افسانہ افسانوی نثر

اور شاہ الدین مر گیا (تحریر) از تحریر احمد، افسانہ ایونٹ 2022، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ ۔۔۔۔ 2022
افسانہ نمبر ۔۔۔ 43


افسانہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور شاہ الدین مر گیا


افسانہ نگار :- ایس معشوق احمد
بینر۔۔۔۔۔۔ عمران یوسف
رات کے نو بجے ہوں گے ۔اندھیرے نے اپنے پر پھیلا کر پورے علاقے کو قیرفام کر لیا تھا۔ تیرگی میں شاہ الدین جس کی حالت شام سے ہی غیر تھی کو اسپتال لایا گیا۔ تین دن تک اسپتال میں ہی داخل رہے۔چوتھے روز ڈاکٹر نے معائنہ کرکے بتایا کہ اب مریض کی حالت قدرے بہتر ہے اور اب آپ اس کو گھر لے جا سکتے ہیں۔یہ سن کر ساتھ آئی صغیرسن لڑکی نے اطمینان کا سانس لیا اور خدا کا شکر بجا لایا۔وہ خوش تو ہوئی لیکن پریشانی کے آثار اس کے چہرے پر صاف دیکھے جا سکتے تھے۔لڑکی کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی اور یہ لڑکی شاہ الدین کی بیوی تھی۔ان کی جوڑی کو دیکھ کر لوگ حیران ہوتے تھے اور اکثر چہ میگوئیاں ہوتیں کہ پتا نہیں اس بوڑھاپے میں شاہ الدین نے اس پر کون سا منتر پھونکا کہ یہ اس کی دیوانی ہوئی۔ شاہ الدین عمر کے اس پڑاؤ پر تھا جہاں سے وہ اب آخرت کے سفر پر ہی نکل سکتا تھا نہ کہ پیار کی سنہری اور رومان پرور سڑک پر چل پھر سکتا تھا۔یہ معمہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیسے ایک سترہ اٹھارہ سال کی جوان اور خوبصورت لڑکی کا پریتم بنا۔شاہ الدین اب بوڑھاپے کی دہلیز پر تھا لیکن اکثر یہ کہتا تھا کہ دل جوان ہونا چاہیے روح تو پہلے سے ہی بوڑھی ہوتی ہے۔ویسے بھی اس کی عمر کے لوگ اکثر و بیشتر بیمار ہی رہتے ہیں۔ شاہ الدین بھی اب دوڈ دھوپ کرنے کے قابل نہ تھا۔وہ مشکل سے چل پھر سکتا تھا۔ پہلے پہل جو شاہ الدین گاؤں میں اپنی عشق معشوقیوں کے قصے سنانے میں مشہور تھا اب مشکل سے بول سکتا تھا۔
شادی سے پہلے شاہ الدین کے دل میں ایک ملال تھا کہ اس کا گھر ابھی تک آباد کیوں نہیں ہوا۔اب اسے تسلی تھی کہ اس کا باغ بھی ہرا ہے۔ شوقی سے پہلے شاہ الدین نے جتنی بار عشق کی دیوی کے درشن کئے دیوی نے ہمیشہ ہی معمولی جھلک دکھا کر راستہ ہی بدل دیا۔ شاہ الدین جہاں بھی بیٹھا کرتا اپنی یک طرف عشقیہ داستان ضرور سناتا تھا۔وہ جس محبوب کی یادوں کے حصار میں رہتا تھا وہ ایک ماہ دو ہفتہ ،پری رخ ،گل بدن حسین و جمیل لڑکی تھی۔جس نے پہلے شاہ الدین کو بزرگ سمجھ کر بس میں اپنی سیٹ اس لیے دی کہ اس عمر میں یہ بزرگ گاڑی میں کھڑا نہیں رہ سکتا۔شاہ الدین نے اس میں اپنی محبوبا کی شباہت دیکھ لی اور اس پہ جی جان سے عاشق ہو گیا تھا۔ شوقی سے شادی کے بعد شاہ الدین خوش تو تھا لیکن اب بھی حسرت سے اس لڑکی کا قصہ سناتا جس پہ وہ دل و جان سے فریفتہ ہوا تھا۔وہ جب ماضی کو یاد کرتا تھا، سرد آہ بھر کر رنگین وادیوں میں کھو جاتا جہاں وہ اور اس کی محبوبا رنگین لمحات گزارہ سکتے تھے لیکن گزار نہ سکیں۔اسے اپنے محبوب کی یادیں آکر لپٹ جاتیں،باتیں بے ساختہ یاد آتی ،پیار محبت کے قصے اور لڑائی جھگڑوں کی تلخ یادیں چاروں طرف گونجتی تھی۔اس لڑکی کو بھلانے کے لیے شاہ الدین نے ہزاروں جتن کئے لیکن کامیاب نہ رہا ۔ آخر کار ان کا دل جب سترہ سال کی حسین و جمیل شوقی پر آگیا تو اس نے قسم کھائی کہ اب کی بار اس سے ہی نکاح کرے گا بھلے ہی زمین مخالفت کرے یا آسمان دشمن ہو۔جب شاہ الدین ماضی کے عشقیہ قصے سناتا تو اس کا دوست گل خان مذاق مذاق میں اسے کہتا تھا کہ اب تمہیں چاہیے کہ یاد خدا میں مصروف ہو جاؤ لیکن بوڑھے تو حسیناؤں کی یادوں کو اپنا سرمایہ مان رہا ہے۔نماز پڑھ ،عبادت کر اگر مر گیا تو خدا کو کیا منہ دکھائے گا۔

شوقی جوان تھی ۔جوانی میں اگر انسان سنبھل کر نہ چلے تو قدم یقینا ڈگمگاتے ہیں اور ان بیابانوں کی طرف جاتے ہیں جہاں ویرانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔دسویں میں داخلہ لینے کے بعد شوقی کے والدین نے اسے شاہ الدین کے پاس پڑھنے بھیچ دیا۔ شوقی روز شاہ الدین کے پاس ان کے گھر علم کی پیاس بجھانے کے لیے جاتی۔ حصول تعلیم کے دوران وہ شاہ الدین کا کھانا پکاتی اور کبھی کبھار اس کے کپڑے بھی دھوتی تھی۔چونکہ شاہ الدین گھر میں اکیلا تھا اور اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ بیوی کے انتقال کے بعد شاہ الدین نے دوسری شادی تو نہ کی ہاں البتہ بہت ساری حسیناؤں کےزلفوں کے اسیر رہے۔پیری میں یاداشت پر اثر پڑتا ہے اور رات کا کھانا تک بعض دفعہ یاد نہیں رہتا کہ کیا کھایا تھا ۔شاہ الدین کی یاداشت بھی دھندلی ہو گئی تھی اور گنتی بھی اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ اس کو یہ تک یاد نہیں تھا کہ اس نے کل ملا کر کتنے عشق کئے اور اس کی محبوباؤں کی کل تعداد کتنی رہی۔ اب اسے یاد تھی تو بس شوقی۔ اب یہ بڑی شدت سے شوقی کے عشق میں گرفتار تھا ۔ اس کی اب ایک ہی خواہش تھی کہ اس کی یہ کم عمر محبوبا کسی طور شادی پر راضی ہوجائے تاکہ اس کے ویران گھر کی دیواریں قہقوں کی آواز سن لیں ۔
شوقی روز ہی پڑھنے آتی تھی۔ ایک دن شاہ الدین نے ہمت کرکے اپنے پیار کا اظہار کر ہی دیا۔شوقی کے دل میں شاہ الدین کے لیے عزت اور سمان کی جو مورت بنی تھی وہ زمین بوس ہوگئی۔ شوقی کو شاہ الدین سے ہمدردی تھی جس کی بنا پر وہ اس کے کام کر لیتی تھی۔شاہ الدین چونکہ تجربہ کار کھلاڑی تھا اور اس علم سے واقف تھا کہ یہ لڑکی جذباتی اور نرم دل ہے۔ اس نے شوقی کے جذبات کو اپنے تحت کرنے کی سعی کی۔