افسانہ افسانوی نثر

اماں کی پائل (تحریر) از اسماء اختر انصاری، افسانہ ایونٹ2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 41

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر __41
بینر :- عمران یوسف

افسانہ :- “اماں کی پائل “
اسماءاخترانصاری
حیدر آباد پاکستان

میرے بار بار مانگنے پر بھی اماں مجھے پائل نہیں دیا کرتی تھیں. بہت پیاری تھی اماں کو اپنی چاندی کی ایک پائل ۔
باریک جالی دار جس پر پھول اور پتیاں بنی ہوئیں ۔ بغیر گھنھگروں کی دو لڑیوں میں بنی ہوئیں نازک سی پائل ۔
اماں اپنی پائل کو بالش بھر کی صندوقچی میں بڑے خزانے کی طرح سنبھال کے رکھتیں ۔ صندوقچی میں پہلے سنہری رنگ کا شنگھائی کا کپڑا بڑی نفاست سے تہہ کرکے بچھایا ہوتا پھر سفید ململ کی بٹوئیا میں پائل رکھ کے شنگھائی سے لپیٹ دیتیں جیسے ننھے بچوں کو سلاتے وقت ٹھنڈ سے بچاتے ہیں ۔ ساتھ دو موتیے کے پھول بھی رکھتیں ۔
اماں کو موتیے سے بہت پیار ہے اکثر کان میں پہنے رہتی موتیے کے پھول ۔
ہمیشہ اماں صندوقچی جب کھولتیں جب ابا گھر نہیں ہوتے !!
اماں اکثر اکیلے میں کمرہ بند کرکے صندوقچی کھولتی کبھی کبھی اماں کے کچھ بولنے کی آوازیں آتیں کبھی ایک ہی مخصوص گیت گنگنانے کی ۔

“کاٹو سے کھیچ کے یہ آنچل توڑ کے بندھن باندھیں پائل
مجھے نہ روکو دل کی آوڑان سے دل وہ چلا آہاہاہاہاہا “

اماں کی صندوقچی پر بہت ہی نفیس نقاشی کی گئ تھی ننھی ننھی چڑیاں اور پھول بوٹے بنے ہوئے تھے ۔
اماں نے پائل کبھی پاؤں میں نہیں پہنی !!
اماں کبھی بہت خوش ہوتیں تو بس کمرے میں جاکر پائل کو گلے سے لگائے رکھتیں، کبھی کبھی انکھیں نم ہوجاتیں تو پائل کو بچوں کی طرح چوم کر پھر رکھ دیتیں۔

