پیش کش: جی این کے اردو
ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _40
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :- کچے پتھر کی مورت
افسانہ نگار :- شفیع احمد، سرینگر
دونوں کمسن بھائیوں نے جان بوجھ کر اس رات کا انتخاب کیا تھا جب زوروں کی بارش ہو رہی تھی تاکہ تالا توڑنے سے اٹھنے والی آواز بارش کے شور میں گم ہوجائے۔بارش کے سبب نیند ذرا زیادہ گہری اور مزیدار آتی ہے اسلئے پڑوسیوں کی نیند ٹوٹنے کا خدشہ کم تھا ۔ یہ سوچ کر رات کے کسی پہر وہ کام میں لگ گئے۔
کھرِش کھرِش۔۔۔۔کھرِش کھرِش
ہلکی آواز ابھر رہی تھی جب وہ دونوں بھائی باری باری کاٹنے والا بلیڈ گھما رہے تھے۔ تیز آواز ابھرنے سے آس پاس رہنے والے لوگ بیدار ہوجانے کا خطرہ ٹالنے کے لئے وہ دھیرے دھیرے بلیڈ چلا رہے تھے۔بارش کے سبب وہ بھیگ رہے تھے اور بارش کا پانی ان کے سر سے ہوتا ہوا سارا جسم بھگو گیا۔بھر پور احتیاط کے باوجود تالا کاٹنے کی آواز کم ہی سہی لیکن ابھر تو رہی تھی۔آواز سن کر جب مسجد کے چوکیدار کی نیند ٹوٹی اسے لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔وہ جب کان لگا کر شور کی سمت جانچنے میں لگ گیا تو اسکے کان کھڑے ہوگئے۔
“شاید کوئی سیف کا تالا کاٹ رہا ہے۔”وہ خود کلامی کرنے لگا۔
مسجد کی ایک دیوار میں مضبوط سیف چنی گئی تھی اور گزرنے والے لوگ اس میں حسب توفیق روپے پیسے ڈال دیتے۔چوری چکاری سے بچنے کے لئے مسجد کمیٹی کے ممبران نے سیف میں ایک مضبوط تالالگوایا تھا۔امید یہی تھی کہ سیف میں ہر وقت نقدی اور زیورات رکھے رہتے ہیں جو دیندار اور صاحب ثروت لوگ اس میں ڈالتے تھے۔دونوں بھائی یہی سوچ کر سیف کا تالا توڑنے کا پلان بنا چکے تھے۔
جیسے ہی چوکیدار کی نیند ٹوٹی اس نے نیند پوری طرح بھگانے کے لئے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے۔
تالا کاٹنے میں ان بھائیوں کو تھوڑا وقت لگا اور جب انہوں نے سیف کا ڈھکن اٹھایا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھے۔ان میں سے ایک نے سیف میں ہاتھ ڈالا اور نقدی اور زیور،جو کچھ ہاتھ آیا، نکال لیا۔وہ نکالے گئے نوٹ اور زیور تھیلے میں ڈالتا گیا جو نزدیک کھڑا اس کا بھائی پکڑے ہوئے تھا۔وہ ایک دوسرے کو اشارہ کرتے رہے کہ شور نہ اٹھنے پائے جس کے سبب آس پاس گھروں میں موجود لوگوں کی نیند ٹوٹے۔کچھ دیر میں تھیلا بھر گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا کہ بھاگ چلیں۔اس سے پہلے کہ وہ تیز قدموں سے کھسک جائیں انہیں چار لوگوں نے گھیر لیا تھا۔ان لوگوں نے انہیں جکڑ لیا اور ان کی پٹائی شروع کی۔نقدی اور زیور سے بھرا تھیلا گر گیا اور اسے مسجد کے چوکیدار نے اپنے ہاتھوں میں سنبھال لیا۔
“ہم انہیں بستی کے معززین کے حوالے کردیں جو انہیں پولیس کی تحویل میں دیں گے۔”ایک شخص نے تجویز رکھی۔
“ہاں یہی ٹھیک رہے گا۔”چوکیدار نے ہاں میں ہاں ملائی۔
“جناب اللہ کے واسطے ہمیں پولیس کی تحویل میں نہ دیں۔پولیس کیس کے سبب ہماری زندگی تباہ ہو گی۔”بڑے بھائی، جس کی گردن شکنجے میں پھنسی تھی، نے التجا کی۔
“تباہ۔۔۔ہا ہا۔۔۔ وہ بات تمہیں خدا کے گھر میں چوری کرنے سے پہلے سوچنی چاہئے تھی۔” مسجدکمیٹی کے صدر نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا۔
“جناب ہماری بہن پر رحم فرمائے۔اگر اس بات کی بھنک بھی پڑی تو ہماری بہن کے ساتھ کوئی شادی کے لئے تیار نہیں ہوگا۔”چھوٹے بھائی نے زمین پر گر کر صاحب صدر کے پاؤں پکڑے۔
“ان چوروں کی بات نہ سنیں۔”ایک اور ممبر نے مشورہ دیا۔
“جناب یہ ہماری پہلی غلطی ہے۔اللہ کے واسطے ہماری بہن کی زندگی تباہ ہونے سے بچائیں۔غلطی ہماری ہے اسے اسکی سزا نہ دیں۔” بڑا بھائی آہ و زاری کرتا رہا۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر مسجد کمیٹی کا صدر اسکی طرف مخاطب ہوا۔”زمین پر تھوکو اور اس پر اپنی ناک اور پیشانی رگڑو۔”
