جی این کے اردو
15 / اگست 2022
آزادئ ہند میں سرفروش مسلمانوں کا کردار
بلال احمد پرے
ہاری پاری گام ترال
ہندوستان آج چھترواں یوم آزادی کی سالگرہ منا رہی ہیں – یہ آزادی ہمارے اسلاف کی ایک طویل جدوجہد کے بعد ہی حاصل ہوئی ہے ۔ یہ آزادی کی نعمت ہمارے اسلاف کی جان و مال کی قربانیوں کا نذرانہ، پھانسی کے پھندے کو خوشی سے گلے لگانا، تختہٴ دار پر چڑھنے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا اور میدان جنگ میں بے خوف و خطر کود پڑنے سے نصیب ہوئی ہے – اپنی جانوں کو قربان کرنے، غلامی کی زنجیروں کو توڑنے، ذہن و فکر میں پروان چڑھانے، ملک کو آزاد ماحول میں جینے کا سہرا جہاں ہندؤں کے عظیم رہنماؤں کے ہاں جاتا ہے وہی یہ آزادی مسلمانوں کے خون سے رنگ لائی ہے ۔ جنہوں نے اپنے وطنِ عزیز کی آزادی کو یقینی بنانے میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں – یہ مسلم قوم ہی تھی جس نے سب سے پہلے آزادی کا بِگل بجایا – اس بات کی گواہی آج بھی نئی دہلی کی انڈیا گیٹ دے رہی ہے جس پر آزادی کے ہزاروں پروانوں (%65) کے نام ضبط تحریر ہیں –
ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار صاف و شفاف، ایماندارانہ، بہت ہی اونچا، ممتاز و نمایاں ہے ۔ جس میں مسلمان مرد اور خواتین ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ رہیں ہے ۔ آزادئ ہند کی تاریخ، مسلمانوں کی بے نظیر اور بے لوث قربانیوں سے بھری پڑی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے – یہ اسی جدوجہد کا ثمرہ تھا کہ 15 آگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366 ہجری کو آزادی حاصل ہوئی ۔
جنگِ آزادی کے صف اول کے رہ نما نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان تھا ۔ جس نے سنہ 1754 ء میں انگریزوں کے مرکز فورٹ ولیم پر حملہ کرکے اپنی بہادری اور وطن کا سچا سپاہ سالار ہونے کا کُھلا ثبوت پیش کیا ہے – نواب سراج الدولہ کو انگریزوں نے سنہ 1764 ء میں اندرونی سازشوں کی وجہ سے بکسر کی جنگ میں ہرایا اور خود ملک پر قابض ہوئے ۔ پہلی جدوجہد آزادی حیدر علی اور ان کے فرزندِ ارجمند ٹیپو سلطان نے سنہ 1782 ء میں شروع کیں، جس کی ذکر کیے بغیر تحریکِ آزادی کی تاریخ ادھوری ہے ۔ آپ نے انگریزوں کے خلاف چار جنگیں کیں ۔ جس میں آپ ایک چٹان کی طرح انگریزوں کے خلاف میدانِ جنگ میں کھڑے رہے ہیں ۔ آپ نے اپنی بالغ نظری، غیر معمولی ذہانت، اولوالعزمی اور تجربہ کار جنگی صلاحیتوں کی بدولت ملک کے راجاؤں مہاراجاؤں اور نوابوں کے ساتھ خط و کتابت کر کے انگریزوں کے خلاف ایک منظم طاقت بنانے اور ان کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کی بے باک کوشش کی ہے –
بیگم حضرت محل پہلی جنگ آزادی کی وہ بہادر عورت تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا تھا اور 30 جون سنہ 1857ء کو چن پاٹ کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا ۔ مولانا فیض احمد بدایونی نے آگرہ میں انقلابی عوام اور فوج کی کمان سنبھال لی – آپ بیگم حضرت محل اور مولانا احمد اللہ شاہ کے ساتھ انگریزوں کے خلاف تمام معرکوں میں شامل رہے ۔ مولوی علاء الدین کی قیادت میں حیدر آباد دکن کے انقلابی عوام نے انگریز ریزیڈنسی پر حملہ کیا – مولانا خلیل علی گڑھ کے اس وقت کے مشہور امام و خطیب تھے جنہوں نے جنگ کا بِگل بجتے ہی کئی وفا شعاروں کے ساتھ آزادی کے تئیں میدان جنگ میں شرکت کیں ۔ اور انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے –
ہندوستان کی پہلی جنگِ عظیم کو منظم کرنے اور اس کی کامیاب قیادت کرنے والے مولانا احمد اللہ شاہ فیض آبادیؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ جیسی علمی شخصیات تھیں جنہوں نے وطنِ عزیز کے خاطر جنگِ آزادی میں ابتدا سے ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہیں – اسی طرح مولانا قاسم نانوتویؒ اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے ساتھ جنگ آزادی میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔ اور انہیں قید و بند کی مصیبت بھی جھیلنی پڑی ۔ مولانا فضل حق خیر آبادی اور مولوی لیاقت علی پر مقدمہ چلایا گیا، انہیں کالے پانی کی سزا ہوئی اور وہی انتقال کرگئے ہیں ۔ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے کیرانہ، مظفر نگر میں انگریزی فوجیوں سے مقابلہ آرائی کی –
شاہ عبد العزیزؒ محدث دہلوی نے سنہ 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا اور ظلم و ستم کے باوجود بھی اپنا سر نہیں جھکایا – اسی طرح میدانِ جنگ کے بہادر نوجوان سید احمد شہیدؒ رائے بریلوی بھی آزادئ ہند کے سرگرم سپوت تھے ۔ ان کے بعد مولانا نصیر الدین دہلوی، مولانا ولایت علی و عنایت علی عظیم آبادی نے اس تحریک کو خوب سینچا ۔ اتنا ہی نہیں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے ملک کی آزادی کے لئے سلاخوں کے پیچھے درد ناک سزاؤں کو برداشت کیا ۔ اور انگریزوں کے خلاف ہمیشہ سے اپنی آواز بلند کرتے رہیں ہے – اسی طرح مولوی عبد القادر لدھیانوی نے اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگِ آزادئ ہندمیں بھر پور حصّہ لیا – ملک کے بہادر سپوت اشفاق اللہ خان نے انگریزوں کو للکارتے ہوئے بسمل عظیم آبادی کی یہ غزل گائی
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازؤئے قاتل میں ہے
اس غزل نے انگریزوں کے خلاف وہ کام کیا جس سے کئیں توپے نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کے گانے پر آپ کو برطانوی راج کے خلاف سازش رچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بالآخر 27 سال کی عمر کے اس بہادر نوجوان کو پھانسی دی گئی ۔ اس طرح وہ انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھائے جانے والے پہلے مسلم مجاہدِ آزادی بن گئے ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بڑی مضبوط اور شدت کے ساتھ لڑائی لڑی ۔ ان کی وہی لڑائی سنہ 1857ء کی غدر کا باعث بنی –
شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کی گرفتاری کا سبب تحریک ریشمی رومال پر راز دارانہ خطوط ہی بن گئی ۔ جس سے آپ کے جنگِ آزادی کے عظیم ترین منصوبے پر پانی پھیر دیا گیا – اور اس سے انگریزوں نے بالآخر جزیرہ مالٹا جلا وطن کیا – مولانا احمد اللہ عظیم آبادیؒ، مولانا یحییٰ علیؒ، مولانا عبدالرحیم صادق پوریؒ، مولانا فضل حق خیر آبادیؒ جیسے اکابر جید علماء کو انڈومان جیل بھیج دیا گیا اور وہیں ان کا انتقال بھی ہوا ۔ جن میں صرف مولانا عبدالرحیمؒ صادق پوری نے 18 سال کی قید بامشقت کے بعد سنہ 1883ء میں رہائی پائی ۔ اسی طرح بدرالدین طیب جی اور رحمت اللہ سیانی نے انڈین نیشنل کانگریس کو جنگ آزاری ہند کے خاطر مضبوط بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہیں ۔
انڈین نیشنل آرمی کے آزاد لائبریری ریڈنگ پروپگنڈہ کے سربراہ ایم اے ایم امیر حمزہ نے آزاد ہند فوج (INA) کے لئے لاکھوں روپئے بطور عطیہ پیش کئے، تاکہ اس منصوبے کو منزل مقصود تک پہنچایا جائے ۔ اسی طرح میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی وہ شخصیت ہے جس نے اپنی ساری دولت اور اثاثے شری سبھاش چندر بوس کی تیار کردہ انڈین نیشنل آرمی کو بطور عطیہ پیش کر دی تھی ۔ بی اماں نامی ایک مسلم خاتون نے جدوجہد آزادی کے لئے 30 لاکھ روپئے سے زائد گرانقدر رقم عطیہ پیش کیا تھا ۔ جو اس بات کی خوب عکاسی کرتی ہے کہ مسلم خواتین ملک کی آزادی کے لئے کس قدر جوش و جذبہ اور شوق رکھتی تھیں ۔