مجھے اماں کی پائل بہت بھاتی ، مگر اماں ہاتھ تک لگانے نہیں دیتیں۔
میں کیا کرتی .!!
نہ جانے کونسا طلسم تھا اس نگوڑی پائل میں اماں کی ڈانٹ کے باوجود دن رات اسی کا دھیان رہتا کب موقع ملے اور پائل پیر میں پہنوں۔
اماں سے مانگی کئی بار۔” بس ایک بار اماں ۔”
مگر اماں کا ایک ہی جواب ہوتا “کیا نہیں ہے تمھارے پاس ؟
جو کہتی ہو مل جاتا ہے نہ ؟”
بات تو سچ تھی ہر چیز تو مہیا کی تھی ابا اماں نے ۔
مگر عجیب جادو تھا اماں کی پائل میں ۔آنگن میں لگے موتیے کے گملے میں جب پھول کھلنے لگتے تب اماں روز ہی گجرا بنا کے پہنتیں۔ اور روز ہی صندوقچی میں تازہ موتیے رکھتیں۔ ابا فالج کے اٹیک کے بعد گھر سے کم ہی باہر جاتے تھے ۔
موتیے کے موسم میں صندوقچی میں پھول رکھنا اماں پر فرض تھا ابا کے ہوتے ہوئے یہ کام فوری طور پر کیا جاتا بس صندوقچی کھولی اور پرانے پھول نکال کے نئے رکھ دیئے ۔
ابا تو اماں کی ہر بات ہر فرمائش پوری کرتے تھے پھر ابا سے صندوقچی چھپانا ؟
ابا سے چھپ کے ہی کیوں ؟
اماں یہ صندوقچی ابا سے چھپاتی کیوں ہو ؟
اماں کو مجھ سے شاید اس سوال کی توقع نہیں تھیں ۔
اماں نے پلٹ کر دیکھا اور دیکھتی رہ گئیں نہ جانے کن خیالوں میں گم ہوگئیں ۔ “اماں اماں اماں ؟”
“ہاں کیا ہوا ؟”
اماں ایسے چونکیں جیسے کئ صدیاں دور سے ہو کر آئی ہوں واپس !!
پسینوں میں شرابور عجیب ہونق ہوئی اماں مجھے تکے جارہی تھیں۔
“اماں ڈرا کیوں رہی ہو کیا ہوا تمھیں ؟ ” میں نے پریشان ہوکر اماں کو جھنھوڑ کے پوچھا۔
“کچھ نہیں جاؤ یہاں سے اماں دروازہ بند کرکے گھٹی گھٹی سسکیوں سے روتی رہیں آہستہ اہستہ اماں کی آواز آنا بند ہوگئی ۔
میرے اس طرح زور سے اماں کو پکارنے پر ہماری اوپری منرل کی کرائے دار انصار صاحب کی بیگم آگئیں اماں کو دیکھتے ہی فورآ ڈاکٹر کو بلوایا ۔
اماں ایک لمحے میں ہی برسوں کی بیمار لگ رہی تھیں۔ “کیا ہوا تھا اماں کو یک دم ؟ ” میں سمجھ نہ سکی ۔
اماں دن بدن کمزور ہوتی چلی گئیں۔
ابا اب خود موتیے کے گجرے بنا کے دیتے اماں کو، اماں انہیں پہنتیں نہیں ایک طرف رکھ دیتیں۔
پھر ایک دن بڑے تایا تائی بیرون ملک سے آئے ۔
ابا نے تایا تائی کو کھانے پر مدعو کیا ۔ ابا نے تایا کا من پسند پلاؤ اور زردہ تیار کروایا مجھ سے ۔
ابا کے کہنے پر اماں بستر سے کھڑی ہوگئیں ۔
نہا دھو کے صاف کپڑے پہنے ۔
ابا موتیے کے پودے پر لگے سارے پھول کمرے میں لے آئے پیالے میں سجا کے !
اماں آج کئی دن بعد کچھ بہتر محسوس ہورہیں تھیں ۔

تایا تائی بچوں کے ساتھ گھر آئے ۔ ڈھیروں باتیں ہوتی رہیں رات بھر محفل جمی رہیں اماں صرف مسکرا دیتیں ہر بات پر۔۔۔

تایا تائی کے جانے کے بعد اماں پھر سے کمرہ بند کرکے روئیں اس بار اماں روتے روتے چپ ہی ہوگئیں ۔
اماں کے تیجے پر گھر کا سامان سنبھالتے ہوئے مجھے صندوقچی کا دھیان آیا ۔
“کہاں ہے ؟ کہاں رکھ دیں اماں نے ؟”میں نے خود سے پوچھا۔
سامان کھنگالتے اماں کی بڑی پیٹی سے صندوقچی مل ہی گی ۔ دھڑکتے دل کے ساتھ صندوقچی کھولی تو اماں کی چاندی کی پائل کے ساتھ دوسری پائل بھی موجود تھیں ۔
ساتھ ایک گلابی کاغذ بھی تھا !
آشکوں سے بھیگا کچھ الفاظ گمشدہ ۔ کچھ مٹے ہوئے چند سطر پر مشتمل مختصر سی تحریر ۔ مجھے بڑی مشکل سے جو سمجھ آیا وہ یہی تھا ۔
مجھے معاف کرنا میں وعدہ نہ نبھا سکا۔
یہ گلابی کاغذ ؟ یہ لکھائی تو !!!
“ابا کے نام آنے والے تایا کے خط سے ہو بہو ملتی ہے۔”

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