افسانچہ افسانوی نثر

غلام نبی کمار کے افسانچے “شکن”، “ارمان، “تھوکنا”

استاد کمرے میں بڑے چاؤ سے داخل ہوتا۔ اس کے ماتھے پر پریشانی کی کوئی شکن تک نظر نہ آتی تھی۔ 

بچے استاد کی شخصیت اور اس کی علمی اور تعلیمی قابلیت سے خاصے متاثر تھے۔ استاد تھا بھی بڑا خوب رو….. اور کلاس میں اس کے پڑھانے کا نرالا انداز  بچوں کے دلوں کو بھاتا تھا۔ لیکن تقدیر کے کھیل کا کرتا بھی کیا… برسوں سے ایمانداری کے ساتھ مختلف اسکولوں میں عارضی طور پر خدمات انجام دیتا آرہا تھا 

ایک دن استاد معمول کی طرح خوش پوشاک کلاس میں داخل ہوا۔ تو کلاس کا جائزہ لیا اور کچھ طالب علموں کو غیر حاضر پایا اور گویا ہوا۔

توقیر! آج زیادہ تر اسٹوڈنٹ نہیں آئے ہیں. کیا وجہ ہے؟

جی سر ہاں..۔۔سر کچھ مختلف کمپنیوں میں کام بھی کرتے ہیں۔

استاد پڑھانے میں مشغول ہوا۔ کلاس ختم ہونے سے چند منٹ قبل ایک طالب علم استاد سے پوچھنے لگا۔ سر فلاں استاد کی نتخواہ کتنی ہے تو استاد نے کہا ۔۔ہوگی ایک لاکھ سے زیادہ۔

ان میں سے ایک طالب علم نے استاد سے پوچھا۔ 

سر آپ کی تنخواہ ۔۔۔۔۔ تو استاد پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی، اس کا چہرہ زرد پڑگیا، ماتھے کی شکن صاف نظر آرہی تھی،  وہ ہکا بکا  صرف سوچوں میں محو ہوا۔۔۔

***

ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے والے سنیل نے بچپن سے جوانی تک کوئی عیش و آرام نہیں دیکھا تھا، کیونکہ اس کا باپ رام نایک گھر کا واحد کفیل تھا۔ ان کے گھر مشکل سے شام کا کھانا میسر ہوتا تھا لیکن رام نایک ایمانداری کی روٹی پر یقین رکھتا تھا اس لیے مرتے دم تک ترقی نہ کرسکا۔

یہی وجہ تھی کہ اس کے بچوں کی پڑھائی بھی ڈھنگ کی نہ ہوسکی۔ بھائیوں میں سنیل ہی مشکل سے دس جماعت پاس کرسکا۔ باقی مزدوری پر لگ گئے۔ 

سنیل بڑے بڑے خواب دیکھتا تھا، کبھی موٹر گاڑی اور کبھی ہوائی جہاز میں بیٹھنے کا، کبھی بڑے لوگوں میں اور کبھی اچھے اچھے کپڑے پہننے کا خواب…

سنیل نے خوب محنت مزدوری کی، یہاں تک کہ وہ لاغر ہوا۔ لیکن جینے اور اچھے دن دیکھنے کی آس نہ چھوڑی۔ زندگی چلتی رہی، سال بیتے، لیکن وہ پھر بھی اطمینان بخش ترقی سے دوچار ہی رہا۔ 

ایک دن اس کا چھوٹا بھائی اچانک بیمار ہوا، بلکہ وہ کئی سالوں تک بیمار ہی رہا۔ آج بھی بیمار ہی ہے، سنیل جیسے تیسے جینے کی تمنا اور نفس کی آگ بجھانے میں مصروف ہے …… 

***

محسن قصبے کے ایک محلے میں اپنے باپ دادا کے سو برس پرانے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اسی سال انھوں نے اپنے پرانے گھر کو منہدم کرنے کی برسوں پرانی خواہش کو عملی جامہ پہنایا تھا۔ چوں کہ قصبوں اور شہروں میں جگہ کی تنگی کے سبب گھروں کے آنگن مشکل سے پانچ آٹھ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتے۔ محسن اپنے چھوٹے سے آنگن کی دیواروں کی تعمیر ہی میں لگا تھا کہ ایک پڑوسی جو پیشے سے سرکاری استاد تھا ، نے بے جا اعتراض جتایا۔ محسن متوسط خاندان سے تعلق رکھتا تھا، یتیم تھا، اس نے سر کیا اٹھایا۔

استاد ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے آن پڑا۔ 

نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد دونوں خاندانوں میں تعلقات خوشگوار نہ رہے۔

دونوں کا ایک ہی گلی کوچے سے گزر ہوتا تھا۔ جب بھی محسن کے گھر کا کوئی فرد استاد کے سامنے سے گزرتا تو استاد تھوکنا شروع کر دیتا، یہ عمل وہ بار بار محسن کے بھائی بہنوں کے ساتھ دوہراتا۔

ایک دن محسن کی والدہ نے اس بارے میں اسے بتایا۔ تو محسن نے والدہ سے کہا۔۔۔ اماں آپ اس بات کو کبھی سنجیدگی سے نہ لیں۔ ان کو کرنے دیں جو کرنا ہے اللہ دیکھ رہا ہے۔

محسن اور اس کا پڑوسی استاد ایک ہی مسجد کی ایک ہی صف میں بشانہ بہ بشانہ نماز ادا کرتے دیکھے جاتے، گویا اللہ مسجد ہی میں تھا۔۔۔۔۔۔۔

***

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu