غیر درجہ بند

سناٹے کی گونج کا اظہاریہ از احمد رشید، علی گڑھ

جی این کے اردو

5/ اگست 2022

سنّاٹے کی گونج کا اظہاریہ

احمد رشید، علی گڑھ

تخلیق اورغیرتخلیق کی زبان کا بنیادی فرق یہ ہے کہ تخلیق کے اظہار میں اخفا ہو۔اگر تخلیق میں اظہار سے زیادہ اخفا نہیں ہوگا تو اس کی تفہیمی امکانات ختم ہوجائیں گے اور تخلیق تادیرزندہ نہیں رہ سکتی۔ جیسے سبزی کا عرصہ عمر کم ہوتا ہے اس کی شادابی اور تازگی بہت جلد ماند پڑجاتی ہے۔ تخلیق کو زندہ رکھنے میں اختصار و جامعیت، رمز و ایجاز اور تلمیحات و اساطیر، بیان کی وہ خوبیاں ہیں جو تخلیق کو بقا و ہمیشگی عطا کرتی ہے۔
شاعری بھی جذبہ و احساس کے تخلیقی اظہار کا وسیلہ ہے اور شاعر بھی اپنے بیانیہ کو بامعنی بنانے کے لئے اساطیر و علائم کا سہارا لیتا ہے۔ سرِدست”سناٹے کی پرچھائیں“ عادل رضا منصوری کی غزلیات اور منظومات کا خوبصورت اور زیب و زینت سے مزین مجموعہ ایک جھماکاروشنی کا لے گیا آنکھیں میری لیکن شعور و ادراک اور انکشافِ ذات کا ایک سودا عطا کرگیا۔
عادل رضا منصوری اُن شاعروں میں ہیں جنھوں نے فلسفہ، منطق یا کسی مقصد کی اشاعت کو ترسیل و ابلاغ کا ذریعہ نہیں بنایا۔ان کی شاعری عصری مسائل سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا اظہار ہے۔ جبلتِ انسانی کے مخفی گوشوں اور نفسیاتی موشگافیوں کو زبان ولسان سے مطابقت قائم کرتے ہوئے شعری کائنات کو سجایا ہے۔ انھوں نے شعری اظہار میں معنی کی گہرائی اور گیرائی کے علی الرغم وسعت اور کشادگی کے نقوش ابھارنے کی سعی کی ہے جو انھیں اپنے عصر میں محترم بناتی ہے۔
ان کی شاعری میں کیفیت اور احساس کوزیادہ اہمیت حاصل ہے۔خصوصی طور سے غزل تو احساس کو چٹکی میں لینے کا فن ہے اور فن کی یہ باریک بینی ان کی منظومات میں بھی منعکس ہے۔اس سلسلے میں شین کاف نظام نے بڑی اہم بات کہی ہے کہ”شاعری میں کیفیت کی اہمیت قول سے زیادہ ہوتی ہے۔“ یہ نثری تخلیق اور شعری بیانیہ کے فرق کو بھی واضح کرتی ہے۔اگر قول میں کیفیتِ اسرار مستتر ہو اور اس کا اظہار کسی حد تک شاعری میں ہوجائے تو یہ شعری اظہار کی معراج ہے۔عصری شاعری میں عادل رضا منصوری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں کیفیت سازی نمایاں طور سے نظر آتی ہے۔
آئنہ ہے بھٹک بھی سکتا ہے
مان لی بات عکس کی میں نے

