افسانہ شناسی فکشن تنقید

معاصر اردو افسانے کا تجزیاتی و تقابلی مطالعہ (ولر اردو ادبی فورم کشمیر کے افسانہ ایونٹ 2022 کے حوالے سے) از ڈاکٹر عظیم الله ہاشمی

جی این کے اردو

2 / جولائی 2022

معاصر اردو افسانے کا تجزیاتی و تقابلی مطالعہ


( ولر اردو ادبی فورم کشمیر_ ایوںٹ 2022 کے حوالے سے )
مضمون نگار – ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی

صعبتوں کی آندھی جب تیز ہوتی ہے تب ادب کے چہرے پر نکھار آتاہے اور روح کی دریدہ صدائیں بلند ہوتی ہیں۔یہ مغموم صدائیں قوت پرواز رکھتی ہیں جو ایک عہد کو متاثرہی نہیں بلکہ کبھی کبھی روایت کی تہہ و بالگی کا سبب بھی بن جاتی ہیں اور زمانہ ایک نئی کروٹ لیتاہے ۔اس کروٹ سے زوال آمادہ سماجی ،معاشی،ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو آکسیجن مل جاتی ہے جس میں زندگی بسر کرنے والے افراد ناسٹلجیائی کیفیت سے باہر نکلتے ہیں اور زندگی کی بساط پر اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی واپسی کی بھرپورکوشش کرتے ہیں۔اس کار خیر میں قلم کاروں کی تخلیقات معاون ہوتی ہیں ۔چونکہ قلم زندگی کی امانت ہے اوراس پرایمان کی حد تک تیقن ہے کہ اس کے حسب ونسب کاجواب آخرت میں دینا ہوگا اس لیے اس کے پیش نظرقلم کاراس کی عظمت کو برقراررکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا ان کے سامنے یہ نشان واضح رہتا ہے کہ جب تک تخلیقات میں زندگی اور اس کے مسائل سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرات رندانہ کی کوشش نہیں ہوگی تب تک قلم کی آبرو وحرمت کو بحال نہیں رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی فن پارے کی قیمت واہمیت واضح ہوگی۔اس کار خیر کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے ممتاز افسانہ نگارطارق شبنم ،راجہ یوسف کی زیر سرپرستی اورایس معشوق(ایڈمن)،میڈیاپارٹنرآزادشکیل،(شہربین)،معراج الدین (ندائے کشمیر)،ڈاکٹر غلام نبی کار(نیا نظریہ)کی زیر نگرانی نیز پروفیسرڈاکٹرریاض توحیدی کاشمیری کی صدارت میں 15 مئی 2022 سے ۲۰جون ۲۰۲۲ تک ولرادبی فورم کا افسانہ ایونٹ ۲۰۲۲ منعقد ہواجس کا مقصداردو افسانے کا فروغ ہے۔اس ایونٹ میں نئے لکھنے والے اور سنیئر معتبرافسانہ نگاروں کے افسانے یکے بعددیگرے پیش ہوئے جس پر مبصرین اورقارئین حضرات نے دل کھول کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیااور بہت ہی موادب ماحول میں یہ ایونٹ اپنے خوشگوارلمحوں کی یادوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا۔

مورخہ۱۵مئی کی شام پانچ بجے ایونٹ کا پہلا افسانہ’’ ہجرکے فیصلے‘‘ کو پیش کیاگیا۔جس کا ایک ایک جملہ رومانیت کی چاشنی سے شرابور ہے لیکن جب اس کی مقصدیت پر نظر مرکوز ہوتی ہے تو ٹھہرکرکہنا پڑتاہے کہ جب داخلی کیفیات کی عکاسی میں خارجی مسائل کینوس کی زینت بنتے ہیں تو قاری اس کی حدت کو زیادہ محسوس کرتاہے ۔یہ حدت زندگی جینے کی راہ متعین کرنے میں معاون ہوتی ہے۔اس نظریے کے پیش نظریہ افسانہ رومانی فضا میں والدین کی قدر وقیمت کو اجاگر کرتاہے ۔بقول
شہناز فاطمہ :
’’اس پورے افسانے کے سب سے قیمتی گراں قدر الفاظ یہ ہیں۔
’’سلونا میرے ڈیڈ اور مم نے مجھے یہاں تک پہنچنے کے لیے ہی اتنی محنت و مشقت کرکے پڑھایا لکھایا۔۔!‘‘

