افسانہ افسانوی نثر

واپسی (تحریر) از نور شاہ، افسانہ ایونٹ2022، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 39

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _39
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :-واپسی
نور شاہ
قریب قریب تیس سال قبل جب وہ بنگلور میں ایک ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے، اسکول کے ہی ایک ہوٹل میں ایک ساتھ اپنے شب وروز گزارتے تھے۔ وہ پہلی بار ایجوکیشن ٹور کے سلسلے میں کشمیر آئے تھے اور کشمیر آ کر انہیں بڑی راحت کا احساس ہوا تھا۔ کشمیر ان کے لئے نئی جگہ تھی ۔۔۔ سندر سندر سی وادی ، برف پوش پہاڑ، جھرنے ، ندی نالے اور آبشار ، رنگ برنگے پھول اور سرسبز درختوں کی بھر مار ۔ آس پاس دور نزدیک دیکھ کر وہ بے حد خوشی محسوس کرتے رہے ۔ نماز کا وقت ہوا جہاں چاہا جس مسجد میں جایا ، وہ ایک ساتھ نماز ادا کرتے تھے۔ ہمیشہ باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ جب وہ لوٹ کر بنگلور آۓ اور مشینی زندگی کے کاموں میں کھو گئے تو رفتہ رفتہ کشمیر ان کے ذہنوں سے اتر گیا۔ پھر وہ اسکول سے کالج کی زندگی میں آۓ ۔ اپنی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان میں سے ایک ڈاکٹر بنا، دوسرا انجینئر اور تیسرے دوست نے اپنا بزنس سنبھال لیا۔ اب وہ تینوں بنگلور سے باہر تھے۔ کبھی کبھار ہی ملنا جلنا ہوتا کبھی کبھار ہی اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے سے بانٹنے کے مواقع ملتے لیکن ایک دوسرے سے دور ہو کر بھی ان کی دوستی قائم و دائم رہی۔

اور پھر ایک دن اپنی بھولی بسری یادوں کو تازہ کرنے کے لئے انہوں نے ایک بار پھر کشمیر آنے کا پروگرام بنالیا۔ وہ وقت مقررہ پر دلی کے آیر پورٹ پر ملے اور جہاز کے ذریعے سرینگر آ گئے ۔ ایک اچھے ہوٹل میں قیام پذیر ہوۓ اور کشمیر کی خوبصورتی میں کھو گئے ۔

ایک شام شالیمار روڈ پر ٹہل رہے تھے کہ مسجد سے آواز سنائی دی ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر!!
” نماز کا وقت ہورہا ہے“ ۔ غفور نے کہا۔
”ہاں“ ۔۔ ۔ لیاقت نے راحت کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا۔
“مسجد تو سامنے ہی ہے ۔ زیادہ دور نہیں جانا ہے ۔ ۔ راحت نے حامی بھر لی ۔
وہ تینوں دوست مسجد کی جانب بڑھے ۔ مسجد کے اندرونی دروازے پر تینوں رک گئے ۔ لیاقت مسجد کے اندر چلا گیا۔غفوراور راحت لوٹ آۓ ۔ دوسری مسجد دیکھتے ہیں ۔۔ ۔ غفور نے کہا۔
سامنے ایک اور مسجد دکھائی دے رہی تھی ۔ دونوں دوست مسجد کی جانب بڑھے ۔ غفور مسجد کے اندر چلا گیا اور راحت نہ جانے کیا سوچتے ہوۓ وہاں سے نماز ادا کئے بغیر لوٹ آیا۔ ڈل جھیل کے کنارے ہاؤس بوٹوں کی جانب دیکھنے لگا۔ یوں تو وہ خوبصورت ماحول میں کھویا ہوا نظر آرہا تھا لیکن اندر ہی اندر جانے کس شش و پنج میں پڑ گیا تھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے سڑک پار کر نے لگا۔ ذرا سی دوری پر ایک مسجد نظر آرہی تھی ۔ وہ مسجد کے قریب آیا۔ مسجد کے دروازے پر لٹکا ہوا پردہ سرکا یا اور مسجد کے اندر چلا گیا ۔
وقت کے لمحے آہستہ آہستہ ان کی سوچوں میں پگھلتے رہے ۔
شام کو جب وہ اپنے ہوٹل کے لان میں کافی پینے میں مصروف تھے تو تینوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ابھر رہا تھا ۔ ۔ ۔
اللہ ایک ہے ،نماز ایک ہے، مسجد ایک ہے ، تو پھر ہم کیوں مختلف خانوں مختلف مسلکوں میں بٹے ہوۓ ہیں؟ ہم نے کیوں ڈیڑھ انچ کی اپنی اپنی مسجد کھڑی کر لی ہے ۔ شاید ہم بھٹک گئے ہیں ، بٹ گئے ہیں، اپنے آپ میں ، اپنے وجود میں ،اپنی سوچوں میں ، اپنے کردار میں ۔۔۔
اس دوران کسی مسجد سے آواز ابھری ۔ ۔ اللہ اکبر ۔ ۔ کافی پیتے پیتے وہ کھڑے ہو گئے اور تیز تیز قدموں سے تینوں قریب کی مسجد میں ایک ساتھ داخل ہو گئے اور ایک ساتھ نماز میں شامل ہو گئے ۔
شاید کشمیر میں ان کا بچپن لوٹ آیا تھا !!

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