داستاں جب تری کہی مَیں نے
ابتدا روشنی سے کی مَیں نے

شام ساحل پہ گم صم بیٹھی ہوئی
اور دریا پہ سونا بکھرتا ہوا

ساتھ ہی میں ٹوٹ کر بکھریں گے ہم
وہ صدا ہے اور مَیں آہنگ ہوں

دمکنے لگتے ہیں آنکھوں میں کچھ چراغ بدن
یہ کیسا سوز تری یاد کی نوا میں ہے

شعر نمبر(۱) کے مصرعۂ اولیٰ میں سوالیہ نشان قائم ہوتاہے۔مصرعۂ ثانی میں ’عکس‘ کی یہ بات مان لینا کہ آئینہ بھی بھٹک سکتا ہے کا جواب معنی خیز ہے۔یہاں عکس کے خوبصورت ہونے کا راز اخفا ہے اس لیے ’آئینہ‘ کا بھٹکنا کی ترکیب ترفع ہونے کی دلیل معلوم ہوتی ہے۔
شعرِ دوم میں شاعر تری داستان کی ابتدا روشنی سے کرتاہے۔یہ شعر جذبہ کی سچائی کا مظہرہے۔خلوص اور سنجیدگی کی تمثال بن کر دل و دماغ کو رنگ و نور سے مزین کرتاہے۔
شعرِ سوم میں’شام‘کا ساحل پہ گم صم بیٹھنے کا راز دریا پہ سونا بکھرنے کی وجہ بن جاتاہے۔یہاں دن کے زوال پذیر ہونے کی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے، صرف ’شام‘ کے ساحل پر گم صم بیٹھنے کے اخفائے راز کا انکشاف ہوتاہے۔شام کے اُداس منظرکوزوال آمادہ دن کی کربناکی کو شعری حسن کے ساتھ بیان کیاہے۔
شعرِ چہارم میں’صدا‘ اور ’آہنگ‘ کے امتزاج سے ہی ایک سحر انگیز منظرنامہ تشکیل پاتا ہے اور یہ جادوئی کیفیت تب ہی ٹوٹ کر بکھرے گی جب ’وہ‘ اور’میں‘ کے رشتہ میں ہم آہنگی ختم ہوگی۔
شعرِ پنجم انسانی نفسیات کے ایک نازک مسئلہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کیسا سوز تری یاد کی نوا میں ہے کہ دمکنے لگتے ہیں آنکھوں میں کچھ چراغ بدن۔گویا چراغ بدن سے رشتہ منقطع ہونے کے بعدیاد کی نوا، سوز بن کر بے چین کرتی ہے۔”یہ کیسا سوز تری یاد کی نوا“ کی ترکیب۔”چراغ بدن“ جو آنکھوں میں محفوظ ہیں ان کا دمکنا ایک ایسا پُرسوز منظر ہے جو سحر انگیز بھی ہے اور اثر انگیز بھی۔
تخلیقی زبان میں پُراسراریت نہ ہو تو تخلیق اپنے عصر کو بھی نہیں سمیٹ پاتی بلکہ آگے تک جانے سے پہلے اس کا سانس پھول جاتاہے۔مگر بہت آگے جانے کی یہ صلاحیت اور قوت عادل رضا منصوری غزل ہی میں نہیں ان کی نظمیہ شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔
(۱)
’انتظار‘
میرا ہی حصّہ ہیں
خواہشیں اور خواب —جنھیں
نگل چکا ہوں
میں

کیا کبھی
آئے گا کوئی
چیرکر
کرنے —-انھیں آزاد
خدا ہونے!

(۲)
’جی بھر جانے پر‘

میں مردہ تن
جانے کب سے پڑا ہوں
سڑک کے کنارے
نہیں کام کا کچھ
اس کے لےے بھی
جسے لحم مرغوب ہے آدمی کا

”سناٹے کی پرچھائیں“ میں بیشتر نظمیں مثلاً’لباس‘، ’انتظار مو ت کا ‘، ’اپنے ہونے کا دُکھ‘، ’سوکا ہوا جنگل‘، ’صرف ایک بوند چاہیے ‘، ’آباد کھنڈر‘، ’پتے کا غم‘، ’سیریز‘، خواہش‘ (۱)، (۲)، (۳)، (۴)، ’پھول توڑلینے کے بعد‘ موجود ہیں۔ جن میں انسان بے چین اور بے سکون نظر آتا ہے اپنی تہذیبی اقدار کے ٹوٹنے اور انسانی عظمتوں کو بکھرتے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔جدید دور میں خواہشوں اور خوابوں کا مقید ہونا انسان کا مقدر ہوگیاہے۔انھیں آزادا کرانے کے لیے وہ انتظار کا آزار جھیل رہا ہے۔ وہ بے چینی سے منتظر ہے کہ ان کو رہا کرانے کے لیے کوئی بصورت انسان یا خداخود آئے گا۔ یہاں لگتا ہے انسان کی تمام کوششیں سعئ رائیگاں ہوگئی ہوں۔ بہرحال اس کیفیت اور حالات سے آج کا انسان دوچار ہے، چاہے وہ کسی بھی طبقہ یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو۔
ان کی نظمیہ شاعری میں انسان کی بے حرمتی، مایوسی اور انسانی وتہذیبی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ جو مغربی اعلان ٹیکنالوجی ،مشینی معاشرت کی دین ہے۔مسئلہ مشینی اور الیکٹرانک زندگی کا نہیں اس کی آمد سے جو فطری نظام متاثر ہوا ہے اور مشرقی تہذیب کے بگاڑ اور زوال کا ہے۔دراصل اس کے غلط استعمال سے رشتوں کی عظمتوںکا زیاں ہوا اور انسانی تہذیب زوال پذیر ہوئی۔محبتیں، اخلاص، شرافتیں، وضع داریاں مٹ جانے سے مشرق کا قد گھٹا اور وقار مجروح ہوا ہے۔انسانیت کے مقابل ٹکنالوجی اور مشین کو فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔مشرق معصوم کلکاریاں، قدرتی مناظر،فطرت کی خوبصورتی،جمالیاتی کیفیتیں اور تہذیبی و سماجی رکھ رکھاؤ سے محروم ہوگیاہے۔
قول میں کیفیت پیدا کرنے کی مثال دیکھئے جن میں حقیقی مشاہدہ کی روشنی نظر آتی ہے