شاہنواز خاں نہ صرف ایک سپاہی اور سیاست داں تھے بلکہ انڈین نیشنل آرمی میں چیف آفیسر اور کمانڈر تھے ۔ جس نے جنگِ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا – مولانا یحیٰ علی، مولانا جعفر علی اور مولانا شفیع کو انگریز عدالت نے جب پھانسی کا حکم سنایا تو ساتھ میں اُن سب سرگرم کارکنان کی جائداد بھی ضبط کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا تھا – اِس حکم نامے پر افسوس کرنے کے بجائے اُن تینوں بہادر مسلمان سپوتوں نے اس وقت کے جج کے اُس حکم نامے کو مسکراتے قبول کیا اور اس سے اپنے لئے خوش قسمتی اور فخر سمجھ لیا کہ انہیں وطن کے خاطر اپنی جان قربان کرنے کا موقع نصیب ہوا ہیں ۔ میاں نذیر حسین محدیث دہلوی بھی انگریزی مقدمات کے لپیٹ میں آئے اور راولپنڈی کے جیل خانے میں ظلم و ستم سہتے ہوئے ایک سال تک نظر بند رکھے گئے – صحافت کے میدان میں قلمی تحریک سے مولانا ابوالکلام آزاد نے رسالہ ”الہلال“ اور ”البلاغ “ کے ذریعہ پورے ملک میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کی جلا بخشی اور اس کی خاطر مولانا کو بار بار جیل کا سامنا کرنا پڑا –
اگر اس وقت ‘ہر گھر ترنگا’ مہم کے پیچھے جھانک کر دیکھیں تو ہمیں آندھرا پردیش کی ڈیزائنر ثُریا طیب جی کی زہانت نظر آتی ہے جس نے اپنے ملک ہندوستان کو ترنگا کا نمونہ تیار کر کے دے دیا – یہی وجہ ہے کہ آج یہ ترنگا بڑی آن، بان اور شان سے لہرایا جاتا ہے ۔ اسی طرح ترانہء ہند “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کے قلم سے لکھا گیا ایک نایاب تحفہ ہے – جس سے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ جنگ آزادی کی لڑائی چند لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ملک کو آزاد ہوائوں میں سانس لینے، تعمیر و ترقی کے اعلٰی مقام تک پہنچانے کے لئے بے شمار لوگوں نے اپنی قیمتی جانیں قربان کیں ہیں جن کا ہم نام و مقام، ذات و سکونت اور مذہب تک نہیں جانتے ہیں ۔ یہ آزادی انہیں پروانوں اور وفا شعاروں کا نتیجہ تھی جنہوں نے جنگ آزادی کے وقت اپنا خون بہا کر حُبُ الوطنی کا جذبہ پیش کیا –
یاد رکھے گی تاریخ جب رقم ہوگی گلشن کی
اُن پروانوں نے جلایا وطن کے لئےآشیانہ اپنا
الغرض ملکِ ہند کی آزادی کے خاطر نہ صرف علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے اپنی قربانیاں دی ہیں بلکہ بے شمار عام مسلمان مردوں اور خواتین نے بھی اپنا گرم لہو بہایا ہے ۔ یہ آزادی ان لاکھوں عزم و استقلال رکھنے والے سرفروشوں کے نام منعون کرتی ہیں جن کے نام نامی تاریخ کے صفحات پر درج نہیں لیکن ان کے خون کی سُرخی ہندوستان کی کثیر لسانی، رنگا رنگی تہذیب، ثقافت اور یک جہتی کو سُرخ رو کر چکی ہیں ۔ جو آج بھی محببین وطن کو امن، محبت، بھائی چارگی اور اتحاد و اتفاق کی دعوت دے رہی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کسی ماں نے اپنے بچے کو یہ نہیں سکھایا کہ مذہب، ذات، پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر برادران وطن سے بھید بھاؤ کرنا ۔ ہمیں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تمام سرفروش مسلمان مرد و خواتین کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہئے ۔ ہمیں اُن کے جانوں کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور آپس میں پیار و محبت، بھائی چارگی اور امن و سکون کو بڑھاوا دے کر ایسی فِضاں پیدا کرنی چاہئے جس سے ملک کا نام روشن ہو جائیں –
(بشکریہ ہفتہ روزہ رھبر، سرینگر ۱۵ تا ۲۰ اگست، ۲۰۲۲)