جب اس طرح بات نہ بنی تو وہ ایک پیر صاحب کے پاس پہنچ گئے۔پیر صاحب ان چیزوں کے ماہر تھے۔اپنے جادو منتر سے اس نے کئی ایسے کام انجام دیے تھے۔پچھلے ہی ہفتے ایک بس کنڈیکٹر اس کے پاس آیا تھا۔جو ایک استانی کے عشق میں مبتلا ہوگیا تھا۔پیر صاحب نے اس کو چند کھجور اور ایک پانی کی بوتل دی اور نصیحت کی کہ یہ کھجور کسی بچے کو کھلاؤ اور یہ پانی ان کے دروازے کے آس پاس چھڑکنا۔ اس کام کے عوض پیر صاحب نے اچھی خاصی رقم کا مطالبہ کیا تھا جو کنڈیکٹر نے ہنسی خوشی پیر بابا کی جھولی میں ڈال دی تھی۔شاہ الدین نے اپنی روداد سنائی تو پیر بابا نے بڑے بارعب انداز میں دو تین دن کے اندر اندر کام ہوجائے گا کی حامی بھر لی۔ہوا بھی ایسا ہی،سحرساز پیر نے اپنے کارندے بھیج کر شوقی کو حصار میں لیا اور وہ شاہ الدین کے عشق میں مبتلا ہوگئی۔گھر والوں نے ہزار جتن باز رکھنے کے کئے لیکن ان کی ایک نہ چلی اور وہ بھاگ کر شاہ الدین کے گھر رہنے لگی۔پولیس کیس بھی ہوا لیکن شاہ الدین نے پیسے دے کر معاملہ رفع دفع کیا اور شوقی اب اس کی ہوئی ۔
چند روز قبل شاہ الدین کے کانوں تک یہ خبر آئی کہ پیر صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔اس کے انتقال کی خبر شاہ الدین نے سنی تو رنجیدہ ہوئے ۔ پیر کا حصار ختم ہوچکا تھا اور یہ فکر شاہ الدین کو کھائے جارہی تھی کہ شوقی بھاگ نہ جائے۔اب مخمل کا بستر اسے کانٹوں کی سیج لگ رہا تھا۔ پریشانی کے عالم میں بس یہی خیال ستاتا تھا کہ شوقی اس کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تو اس بوڑھاپے میں اس کا کیا ہوگا۔وہ چاہتا تھا کہ اس کے مرنے تک شوقی اس کے ساتھ رہے۔ اس کے جیتے جی شوقی کا اس کو چھوڑ کے جانے کا نقصان وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اس فکر اور پریشانی نے اسے اسپتال پہنچایا تھا۔
ہر شخص کو کسی نہ کسی چیز کی تلاش و جستجو ہوتی ہے وہ اس کو پانے کی سعی کرتا ہے۔خواہش پوری ہو جائے تو زندگی سنورجاتی ہے ورنہ ایک کسک اور افسوس ضرور ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے۔اب شاہ الدین کو ایک ہی فکر تھی۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ پیر کے انتقال کے بعد شوقی میں نمایاں تبدیلی آئی تھی۔اب وہ گھر والوں سے ملنے بھی جاتی تھی۔جب سے پیر کا انتقال ہوا وہ شاہ الدین کے ساتھ باہر نہیں گئی تھی اور نہ ہی پرانے انداز سے بات کرتی تھی ۔اب وہ سوچنے لگی تھی اور اسے اپنے دادا کی عمر کے شخص کے رہنے میں کوفت ہوتی تھی۔وہ اسکے حصار سے نکلنے کی تدبیریں کرنے لگی تھی اور وہ کامیاب ہونے ہی والی تھی کہ شاہ الدین کا انتقال ہوگیا۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