آسماں ہاتھ ہی نہیں آتا
بارہا جست تو بھری میں نے

پاؤں پتوں پہ دھیرے سے دھرتا ہُوا
وہ گزر جائے گا یوں ہی ڈرتا ہُوا

میں کرشمہ ہوں کہ ہوں دھوکا کوئی
جو بھی ہوں پانی پہ بہتا سنگ ہوں

میں جس یقین کی رسّی پہ رقص کرتا ہوں
اپنے گمان کے ہاتھوں تھام رکھا ہے

عام طور پر اساطیر اور تلمیحات کا استعمال جو غزلیات کا مرغوب موضوع رہاہے، شعرا کا طرۂ امتیاز رہاہے اس کے بے جا استعمال سے پیچیدگی ہوتی ہی ہے،شاعری
لطیف احساس اور شعریت بھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے لیکن عادل رضا منصوری نہ صرف اس سے واقف ہیں بلکہ اس کی تخلیقی پیشکش سے شاعری میں حسن اور کیفیت کا احساس پیدا کرتے ہیںوہ بھی اس طرح کہ اساطیر دائرۂ نگاہ میں نہیں آتی بلکہ چشم بینا کو وا کرنے کے بعد قاری کو دکھائی دے گی۔چونکہ وہ جانتے ہیں کہ روایت، اساطیر، علامت ہماری تہذیبی ورثہ، ثقافتی ڈھانچہ میں اس طرح پیوست ہے کہ ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کی جڑیں کتنی گہری ہیں

کوئی انگلی پہ تھا پربت اُٹھائے
کوئی سب کچھ بہانا چاہتا ہے

اگر کسی پہ کبھی معنی سفر کھلتا
ابد کے بعد کی دنیا کا اس پہ ڈر کھلتا

کوئی چپ ہو گیا ہے تیر کھا کر
کوئی تیروں پہ لیٹا بولتا تھا

کسی کے واسطے میں شرک جیسا
کسی کے واسطے میں دیوتا تھا

جنوں کے حوصلوں کو لوگ شاید بھول بیٹھے ہیں
پہاڑوں سے وہی تو دودھ کا دریا اُٹھا لایا

اسی طرح نظم ’میراماضی میراحال‘ جو روایت، تلمیح اور اساطیر بظاہر نہ ہوتے ہوئے صرف رمز وکنایہ کے ذریعہ انسانی روایت سے روشناس کراتی ہے

دھرتی ناپی
ایک قدم سے
سورج نگلا
ایک عصا سے
دریا چیرا
اور مردوں کو جیون بخشا
سنتے سنتے
اس کی صدائیں
لیکن یہ کل کی باتیں ہیں
اب تو میں
پیدا ہوتے ہی
مرجاتا ہوں

دھرتی ایک قدم سے ناپنا،سورج کو نگلنا،ایک عصا سے دریا چیرنا اور مردوںکو جیون بخشنا۔یہ اگر ہمارا ماضی ہے تو مشترکہ تہذیبی نظام بھی ہے جس کا شاعر نے رمز وکنایہ اور لفظ ومعنی کے ذریعہ اظہار کیاہے۔اسی طرح اور بھی نظمیں، زمانہ پہلے،وراتیا دوش،ترنوک گُہا، اردھ ناریشوروغیرہ جن میں اساطیر کی وساطت سے موضوع و متن کا فنی اظہار ہواہے۔

