غیر درجہ بند

ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور اخلاقی پہلو: تحریر محمد عادل خان

جی این کے اردو

ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور اخلاقی پہلو


تحریر :محمد عادل خان

(متعلم BUMS،جامعہ ہمدرد نئی دہلی )


ملٹی لیول مارکیٹنگ/ڈیجیٹل مارکیٹنگ/چین مارکیٹنگ، مارکیٹنگ کی ایک قسم ہے، جس کے ذریعہ کم وقت میں بہت سا پیسہ کمایا جاسکتا ہے، عام طور سے مارکیٹنگ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی کمپنی/برانڈ اپنے سامان کو فروخت کرنے کے لئے رسمی طریقوں کو اپناتی ہے، اور سامان مینیجر، ہول سیلر، ڈسٹری بیوٹر اور رٹیلر سے ہوتے ہوئے کسٹمر تک پہنچتا ہے، اس میں ہوتا یہ ہے کہ کمپنی سامان پر ۱۰ روپے لکھتی ہے لیکن اپنے بعد والے کو ۲/۳ روپے کا دیتی ہے، پھر وہ اپنے بعد والے کو ایک دو روپے منافع لے کر دیتا ہے، اس طرح رٹیلر سے کسٹمر تک پہنچنے پر سامان ۱۰ روپے تک کا ہوجاتا ہے، اور اس طریقہ میں پرچار/ایڈورٹائز کا خرچ بھی آتا ہے. اس طریقہ کار میں بزنس شروع کرنے میں پیسے زیادہ لگتے ہیں.
بالکل یہی حال نیٹورک مارکیٹنگ کا ہوتا ہے، بس اس میں بزنس شروع کرتے ہوئے پیسے کم لگتے ہیں، طریقہ کار کا فرق ہوتا ہے، کمپنی اپنے کسٹمر کو بزنس پارٹنر بناتی ہے، اور اس میں بھی لیول ہوتے ہیں، مثلا مینیجر، اسسٹنٹ مینیجر، سوپروائزر، اسسٹنٹ سوپر وائزر وغیرہ، ایک لیول سے دوسرے لیول تک پہنچنے کے لئے متعینہ مدت میں متعین کردہ مقدار میں بزنس کرانا ضروری ہوتا ہے، مثلا پہلا لیول اسسٹنٹ سوپر وائزر کا ہوتا ہے، اگر وہ دو مہینے کے اندر ۳/۴ لاکھ کا بزنس کرادے تو اس کا لیول بڑھ جاتا ہے، اور وہ سوپر وائزر بن جاتا ہے. اور اسی حساب سے کمپنی اس کو کمیشن دیتی ہے
اس نیٹورک مارکیٹنگ میں کرنا یہ ہوتا ہے کہ نئے نئے لوگوں/دوستوں کو بزنس پارٹنر بنانا ہوتا ہے، یعنی ان کو بزنس کے بارے میں بتانا ہوتا ہے، اور پھر ٹریننگ دیکر پہلے ان کو کسٹمر بنانا ہوتا ہے Rپھر ان کو اپنا کام سکھا کر نئے لوگوں کو بزنس پارٹنر بنوانا ہوتا ہے. یعنی سرے سے مارکیٹنگ ہوتی ہی نہیں ہے. بلکہ بزنس ٹریننگ کے نام پر اسی شخص کو کسٹمر بنانا ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ جسے آپ ٹریننگ دیتے ہیں وہی آپ کا کسٹمر بنتا ہے اور اسی کے کسٹمر بننے کی صورت میں آپ کو کمیشن ملتا ہے،  ہاں اس کے ساتھ آپ سامان کو رٹیل بھی کر سکتے ہیں. لیکن…….
نیٹورک مارکیٹنگ کے عہدے :کسی عہدے تک پہنچنے کے لئے ایک متعینہ مدت میں متعین تعداد میں بزنس پارٹنر/کسٹمر بنانے ہوتے ہیں، چونکہ اسے پیشے میں رٹیلنگ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی لہذا بزنس پارٹنر ہی کو کسٹمر بنانا ہوتا ہے.مثال کے طور پر، جب آدمی کسٹمر/بزنس پارٹنر بن جاتا ہے تو اس کا عہدہ اسسٹنٹ سوپر وائزر کا ہوتا ہے.