جب سلونا نے کہا تھا کہ

’ ’کیا تم میرے لیے نوکری جوائیں کرنے کے فیصلے کو ٹال نہیں سکتے ہو؟‘‘

اس میں آج کے نوجوان کے لیے یہ پیغام پنہاں ہے کہ محبت میں’ ہجر کے فیصلے‘ ہوسکتے ہیں لیکن والدین کی خواہش نہیں ٹالی جاسکتی اس کی قدر اور احترام ذیادہ ضروری ہے اور محبت کی قربانی دے دی۔اس افسانے میں تشبیہات بھی بہت خو بصورت استعمال کی گئی ہیں۔جزئیات اور منظر کشی کا بھی مرقع ہے افسانہ۔!ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی صاحب نے ایک نیا پوائنٹ لایاہے افسانے میں۔ ہجر کے فیصلے عنوان بھی زبردست ہے ۔‘‘

آج ہم جس دور سے گذررہے ہیں اس میں بنی نوع متعدد مسائل سے نبردآزما ہے ۔نت نئے مسائل سے گھری انسانیت بے بسی کے ساتھ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔صرف دیکھ ہی نہیں رہی ے بلکہ اس کی تپش سے اس کی روح تک جھلس رہی ہے ۔ایسے ہی چند مسائل میں ایک مسائل کالج کی لڑکیوں کے ساتھ ہے جہاں استاد جیسے معتبر پیشے کے افراد پروفیسر کا چغہ پہنے اپنے طلبہ کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔یہ تعلیم یافتہ استحصالی طبقہ شرم و حیا کوبالاے طاق رکھتے ہوئے اپنے طلبہ و طالبات سے تعلیم کے مندر میں دلسوزحرکتیں کرتے ہیں ۔محمدارشد کسانہ کا افسانہ’’ منزل ابھی دور ہے‘‘مذکورہ مسائل کے محورپر گردش کرتاہے لیکن افسانے کا اختتام یہ سوال قاری کے ذہن وفکر میں چھوڑ جاتاہے کہ اس شیطان صفت پروفیسر کی وہ کون سی خوبی تھی کہ اس کو کالج کی دوسری لڑکی خداکا درجہ دے رکھی تھی۔؟المختصر اس افسانے کو پڑھ کر ایساہی لگاکہ شیطان صفت رکھنے والے انسان اندر سے منٹو کے افسانوں اور باہر سے الطاف حسین حالی کی مسدس حالی جیساہوتے ہیں۔!
’’پروفیسر کے ہاتھ اب عظمیٰ کی پیٹھ پر تیزی سے گھوم رہے تھے مگر وہ صدمے میں اس قدر ڈوب گئی تھی کہ اسے کچھ محسوس نہ ہورہا تھا۔البتہ اس کی آنکھوں سے آنسو ضرور بہہ رہے تھے۔پروفیسر کا ایک ہاتھ عظمی کی پیٹھ سے گذرتاہوا سرکے بالوں تک پہنچ گیا لیکن عظمیٰ کے ہاتھ لٹک رہے تھے۔’’ٹیبل پر آئو ٹیبل پر‘‘اچانک پروفیسر نے کہا۔یہ سن کر عظمیٰ کے پورے جسم میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔اس کے ہوش ٹھکانے پر آئے ۔پروفیسرجلدی سے کھڑا ہوااور کرسیاں ہٹاکر ٹیبل ٹھیک کرنے لگا۔اچانک عظمیٰ کے اندر پتہ نہیں کہاں سے بلا کی قوت پیدا ہوگئی اور وہ جھٹ سے اٹھ کر بھاگی اور دروازے سے باہر ہوگئی‘‘

واجدہ تبسم گور کی کا افسانہ ’’کسکول کی قیمت‘‘ معاشرے کی ایک ایسی حقیقت سے پردہ اٹھاتاہے جہاں کالج اور یونیورسٹی کے احاطے کا استحصالی طبقہ معاشرے کی گلیوں میں آیا ہے اور یہاں بھی اس کے اندر کا لکڑبگھا لڑکیوں کا جنسی استحصال کرتاہے فرق یہ ہے کہ ارشد کسانہ کے یہاںیہ طبقہ تعلیم کے مندر میں براجمان ہے جبکہ گورکی کے یہاں معاشرے کی گلیوں میں !،لیکن دونوں اپنی حیثیت کے مطابق نسائیت کا استحصال کرتے ہیں ۔اس اخلاق سوز حرکت کے دوران ارشد کسانہ کے یہاں یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ لڑکی اس کی مزاحمیت کرتی ہے جبکہ گورکی کے یہاں غربت کے سبب خودسپردگی اختیار کرتی ہے اور دو مہینے بعدالٹی کرکے کشکول کی قیمت چکاتی ہے۔ ان دوکرداروں کے تقابلی مطالعے سے یہ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ لڑکیوں کے اندر تعلیم کی روشنی اپنے استحصال کی مزاحمت اورغربت،جہالت اپنے عصمت کا سودا کرتی ہے۔اگر’’ ہجر کے فیصلے‘‘ کے نسائی کردار سے ان کا موازنہ کیا جائے تو وہاں ابھی محبت کی پاکیزگی سانس لے رہی ہے اور دروازے پر ابھی بھی محبت کی نشانی شیولی کا پودا سبزوشاداب ہے۔ یعنی سماج کے ایک طبقے کے اندر ابھی بھی احترام محبت باقی ہے۔’’کسکول کی قیمت‘‘ کی دل سوزی موضوع کی حساسیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
’ٹینٹ سے نکلی تو وہ میرا انتظار برابر کرتادکھائی دیا۔میںنے بھی ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا۔پھر اس کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرتے کرتے نکل پڑی، مگر آج وہ مجھے رکشے میں بیٹھا کر کسی نامعلوم جگہ پر لے گیا۔کھلایا،پلایا اور پھر نازیبا حرکتیں کرنے لگا۔۔۔۔۔۔اب میں نہ وہ بڑی بڑی عمارتیں دیکھنے کی تمنارکھتی ہوں اور نہ میرے اس خوشحال پیوند لگے ٹینٹ میں میرا جی لگتاہے کیونکہ میں میرے کشکول کی قیمت آج دو مہینے سے الٹیاں کر کے چکارہی ہوں”

ناہید نسیم کاا فسانہ’’خنجر‘‘ایک رومانی افسانہ ہے جس کا اسلوب سادہ بیانیہ ہے جس کا محورعشق ومحبت کے محورپر گھومتاہے۔آغاز سے آج تک محبت کا تلازمہ اردو ادب کا سب سے مرغوب موضوع رہا ہے جس میں دو آنکھیں ایک ساتھ ایک ہی سپنا دیکھتی ہیں نیز اس میں صرف اور صرف دل کی باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ عشق ومحبت کی کائنات میں دل ایک مندراور پیار اس کی پوجاہے۔اس دنیا میں پریت کی ڈوری دل سے جب الجھ جاتی ہے تو دل بے قابو ہوجاتا ہے اور جس کو من کا میت مل جاتاہے اس کی دنیا سورگ بن جاتی ہے ورنہ تاعمرملال ،کسک ،دردجدا ئی کا کرب سہنے پڑتاہے۔ زیرنظر افسانے کے مرکزی کرداروں کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔

اگر ہم اس بزم کا پہلا افسانہ’’ ہجر کے فیصلے ‘‘کے ساتھ اس افسانے کا تقابلی مطالعہ کریں تو یہ نتیجہ نکل کر سامنے آتاہے کہ’’ ہجر کے فیصلے ‘‘میں معشوقہ کے دل پر پریت کا جورنگ چڑھاہے اس پرعمرکے آخری پڑائوتک دوسرا رنگ غالب نہیں آیاہے جبکہ’’ خنجر‘‘ اور’’اورشاہ الدین مرگیا‘‘میں کیفیت الٹی ہے ۔’’ہجر کے فیصلے‘‘ میں معشوقہ عاشق کو ٹو ٹ کر چاہتی ہے جبکہ’’ خنجر‘‘اور ’’اورشاہ الدین مرگیا‘‘ میں عاشق معشوقہ کو ٹوٹ کرچاہتے ہیں۔ ’’ہجرکے فیصلے‘‘ میں معشوقہ تاعمر کنواری رہ جاتی ہے اور شیولی کا پودا دروازے پر لگا کرعاشق کے لیے منتظر رہتی ہے جب کہ’’ خنجر‘‘میں لڑکی ماں باپ کے فیصلے کے سامنے سپر ڈال دیتی ہے اور اپنا گھر بسالیتی ہے لیکن ’’اور شاہ الدین مرگیا ‘‘میں کمسن حسینہ بوڑھے عاشق کو چھوڑکر محبت کی نئی دنیا بسانے کا خواب دیکھنے لگتی ہے۔’’ہجر کے فیصلے‘‘ میں معشوقہ کا دل بہت حساس اور کومل ہے جبکہ’’ خنجر‘‘ میں لڑکی زیادہ حساس نہیں ہے ۔’’ہجر کے فیصلے‘‘ میں درد جدائی کا سبب مادیت اور والدین کے مرتبے کا خیال دونوں ہے جب کہ ’’ خنجر‘‘ میں والدین کا جبر ہے اور ’’اور شاہ الدین مرگیا ‘‘میں عمرکا تقاظہ ہے۔’’ہجر کے فیصلے‘‘ میں عاشق سخت دل ہے جبکہ’’ خنجر‘‘ میں لڑکے کے دل میں ابھی بھی تڑپ اور محبت کے لمس کی یاد یں تازہ ہیں۔ تینوں افسانوں میں دوہنسوں کا جوڑا بچھڑجاتاہے ۔ تینوں افسانے کی فضا رومانی ہے ۔صرف ’’ہجر کے فیصلے ‘‘ اور’’خنجر‘‘کے نسائی کردارمیں محبت کی ناکامی پر ملال شدید ہے۔ اس تقابلی مطالعے کے بعداس نکتے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ ’’ہجر کے فیصلے ‘‘ اور’’خنجر‘‘ کے کردار اس حقیقت پر متفق ہیں کہ:وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن اسے ایک خوبصورت موڑدے کر چھوڑنا اچھا۔

اسلم جمشید پوری کا قلم ایک معتبر قلم ہے۔معاصر اردو افسانہ نگاروں میں موصوف کا ایک مقام ہے۔ان کا افسانہ’’ غار والے‘‘سورہ کہف کا احاطہ کرتاہے جس کا پیغام یہ ہے کہ محافظ صرف اور صرف وحدلاشریک ہے جس پر ایمان رکھنا شرط اوّل ہے۔افسانے کا آخری متن ایک اسلامی تاریخی واقعے کو فکشن کا رنگ دے گیا ۔مایوس کن صورت حال میں یہ افسانہ قاری کے اندر صبر واستقلال کی شمع روشن کرتاہے۔افسانے کی فضا حالات سے بنردآزمائی کا سبق پڑھاتاہے جس کا اسلوب داستانی ہے ۔اس میں تجسس کی لہریںموجزن ہیں ۔ رودادِواقعہ میںحضور اکرم کی نبوت کا ہلکا ساتذکرہ بھی شامل ہے۔’’تم بتائو ہم کتنی دیر سوئے‘‘یہ جملہ بڑی معنی خیز ہے۔اس میں کئی صدیوں کے لیکھاجوکھا کوطلب کیا گیاہے۔افسانے میں ایک تاریخی واقعے کو حال سے جوڑنے کی کوشش ہوئی ہے اور یہ یقین دلایا گیا ہے کہ اس پرآشوب دور میں ان کی حفاظت کرنے ولاوہی ہے جس نے غاروالے نوجوانوں کی حفاظت کی تھی۔ مختصراًافسانے کی صدایہ ہے کہ عصرویسے ہی دور سے گذررہا ہے جس کا سامنا غار والے نوجوانوں نے کیا تھا۔لہذاغاروالوں کی نگہبانی جس نے کی وہی اس عصر میں بھی پل سراط پر چلنے والوں کانگہبان ہوگا لیکن اس پر ایمان رکھنا ہوگا کہ اللہ جب اپنے بندوں سے ناراض ہوتاہے تو ایک نشانی ضرورظاہر کرتاہے۔افسانے کو پڑھ کر مجھے ایسا لگاجیسے کہیں ایساتو نہیں کہ ہم غار والے کم اور نشانی والے زیادہ ہوگئے ہیں۔

!ڈاکٹر ذاکرفیضی کا افسانہ’’اسٹوری میں دم نہیں‘‘ معاصر میڈیا کی بدیانتی کی چغلی کھاتاہے۔ اس افسانے میں بھی جنس ہی محور ہے لیکن اس کا شکار لڑکی نہیں بلکہ نوعمر ۱۷سال کا لڑکا ہوتاہے۔اس طرح یہ افسانہ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتاہے کہ معاصر سماج میں صرف لڑکیوں کا ہی جنسی استحصال نہیں ہوتاہے بلکہ معصوم لڑکے بھی ایسے درندوں کے چنگل میں پھنستے ہیں یعنی جنسی درندگی معاشرے میں کرونا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔کہیں سنیما گھروں میں کہیںفٹ پات پر تو کہیں کالج ویونیورسٹی کے احاطے میں ۔ اس کریہہ فعل پرسے پردہ اٹھانے کا کام معاصر افسانے کررہے ہیں یعنی رواں صدی کی تیسری دہائی کے نصف اول میںاردو افسانہ اپنے عصر کا ترجمان ہے۔’’فلم چل رہی تھی۔پردے کے علاوہ تمام ہال میں اندھیراتھا۔بڑے بابو کا لڑکے کے ساتھ کھیل شروع ہوئے چندمنٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ دوسرے شکاریوں نے جال کس دیا۔نجانے کہاں سے اور کیسے دونوں ٹکٹ چیکرپرکٹ ہوگئے۔دونوں کی ٹارچ کی روشنی ٹھیک اپنے ٹارگیٹ پر تھی۔لڑکا اور بڑے بابو بوکھلا گئے۔زبان پر الفاظ نہ تھے۔صفائی دینے کا موقع نہ تھا۔‘‘کنیز باہو کا افسانہ’’ نم آنکھوں کے خواب‘‘ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جو اختتام تک آتے آتے قاری کونم دیدہ کردیتاہے کہ زمانہ اس ڈگر سے گذر رہاہے جہاں اپنے مفاد کے لیے پاکیزہ رشتے بھی داغ دار ہوجاتے ہیں۔افسانے کا اختتامی اقتباس ایک پیغام ہے دنیا والوں کے لیے کہ عورت اور مرد اپنے درمیان شیطان کو حائل نہ ہونے دیں ورنہ اس کے بہکا وے میں زندگی بربادی کے ڈگر پر چل پڑتی ہے یہ وہی شطان ہے جس نے حوااور آدم کو بہکا کر جنت بدر کروایا۔ افسانہ عہد حاضر میں موبائل کے ڈارک پہلو کو بھی خاموشی سے اجاگر کرتاہے کہ معاشرتی نظام میں اس کے جہاں فوائد ہیں وہیں نئی نسل کو تباہی کی راہ پر ڈھکیل دیا ہے کیونکہ شیطان صفت افراداس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ابتدائی آفرنیش سے شیطان ابن آدم کو گمراہ کیاہے اور آج تک یہ سلسہ جاری ہے اور جب تک دنیا رہے گی یہ اپنی شیطنیت سے باز نہیں آئے گا۔افسانہ قاری کو زمانہ شناسی کا سبق پڑھاتاہے لیکن افسانہ کچھ تبلیغی ہوگیا ہے اور افسانہ نگار خود افسانے میں کہیں کہیں داخل ہوجاتی ہیں جو کہ افسانے کی ایک بڑی کمزوری ہے۔

معاشرتی موضوع پر نیلو فر رفیع کا افسانہ’’ امیدوں کے چراغ‘‘ ایک ایسے درپیش مسائل سے پردہ اٹھانے کی جرات کرتاہے جہاں افراد خانہ مالی منفعت کے لیے اپنے گھر کی لڑکی کی شادی کرنے سے آنا کانی کرتے ہیں تاکہ اس کی کمائی سے ان کے اوارے نیارے ہوتے رہیں۔بھائی اور بھابھی کی مکاری مرکزی کردار روشن آرائی اور پروفیسر کاظم کے درمیان مہر کی خطررقم کی مانگ رکھ کر شادی روک دیتی ہے اور بارات واپس لوٹ جاتی ہے۔اس کے بعد روشن آرائی شاعری سے شغف بڑھاتی ہے اور ایک فرضی نام سے رسالوں میں چھپتی ہے اور ادب کی دنیا میں شہرت کی بلندی کو چھوتی ہے۔پھر اس کی ملاقات ایک مشاعرے میں پروفیسرکاظم سے ہوتی ہے اور دنوں کے دلوں میں امید کے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔یہ وہی کاظم صاحب ہیں جو سات سال قبل مہر کی خطیررقم چکانے سے انکارکرکے روشن آرائ کو دلہن بناکر چھوڑآئے تھے۔ افسانے میں تانیثی شعور کواجاگر کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ افسانے کی بنت میں ڈرامائی عنصر درآئے ہیں۔

