جی این کے اردو ادب نامہ
افسانچہ:”اور وہ چائے پیتا رہا…!”
اخترؔصادق، ناندیڑایک چھوٹی سی چٹّھی تھی، یہی کوئی ایک صفحہ کی ہوگی، ہلکی ہلکی خوشبو سے معطر…! ڈاکیہ بھی مسکرایا تھا، لیکن چٹّھی کو چھوتے ہی پہلے تو اس کی انگلیاں جلنے لگیں، پھر آنکھیں بھیگ گئیں۔ آگے اس نے چٹّھی کو آنکھوں سے لگانے اور چومنے کا حوصلہ نہ پایا۔ آخرکار، وہ اسے اپنے کانپتے ہاتھوں میں سے ایسے نکال کر لے گیا جیسے کوئی پرندہ پر پھڑپھڑاتے ہوئے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس نے جلدی سے چٹّھی کو پکڑا اور دیکھا، وہ بالکل کوری تھی، بالکل خالی! وہ ہڑبڑا گیا۔ اسی دوران اس نے دیکھا تو پایا کہ وہ کاغذ جس پر اس نے بڑی محنت سے افسانچہ لکھ رکھا تھا، وہ اسے طنز اور غصہ بھری نظروں سے گھورتے ہوئے میز پر رکھی چائے پی رہا تھا…!
افسانچہ “الجھن افسانچہ کی!”
قلمکار کی آنکھیں سوالوں سے بھر گئی تھیں۔ ا ایک بیاض دی گئی تھی، جس کے ہر صفحہ پر مختلف افسانچے لکھے ہوئے تھے: ان میں سے ایک کا نام تھا “یہ افسانچہ ہے” اور دوسرے کا نام تھا “یہ افسانچہ نہیں ہے”۔ وہ ان الفاظ کے درمیان الجھتا رہا، ہر لفظ کی تلاش میں۔”یہ افسانچہ ہے” کے صفحہ پر لکھا تھا: “قلمکار، حقیقت یہی ہے کہ تم یہاں ہو۔” وہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا، لیکن پھر “یہ افسانچہ نہیں ہے” کے صفحہ پر لکھا ہوا دیکھتا: “قلمکار، یہ سب صرف تمہارے تخیل کا حصہ ہے۔”قلمکار الجھن میں پڑ گیا کہ حقیقت کیا ہے اور تخیل کس چڑیا کا نام؟ دن گزرتے گئے اور ہر صفحہ اسے مزید مغالطے میں ڈالتا رہا۔آخرکار، قلمکار پر یہ منکشف ہوا کہ ہماری زندگی کا یہی فسانہ ہے: “یہ ہے” اور “یہ نہیں ہے” کی دنیا کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں…!، بلکہ سب کچھ اسی الجھن میں گم ہے۔:
خزاں کا سراب
بوڑھا، اپنے ہاتھوں میں پاؤ بھرخشک روٹی پر ہری مرچ کے سوکھے ٹھیچہ کو دیکھ کر مسکرا دیا اور ایک نوالہ اپنے پوپلہ منہ میں ڈالتے ہی کھانسنے لگا!
بڑھیا نے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں پر سفید برف جیسی الجھی ہوئی بھنوؤں کی اوٹ سے بوڑھے کو کھانستے دیکھ کر پوچھا:
“چٹنی اچھی نہیں ہے؟”
“نہیں…”
“پھر…؟”
“مجھے اس میں اپنے چہرے نظر آئے.”
“ہاتھوں کے گٹّھوں میں، روٹی کے ٹکڑوں پر؟”
“ناں!ہاں!!… ایسا ہی سمجھو، اپنی زندگی کی خوشبوئیں….!”
(بوڑھے نے شرارت بھرے لہجہ میں کہا۔)
“خاک، زندگی کی خوشبوئیں…! یڈّھا سٹھیا گیا ہے۔” بڑھیا نے خفگی آمیز مسکراہٹ سے کہا:” خوشبوئیں بھی کہیں دکھائی دیتی ہیں، وہ بھی ٹھیچہ بھری؟” اور کھو کھو کھانسنے لگی۔
بوڑھا کچھ کہے بغیر ایک لمحہ کے لئے ایسا خاموش ہوا جیسے کہ وہ خوشبوئیں اس سے باتیں کرنے لگی ہو!
پھر اچانک وہ اپنی نگاہیں ایک غیر مرئی نقطہ پر مرکوز کرکے آزردہ لہجہ میں نم آنکھوں سے بڑبڑانے لگا:
“پیڑ پر بیٹھے بنچھی ہمارے کھانستے ہی ڈر کے مارے اڑ گئے… !”
(نوٹ: ٹھیچہ یا چٹنی: ٹھیچہ مراٹھی لفظ ہے۔ ہری مرچ کی پیسی ہوئی تیز چنتی کی وہ شکل جس میں لہسن ، ہرا دھنیا اور نمک پڑتا ہے۔ عموما کچایا تل
کر روٹی کو لگا کھایا جاتا ہے۔)
“جزیرہ خود پیاسا ہے!”
وہ آج پہلی مرتبہ کسی جزیرہ کو دیکھ رہا تھا. جزیرہ بہت چھوٹا اور چاروں طرف پانی سے گھرا ہوا تھا. درخت اور خودرو خاردار چھاڑیاں اس کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں. لیکن، سخت گرمی، حبس اور تھکان کی وجہ سے اس کا گلا سوکھ رہا تھا. اس نے ادھر ادھر پانی تلاش کیا، لیکن اس کی یہ تلاش بے سود رہی. اسی اثنا، اس کو اپنی طرف آدھ ننگے کم عمر لڑکا اور لڑکی آتے دکھائی دیے. انھوں نے اپنے ہاتھوں کی پانچ آنگلیاں دکھا کر پانی کی طرف اشارہ کیا. وہ مارے حیرت کے بے ساختہ پکار اٹھا: “پانچ روپے!” دونوں نے اثبات میں سر ہلا کر پانی کا ایک گلاس خریدنے کے لیے اس کی منت سماجت کرنے لگے. ابھی وہ اس شاک سے ابھرا بھی نہیں تھا کہ اسے اپنے اندر سے ایک آواز سنائی دی، جو کہہ رہی تھی: “صدیوں سے جزیرہ خود پیاسا ہے! ایک ایک بوند پینے کے پانی کو ترستا ہے۔ اب تم آئے ہو، پیاسے بھی ہو، وہ تمھاری پیاس کیا بجھائے گا؟ پانی لے کر پی لو اور چلے جاؤ…! ——–