 اگر وہ دو ماہ کے اندر اپنے نیچے ۱۲ کسٹمر /بزنس پارٹنر بنا لیتا ہے چاہے وہ کسٹمر بلا واسطہ اس سے متعلق ہوں یا اس کے ماتحت کسی دوسرے بزنس پارٹنر کے ذریعہ، تو وہ سوپر وائزر بن جاتا ہے
 اگر وہ دو ماہ کے اندر اپنے نیچے ۲۵ کسٹمر/بزنس پارٹنر بنا لیتا ہے چاہے وہ کسٹمر بلا واسطہ اس سے متعلق ہوں یا اس کے ماتحت کسی دوسرے بزنس پارٹنر کے ذریعہ، تو وہ اسسٹنٹ مینیجر بن جاتا ہے
 اگر وہ دو ماہ کے اندر اپنے نیچے ۷۰ کسٹمر/بزنس پارٹنر بنا لیتا ہے چاہے وہ کسٹمر بلا واسطہ اس سے متعلق ہوں یا اس کے ماتحت کسی دوسرے بزنس پارٹنر کے ذریعہ، تو وہ مینیجر بن جاتا ہے،اسی طرح متعینہ وقت میں متعین تعداد حاصل کرنے پر عہدے بڑھتے رہتے ہیں، شروع میں دو تین لیول کو حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے بعد چونکہ ماتحتوں کی ٹیم بن جاتی ہے اس لئے آسانیاں ہوجاتی ہیں.
کمیشن کی مقدار: سب سے زیادہ کمیشن اس وقت ملتا ہے جب کوئی شخص آپ کے ہی تحت کسٹمر/بزنس پارٹر بنتا ہے، یعنی ۲۵-۳۰ فیصد تک
 اس کے بعد آپ کے ماتحت کے تحت کسٹمر بننے پر آپ کو اس میں سے بھی کمیشن ملتا ہے، لیکن اس کی مقدار کم ہوتی ہے
یعنی ترتیب وار گھٹتا رہتا ہے، لیکن اگر آپ کا عہدہ زیادہ ہوتا ہے تو direct customer بنانے کی صورت میں کمیشن کی مقدار ۳۰ فیصد سے بڑھ جاتا ہے
گویا کہ کمپنی کمائے ہوئے پیسوں میں سے ۵۰-۷۰ فیصد تک صرف کمیشن دیتی ہے
نوٹ: اس میں نہ تو کوئی ہول سیلر ہوتا ہے، اور نہ کوئی ڈسٹری بیوٹر، اور نہ ہی پرچار/ایڈورٹائز کا خرچ، بلکہ کمپنی کے بزنس پارٹنر ہی اپنے فائدے کے حصول کے لئے ایڈورٹائز کا کام انجام دیتے ہیں، گویا کمپنی لاکھوں کروڑوں روپے اس طریقے سے بچا لیتی ہے.
نوٹ ۲: اس پیشے میں انسان کے رغبت کی سب سے بڑی چیز یہ ہوتی ہے کہ اسے passive income کی حرص ہوجاتی ہے، پیسیو انکم یہ ہے کہ آپ کام کریں نہ کریں، آپ کے ماتحت کام کرتے رہیں اور ان کے کاموں کے بدلے بھی آپ کو کمیشن ملتا رہے، اس کے مقابلے میں active income ہوتا ہے، یعنی آپ اپنی محنت سے پیسے کماتے ہیں.
کچھ ضروری باتیں:کسٹمر بنانا اور اس پر کمپنی سے کمیشن لینا جواز کے درجے میں آتا ہے، لیکن ہر جائز چیز اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہوتی، مثلا طلاق جائز ہے لیکن ابغض الحلال ہے
 جب آپ کسی کو کسٹمر بنانا چاہتے ہیں تو آپ اس سے یہ نہیں کہتے کہ آپ کو کسٹمر بننا پڑے گا، بلکہ آپ اس سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو پیسے کمانا سکھائینگے
