں جو خواب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
یہاں جو گوہر نایاب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
وطن کی آن پر قربان کرتے ہیں دل و جان بھی
ہمارے پاس جو اسباب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
کہیں امید کی کرنیں دلوں میں روشنی کردیں
کئی جذبے بہت نایاب ہیں وہ سب وطن کے ہیں
٭٭٭٭٭