اسی بزم میں ارشد کسانہ صاحب (منزل دورہے)کے یہاں پروفیسر کے رتبے کی جو دھجی اڑی تھی اس کا کچھ سنبھالا اس افسانے میں ملا ہے۔واجدہ تبسم گورکی کے یہاں خوابوں کے تعاقب میں زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ لٹ جاتاہے جبکہ نیلوفررفیع کے یہاں امیدوں کے چراغ روشن ہیں۔سلیم سرفراز رواں عصر کے ایک معتبر افسانہ نگار و کہنہ مشق شاعر ہیں۔موصوف کے دونوں صنفوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہوجاتاہے کہ ان کو کس خانے میں رکھا جائے ۔زیر نظر افسانہ’’ سگ گذیدہ ‘‘سماجی تلخیوں اور حقیقتوں کا عکاس ہے جس کی پنہائیوں میں معاشرتی زندگی کے کئی پہلو بہ یک وقت سمٹ آئے ہیں ۔افسانے کا متن عمدہ تخلیقی شعورکی مثال ہے۔افسانے کے بیانوی نظام میں منظرنگاری جب کردارکی نفسیاتی فضا کو ہموار کرتی ہے تو قاری کی جہاں اس سے دلچسپی بڑھتی ہے وہیں افسانے کی شعریات مستحکم ہوتی ہے ۔اس کے ست رنگی جلو میں معاشرے کی وہ عکاسی ہے جو قاری کے ذہن وفکر کو تا دیر سوچنے پر مجبورکرتی ہے۔

بقول عشرت ناہید:’افسانہ شروع ہوتاہے والدین کی بے اعتنائی سے کہ وہ ایک فاضل اولاد کے خواہش مند نہیں ہیں لیکن لاکھ کوشیشوں کے باوجود وہ دنیا میں آجاتی ہے۔ایسی اولاد ایک نفسیاتی کیس بن جاتی ہے۔پھر اس کردار کے ذریعے مقدس پیشے کے گھنونے روپ کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا سماج کا سیاسی منظر نامہ اور آج کی عورت کی بدلتی ہوئی تصویر کی رونمائی کروادی لیکن افسانے کا حسن یہ ہے کہ اتنے سارے پہلو کہیں بھی قاری کو الجھاتے نہیں ہیں۔‘‘

چودھری قاضی نثار کا افسانہ ’’آخری سہارا‘‘اولاد کی بے توجہی کے شکار والدین کی کہانی ہے جس میں درد کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں۔کسمپرسی کی زندگی جینے والے والدین آج بھی ہمارے معاشرے میں گھٹ گھٹ کر جی رہے ہیں اور ان کے خون پی کر جوان ہونے والی اولاد شاہانہ زندگی گذار رہی ہے۔اس ناقدری کا شکوہ ہر زمانے میں ہوا ہے لیکن جدید دور میں اس کی شدت بڑھ گئی ہے خصوصاً جب سے انسانی سماج نے اولڈ ایز ہوم کا تصور پیش کیا ہے۔دردِ دل اور درد ِغم کی بوجھل داستان سنانے کے دوران قواعد اور املے کی غلطیاں در آئی ہیں لیکن مفہوم کی ترسیل میں کوئی قباہت نہیں ہوتی ہے اور یہی افسانے کی چند خوبیوں میں سے ایک ہے۔ افسانے میں مقامی زبان کے چھینٹے پڑے ہیں۔ اس کے کینوس پراولاد نرینہ کی ناخلفی اور بیٹی کے لیے کسک سنائی دے رہی ہے جس کے اختتام پر استفہامی لب و لہجے سے ایسا لگتا ہے جیسے افسانہ نگار خودافسانے میں داخل ہوگیا ہے جو افسانے کا ایک کمزور پہلو ہے۔صوفیہ شیریں کا شمارنئی نسل کی خواتین افسانہ نگاروں کی صف میں ہوتاہے۔

افسانہ’’ سپھل یاترا‘‘ کا لوکیشن با مبے روڈ پر واقع ایک پارکنگ کا گرد ونواح ہے۔افسانہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہے کہ انسانی زندگی مختلف خواہشوں کا ملغبوبہ ہے۔بعض دفعہ روزانہ کی زندگی میںان کو پوراکرنے کے لیے سیکڑوں حیلے بہانے ،گھڑاگ پھیلائے جاتے ہیں جس کا مذہب اور عقیدے سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔صرف کمائی اس کا مقصد ہوتاہے ۔افسانے کے کینوس پرپارکنگ کے گردونواح میں مزار اور ہنومان مندرکے نام پر جو خرافات کیے جا رہے ہیں اس کا ایک ہی مقصد معاشیات ہے کیونکہ اسی کے محور پر زندگی گردش کرتی ہے۔جس عصر میں ہم سانس لے رہے ہیں اس میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے لیکن خواہشیں تو اپنی تکمیلیت چاہتی ہیں۔ ان خواہشوں کو آسودگی چا ہیے اور اس کے لیے پیسہ !!۔لہذاسماج کا ایک طبقہ مذہب کی آڑمیں اسی پیسے کے لیے لوگوں کے مذہبی ایموشن کا استحصال کرتاہے۔دبے لفظوں میں اس کا عکس افسانے میں دکھاکراس گورکھ دھندے کی مخالفت ہوئی ہے نیزافسانے میں اندھی تقلید پر انگلی بھی اٹھی ہے جہاں خرافات سے کچھ لوگ اپنا الو سیدھاکر تے ہیں۔بہرحال افسانہ ایک شعلہ بارموضوع کا احاطہ چند لسانی خامیوں کے ساتھ کرتاہے اور قاری کے ذہن پر ایک تاثر چھوڑنے میں کامیابی کاپرچم نصب کرتاہے۔’

’قاتل‘‘ شاہنہ یوسف کا مختصر بیانیہ افسانہ ہے جس میںایک واقعے کو من وعن تین کرداروں کی مد دسے پیش کیا گیا ہے۔نہ کوئی استعارہ نہ کوئی علامت نہ کوئی پیچ وخم ؛بس سلیس زبان میں ایک ضعیف باپ کے کرب کو قاری کے سامنے پیش کیا گیا ہے جس کا بیٹا بری صحبت کی وجہ سے ڈرگس کا عادی ہوجاتاہے اور جب پیسے کی قلت سے اس کو یہ نشہ نہیں ملتاہے اس وقت جوش جنوں میں چھلانگ لگا کر گاؤں کی ندی میں خودکشی کرلیتاہے۔اس کے بعد اس کے ضعیف باپ پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑتاہے۔ اس کی روداد افسانے میں بیان کی گئی ہے۔اس بیان میں ایک درد ہے جس سے قاری بھی متاثر ہوتاہے۔افسانہ خاموشی سے اس جانب اشارہ کرتاہے کہ بیٹے اور بیٹیوں کی پرورش کے دوران ان پر نظر رکھنا چاہئے ورنہ ذراسی غفلت اس کو برے راستے پر ڈال دیتی ہے خصوصاًسن بلوغ میں ان کو غلط راستے پر بھٹک جانے کا امکان زیادہ ہوتاہے۔افسانے کا اختتام استفہامی ہے کہ آخر اس کے بیٹے کا قاتل کون ہے؟اس سوال کا جواب ملٹی ڈائمینشنل ہے۔کہا جاتاہے نہ کہ اکیلا چنابھاڑ نہیں پھوڑتا ہے ۔ ایساہی کچھ اس افسانے کے کلیدی کردارکے ساتھ بھی ہوتاہے۔بہ غائردیکھاجائے تو نظام حکومت کی لاپرواہی،غلط صحبت اور گارجین کی ڈھیل تینوں اس کے لیے ذمہ وار ہیں۔ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی اگر اپنا شکنجہ سختی سے کساہوتا تو اس کا بیٹا ماں کا کنگن چوری کرکے ڈرگس جیسے موذی نشہ کا عادی ہوکر موت کی نیند نہیں سوتا۔بہرحال ضعف العمری کا درد سناتایہ افسانہ اس معنوں میں منفرد ہے کہ نشہ آوری کے خلاف مہم میں یہ لوگوں کے اندر سماجی شعورو بیداری پیداکرتاہے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