تخلیقی ادب میں تہذیب و ثقافت کا داخل ہوناکوئی بیرونی شرط نہیں لیکن لاشعوری طور سے تخلیقی پروسیس ہیں۔اس کا عمل زیریں لہر کی طرح چلتا رہتاہے اسی لیے تخلیق کی تفسیر و تفہیم کی جستجو کے لیے زبانی و لفظی اظہار سے زیادہ اس کے ساختیاتی نظام پر غور و فکر لازمی ہے۔ زبان کے بتدریج ارتقائی مراحل میں شکست و ریخت کا مسئلہ بھی سماجی و معاشرتی تغیر پذیری کی دین ہوتاہے جو جدید دور کے انسان کو مشین اور آلات کی بولیوں کو سیکھنے کی تلقین کرتاہے۔اب زبان کی اقداری تہذیب بدل رہی ہے اور یہ سب فرد کا ادب سے رشتہ ٹوٹنے اور مادیت پسند ہونے کا نتیجہ ہے۔
عادل رضا منصوری ایک باشعور فنکار ہیں جنھوں نے بدلتے ہوئے معاشرے کی بدلتی ہوئی زبان کو تخلیقی پیرایہ میں ڈھال کریہ ثابت کیاہے کہ زبان کا مزاج کوئی ہو لیکن اس میں تخلیقی امکانات پیدا کرنے کے لیے صریح اظہار سے زیادہ اسرار و رموز مستتر رکھنے کی قوت ہونی چاہیے

تمھارے بعد کوئی راستہ نہیں ملتا
تو طے ہوا کہ اُداسی کے گھر میں رہنا ہے

عشق گلی میں جانا کیا
جانا تو پھر آنا کیا

ایک مقفل خواب کھلا تو یہ جانا
خواب کے اندر خواب کا رستہ کھلتاہے

مجھ کو تیرے بدن سے کیا نسبت
میں تو اپنے بدن میں رہتا ہوں

عادل رضا منصوری کی غزلیہ شاعری میں جو روایت شکنی ملتی ہے وہ ان کی نامانوس لفظیات کا جھرمٹ اور زندگی کے تعلق سے ان کے نجی تجربات کی وجہ سے ہے۔ ان کا تخلیقی شعور کسی پابندی کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ ذہن اور وجدان کو آزاد چھوڑدیتے ہیں۔ اسی لیے غزل کے باطنی نظام میں جابجا کچھ کھانچے سے دکھائی پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کچھ چھوٹ سا گیاہے۔غزل کی روایت رہی ہے کہ شعر کے مصرعۂ اولیٰ میں شاعر سوال بناتاہے اور ثانی میں دلیل و جواز پیش کرتا ہے۔یہاں اگر سامع/قاری ان خالی جگہوں کو پُرکرلے تو معنی کی ایک دنیا چمکتی ہوئی دکھائی دے گی۔یہی صورت ان کی نظمیہ شاعری میں نظر آتی ہے۔شافع قدوائی اپنے مضمون ’خاموشی کو سپنا بنانے کاتخلیقی بیانیہ‘ میں رقم طراز ہیں:
”اردو کے جواں سال شاعر عادل رضا منصوری نے بیانیہ اور خاموشی کے پیچیدہ رشتے کا ایک ایسا حسّی رویا خلق کیا ہے جہاں سکوت ایک کائنات گیر تجربے کے طور پر حواس پر وارد ہوتا ہے۔ شاعر کے نزدیک سناٹا ہر شے کو محیط بھی ہے اور اس سے منزہ بھی۔ یہ ہمیشہ موجود رہتا ہے اور اس خلا کو بھی پُر کرتا ہے جس سے اس کا وجود صورت پذیر ہوتا ہے۔ عادل رضا منصوری کا شعری مجموعہ ”سناٹے کی پرچھائیں” خاموشی سے وابستہ ان تمام کیفیات اور رویوں کو شعری تجربے کے طور پر پیش کرتا ہے جو محض سکوت کے باعث منصہ شہود پر آتے ہیں۔“(سناٹے کی پرچھائی، ص ۵۲)
عادل رضا منصوری کی نظم وغزل میں اسرار ورمز ہی نہیں بلکہ حیرت و استعجاب میں ڈالنے والی دنیا آباد ہے۔اسی لیے ”سناٹے کی پرچھائیں“ کی قرأت احتیاط و توجہ کا مطالبہ کرتی ہے۔

احمد رشید

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