افسانہ افسانوی نثر

سرحد کے اس پار (تحریر) از محمد شفیع ساگر، افسانہ ایونٹ2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 42

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر 42
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :-سرحد کے اُس پار
افسانہ نگار: محمد شفیع ساگرؔ دراس کرگل لداخ

“پاپا میں بڑا آدمی بنوں گا”
” ہاں ۔ ویری گُڈ۔ میرے بچے ۔ آپ ضرور بڑے آدمی بنو گے”
“پاپا ۔ آپ جانتے ہیں کہ میں کیا بننا چاہتا ہوں ؟”
اقبال نے بچے کو چومتے ہوئے کہا۔”ہاں میرے لعل میں جانتا ہوں کہ آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہو ۔ میرا مُننا ضرور ڈاکٹر بنے گا اور بیماروں کا علاج کر ے گا ۔ میرا مُننا غریبوں سے محبت کرے گا اُن کا مفت علاج کرے گا ۔ لوگ میرے مُننے سے خوش ہونگے ۔ مُننے کی خوب تعریفیں کریں گے اور پاپا خوش ہوگا”
“پاپا میں ڈاکٹر نہیں بنوں گا “
“اچھا ۔ تو میرا بیٹا انجنیر بنے گا ۔بڑے بڑے پُل بنائے گا جن سے گاڑیاں گزریں گی ۔ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرے گا ۔ جنہیں دیکھ کر دُنیا دھنگ رہ جائے گی۔ میرا بیٹا مہان انجنیر بنے گا اور پاپا بہت خوش ہوگا”
“نہیں ۔نہیں پاپا میں انجنیر نہیں بنوں گا”
“اچھا تو میرا بیٹا کلکٹر بنے گا ۔میرا بیٹا لوگوں کی مشکلات سُنے گا اور انہیں حل کرے گا ۔ جہاں پانی کی کمی ہو وہاں پانی پہنچائے گا ۔ جہاں راشن کی کمی ہو وہاں راشن پہنچائے گا ۔ جہاں بے روزگاری ہو وہاں روزگار کے وسائل پیدا کر دےگا ۔لوگ میرے بیٹے سے ملنے کی تمنا کریں گے ۔میرا بیٹا غریبوں کا مسیحا بنے گا ۔ بے سہاروں کا سہارا بنے گا اور پاپا بہت خوش ہوگا “
“نہیں پاپا میں آرمی آفیسر بنوں گا “
“اچھا ابھی یاد آیا میرا بیٹا فوجی آفیسر بنے گا ۔خوبصورت فوجی وردی پہن کر گاڑی میں گھوما کرے گا ۔ کندھے پہ اسٹار ہونگے ۔ جب دھوپ لگے گی تو وہ اسٹار چمک اُٹھیں گے۔ جب میرا بیٹا فوجی جوانوں کے پاس سے گزرے گا تو وہ فوجی جوان میرے بیٹے کو سیلیوٹ کریں گے ۔جب میرا بیٹا لوگوں کے پاس سے گزرے گا تو وہ سلام کریں گے ۔ میرا بیٹا ملک اور قوم کی حفاظت کرے گا ۔غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرے گا اور پاپا بہت خوش ہوا”
“نہیں پاپا میں ایسا نہیں کروں گا !”
پاپا حیرانگی سے “بیٹا پھر کیا کروگے؟”
“پاپا میں سرحد پار گولہ باری کر دوں گا ۔ اور دشمن ملک کو سبق سکھاوں گا”
“نہیں نہیں بیٹا ایسا نہیں کرنا ! سرحد کے اُس پار ایک خوبصورت چراگاہ ہے ۔ جہاں نرم نرم گھاس ہے۔ بالکل قالین کی طرح ۔ وہاں لمبے لمبے پھول ہیں جو مہمانوں کی سواگت کے لیے ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں ۔ وہاں صبح سویرے ایک گڈریا آتا ہے جس کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہوتا ہے ۔ جب وہ تھک جاتا ہے تو نرم نرم گھاس پر لیٹ جاتا ہے ۔ جب اُسے بھوک لگتی ہے تو تین پتھروں سے چولہا بنا کر اُس میں ایک چھوٹا برتن چڑھاتا ہے ۔ پھر تھوڑی لکڑیاں جمع کرتا ہے اور چائے بناتا ہے ۔ جب بکریاں دور نکلتی ہیں تو تھیلے سے ایک بانسری نکالتا ہےاور اسے بجاتا ہے ۔بانسری کی خوبصورت آواز فضا میں سرور پیدا کرتی ہے۔ اور بھیڑ بکریاں واپس چلی آتی ہیں ۔ وہاں پہاڑ سے ایک راستہ دریا تک آتا ہے جہاں سے پہاڑی بکرے روز دوپہر پانی پینے آتے ہیں ۔ دریا میں رنگ برنگی مچھلیاں ہیں جو اُچھل کے کبھی پتھروں پہ چڑھ جاتی ہیں اور کبھی ساحل پر آجاتی ہیں ۔ دریا پر ایک خوبصورت پُل ہے جہاں گاوں کی عورتیں آیا جایا کرتی ہیں ۔ دریا کے اُس پار خوبصورت کھیت ہیں جہاں عورتیں پانی دینے آیا کرتی ہیں ۔ جب انہیں وقت ملتا ہے تو سب ایک جگہ جمع ہو کر دل کا حال سُناتی ہیں یا گانے گا کر دل بہلاتی ہیں ۔ وہاں سے آگے ایک گاوں ہے ایک خوبصورت گاوں ! جہاں بڑے بڑے اونچے مکان ہیں جہاں لوگ صبح اپنے بچوں کو گاڑی سے اسکول تک چھوڑ آتے ہیں اور شام کو واپس لے آتے ہیں ۔ وہاں ایک محلہ ہے جہاں مزدور رہتے ہیں ۔ جو محنت مزدوری سے گذارہ کرتے ہیں ۔ اُسے غریبوں کا محلہ کہتے ہیں ۔ وہاں ایک اسکول بھی ہے جہاں بچے پڑھتے ہیں ، کھیلتے ہیں اور موج مستی کرتے ہیں شام کو جب یہ بچے گھر آتے ہیں تو پاپا کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں پاپا میں بڑا آدمی بنوں گا یا ممی کے گلے میں بانہیں ڈال کر کان میں کہتے ہیں ممی مجھے بھوک لگی ہے ۔ اسی محلے میں ایک چھوٹا مکان ہے جہاں ایک بوڑھی عورت رہتی ہے جس کی کمر جھکی ہوئی ہے ۔ جس کی بینائی کمزور ہے جو آج بھی کہتی ہے کہ میرا بیٹا ضرور آئے گا ۔ جانتے ہو وہ کون ہے ؟ وہ میری ماں ہے۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