“کیا آپ انہیں معاف کریں گے؟”دوسرے ممبر نے ذرا خفا ہو کر سوال کیا۔
“مجھے معلوم ہے یہ اچھے بچے ہیں لیکن پولیس کیس ان کی اور انکی بہن کی زندگی برباد کردے گا۔” کمیٹی کے صدر نے ان پر رحم کھاتے ہوئے جواب دیا۔
“مجھے نہیں لگتا ہے کہ آپ صحیح فیصلہ لے رہے ہیں۔جو مجرم ہے اسے سزا ملنی ہی چاہئے جبھی تو سماج سے برائی ختم ہوگی۔”ایک ممبر نے رائے دی۔
“آپ مجھ پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔میں کمیٹی کا صدر ہوں۔” صدر نے رعب دار لہجے میں جواب دیا۔
چند لمحے خاموشی کے بعد کمیٹی کے صدر نے ان دونوں بھائیوں کو جانے کی اجازت دیدی۔وہ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتے چل دئے۔ اور صدر نے نقدی و زیورات بھرا تھیلا اپنے ہاتھ میں لیا۔
“آپ دونوں میرے ساتھ چلیں۔اور تم دوسرے تالے کا انتظام کرکے چابی میرے کمرے میں پہنچا دینا۔” کمیٹی صدر نے پہلے ممبران اور ساتھ ہی چوکیدار کو مخاطب کیا۔
دونوں بھائی گھر پہنچے جو پرانے شہر میں موجود تھا اور ایک ہی کمرے کی پہنائی کے اوپرتین منزلہ بنایا گیا تھا۔احتیاط سے تالا کھولا تاکہ ان کی بہن جو اوپری منزل پر سوئی تھی جاگ نہ جائے۔
“بہن میٹھے خوابوں میں مگن ہو گی دھیرے چلنا تاکہ اس کی نیند نہ ٹوٹے۔”بڑے بھائی نے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔اسکے چہرے اور آنکھوں سے پانی کی دھار بہہ رہی تھی اور یہ جاننا مشکل تھا کہ بارش کا پانی ہے یا آنکھ اور روح کا باندھ ٹوٹ گیا تھا۔
“کیا ہم نے بڑا گناہ کیا؟”چھوٹے بھائی نے معصومیت سے سوال کیا۔
“ہاں۔۔۔لیکن اللہ کو ہمارا حال معلوم ہے وہ ہمیں ضرور معاف کردیں گے۔” بڑے بھائی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
مسجد کمیٹی کے ممبران صدر کے کمرے میں بیٹھے تھے۔
“کیا آپ جانتے ہیں میں نے ان لڑکوں کو کیوں جانے کی اجازت دی؟” صدر ممبران کی طرف مخاطب ہوا۔
“کیوں؟”
“یہ دونوں بچے شریف بھی ہیں اور یتیم بھی۔یہ باپ کی پنشن پر گزارہ کرتے ہیں اور ان کی بہن ایک نجی اسکول میں استانی ہے۔کچھ نہ کچھ مجبوری ضرور رہی ہوگی کہ خدا کے گھر میں چوری کرنے آگئے۔”کمیٹی صدر نے وضاحت کی۔
“ہوں۔”ایک ممبر نے بے دلی سے جواب دیا۔
“پولیس کیس بنتا تو ہم پر بھی سوال اٹھائے جاتے کہ ہم مسجد کی حفاظت اچھی طرح نہیں کرپاتے ہیں۔”
” سیف میں ڈالنے کے بجائے مال کیوں گھر لے آئے؟”
“ہم اس کا بہترین استعمال کریں گے تاکہ لوگوں کا ہم پر اعتماد قائم رہے۔”
“صدر صاحب آپ اندر ہی ہیں نا؟” چوکیدار نے باہر سے ہی آواز لگائی۔
“اندر آجاؤ۔” صدر نے دھیرے سے جواب دیا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ممبروں کو خاموش رہنے کی ہدایت دی۔
چوکیدارنے چابی صدر کے ہاتھ تھما دی اور سارے لوگ دوسرے دن ملنے کا پروگرام بنا کر نکل گئے۔
کوئی ہفتہ دس دن گزرے تو پوسٹر چسپان کرکے اعلان کیا گیا کہ مسجد کے لئے نئے قالین اور فانوس خریدے گئے ہیں۔لوگوں سے استدعا کی گئی کہ وقت مقررہ پر آکر وہ نماز شکرانہ میں شرکت کریں۔اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ مسجد کی تجدید میں اس نے مدد اور رہنمائی کی۔
مقررہ دن لوگ مسجد کی جانب جوق در جوق جا رہے تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔
“کہتے ہیں مسجد کے لئے قیمتی چیزیں خریدی گئی ہیں۔فانوس، قالین، پردے۔”ایک خاتون بولی۔
“ہاں حاجی صاحب کہتے ہیں مسجد کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔”دوسری عورت بولی۔
ان دونوں بھائیوں کو اب یقین ہو گیا تھا کہ ان کی غلطی کی تشہیر نہیں کی گئی۔وہ بھی مسجد کی جانب نکل پڑے۔ان کی بہن جو کافی دیر سے دلہن بننے کا انتظار کر رہی تھی اس نے بھی مسجد کی جانب جانے کا فیصلہ کیا۔جانے سے پہلے وہ آئینے میں دیکھتے ہی سر تا پا لرز اٹھی۔چند سفید بال چہرے تک لٹک رہے تھے اور اسکے ادھورے خوابوں پر طنز کر رہے تھے!!