 جب آپ اس شخص کو کسٹمر بنانا چاہتے ہیں تو اس کے سامنے اس طریقے سے باتیں بناتے ، فوائد شمار کراتے اور کام کرنے والوں کی کامیابی، ان کے پیسوں اور گاڑیوں کی ویڈیوز دکھاتے ہیں کہ وہ شخص اونچے اونچے خواب دیکھنے لگتا ہے، اگر وہ خواب نہ بھی دیکھے تو کم سے کم پاکیٹ خرچ کے متعلق سوچ لیتا ہے، (گویا کہ ایک طریقے سے آپ اس کی ذہن سازی کرتے ہیں اور ہپناٹائز کرتے ہیں تاکہ وہ آپ کے ساتھ کام کرلے)
آپ شروعات سے کام کی نوعیت نہیں بتاتے، یہاں تک کہ جب وہ ویڈیوز اور چکنی باتوں سے متاثر ہوکر کام کرنے کا پختہ ارادہ کرلیتا ہے، تب بھی نہیں بتاتے، اور ٹالتے رہتے ہیں
آپ اس شخص سے کہتے ہیں کہ کسی قسم کی کوئی لاگت/انویسٹمینٹ نہیں ہے، نہ کوئی فیس ہے، بس آپ کو کچھ سامان لیکر استعمال کرنا ہوگا یا بیچنا ہوگا، یہاں تک کہ جب وہ پختہ ارادہ کرلیتا ہے تو آپ اس سے کہتے ہیں کہ رجسٹریشن اور کام کرنے کے لئے کچھ پیسے لگینگے، جس کے بدلے سامان ملے گا، اور تب آپ بتاتے ہیں کہ سامان آپ کو ۲۵-۳۰ ہزار کا لینا ہوگا
 اس سسٹم سے جڑنے والوں کی اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو معتدل، معتدل سے کمتر اور غریب گھرانوں کے ہوتے ہیں،  جب ان کو معلوم چلتا ہے کہ ۲۵-۳۰ ہزار کے سامان لینے ہونگے تو ان کی اکثریت قدم پیچھے کھیچنے لگتی ہے، لیکن چونکہ ان سے رابطہ کرنے والے ان کے دوست یا رشتے دار ہی ہوتے ہیں تو وہ ان سے کہتے ہیں کہ پیسے کا انتظام کرلو دو تین مہینوں میں واپس مل جائینگے، اور سامان نکل جائے گا، مزید چونکہ جڑنے والے لوگ شروع سے پختہ ارادہ کئے ہوئے ہوتے ہیں، یا اونچے اونچے خواب دیکھ چکے ہوتے ہیں اس لئے قرض وغیرہ لیکر اس مارکیٹنگ کی دنیا میں قدم رکھ لیتے ہیں
 اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب پیسے کے بدلے سامان ان کے پاس آتا ہے، وہ کوشش کرتے ہیں کہ سامان بک جائے… لیکن چونکہ ایسی کمپنیاں برانڈیڈ چیزیں بیچتی ہے، اور ان کی قیمت مارکیٹ میں موجود اشیاء سے تین گنی ہوتی ہے، اور معتدل یا غریب لوگوں کے تعلق میں اس حیثیت کے افراد نہیں ہوتے تو سامان بک نہیں پاتا
 جب سامان نہیں بکتا تب جاکر اسے ہوش آتا ہے کہ وہ کس بند گلی میں پھنس چکا ہے، (کچھ لوگوں کا رٹیل ہوجاتا ہے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے) پھر مجبورا اسے وہ برانڈیڈ سامان خود ہی استعمال کرنا پڑتا ہے! یعنی ایک ایسا شخص جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی برانڈ کا نام ہی سنا ہوتا ہے، کبھی اسے اتنی ہمت نہیں ہوئی ہوتی کہ کچھ برانڈیڈ خرید سکے وہ یکبارگی ۲۵-۳۰ ہزار کا برانڈیڈ سامان استعمال کر رہا ہوتا ہے۔
اگلا مرحلہ آتا ہے قرض کا، چونکہ وہ قرض لیکر اس سسٹم میں گھسا ہوتا ہے تو اسے قرض بھی اتارنا ہوتا ہے، لہذا وہ اپنے اوپر والے سے کام کے متعلق پوچھتا ہے، تو اسے ٹریننگ دی جاتی ہے کہ کیسے نئے لوگوں سے بات کرنی ہے، اور کس طرح بات کرکے انہیں کسٹمر/بزنس پارٹنر بنانا ہے گویا پھانسنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
 اب یہ مرحلہ سب سے بڑی آزمائش کا ہوتا ہے، اگر انسان کا ضمیر زندہ ہوتا ہے تو وہ پہلے ہی مرحلے میں انکار کردیتا ہے، کہ جہاں وہ پھنس چکا ہے وہاں وہ کسی اپنے کو نہیں لائے گا، اور کسی دوسرے طریقے سے قرض وغیرہ اتار دیتا ہے. لیکن اگر ضمیر کے اندر ذرا بھی کمزوری ہوتی ہے تو وہ اسی طریقے پر چل پڑتا ہے۔
کچھ لوگ اس وقت تک اس سسٹم کا حصہ بنتے ہیں جب تک ان کا پیسہ نہیں نکل جاتا۔
کچھ لوگ پیسہ نکالنے جاتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں کہ کمائی زیادہ ہورہی ہے تو اس گندے دھندے میں لت پت ہوجاتے ہیں، اور پھر ضمیر ٹہوکے لگانا بند کردیتا ہے،
وہ سوچتے بھی نہیں کہ جس بندے کو وہ کسٹمر/بزنس پارٹنر بنا رہے ہیں وہ پیسوں کا انتظام کہاں سے کر رہا ہے، اس کا آگے کیا بنے گا، ان کو صرف اپنی کمیشن سے مطلب ہوتا ہے۔
پیسہ بہت خطرناک چیز ہے، اگر کم محنت سے حاصل ہوتا ہے تو ضمیر کو بہت جلد مردہ کردیتا ہے۔
نوٹ: یوں تو دیکھا جائے تو یہ سسٹم اور اس سے حاصل ہونا والا فائدہ جائز ہے، لیکن فوائد کے حصول کا جو طریقہ ہے اس کے لئے جھوٹ، فریب، پروپیگنڈہ اور کسی اپنے کو نقصان پہونچانا شامل ہوتا ہے. لہذا اگر یہ طریقہ جائز بھی ہو تو ابغض الحلال یا مکروہ تحریمی کا درجہ رکھتا ہے. لیکن چونکہ اس پیشے سے متعلق لوگوں کو اس کی کت لگ جاتی ہے لہذا ان کو یہ موٹی موٹی باتیں سمجھ نہیں آتی ہیں، اور ان باتوں کی وہ خوبصورت تاویلات پیش کرتے ہیں.
نوٹ۲: اس سسٹم میں کمپنی کا بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے، برانڈیڈ چیزیں عام طریقے پر اس قدر نہیں بیچی جاسکتی ہیں، لیکن چونکہ لوگ نیٹ ورک مارکیٹنگ سے برانڈیڈ سامان کے بجائے پیسے کمانے/کمیشن کے نام پر جڑتے لہذا زیادہ سے زیادہ لوگ سامان خرید کر اس بزنس کا حصہ بنتے ہیں، پھر جس قدر لوگ جڑتے ہیں، کمپنی کے برانڈیڈ اور قیمتی سامان کی بکری اسی قدر زیادہ ہوتی ہے.
ہمارے کئی جاننے والے اس سسٹم کا حصہ ہیں، ہمارا ان کو برادرانہ اور مخلصانہ مشورہ ہے کہ ایک دفعہ ضمیر کی آواز سن کر غور و فکر کریں، استخارہ کریں، تمام پہلووں کا جائزہ لیں اور اللہ کے نام پر اس پیشے سے توبہ کرلیں، اور دیگر بھائیوں کو بھی اس میں ملوث ہونے سے بچائیں.
اور ہم خاص کر مدارس کے طلبہ سے درخواست کرینگے کہ اس سسٹم کا حصہ کبھی نہ بنیں، آپ کو مستقبل کا قائد و رہبر بننا ہے، اور رہبر فریبی لوگ نہیں بن سکتے، پیسہ ضروری ہے لیکن کسی کو فریب دیکر اور نقصان پہونچا کر پیسے کمانے والے کامیاب نہیں ہوسکتے.

آپ کا شکر گزار 

محمد عادل خان
متعلم، BUMS، جامعہ ہمدرد نئی دہلی

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