افسانہ افسانوی نثر

چلم (تحریر) از نازیہ آصف، افسانہ ایونٹ2022 زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 34

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _34
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :- چلم
نازیہ آصف
گجرات
کئ و رہے پہلے شوال دین نے کلر سے سڑتی مرتی زمین کا یہ ٹوٹہ کرموں ترکھان کو دے کر اپنی قبر کی مٹی ٹھنڈی کرنے کا سوچا تھا ۔کرموں ترکھان جب اپنی جوان جہاں بیوی پینو کو لے کر اس گاوں میں آیا تھا تو اس کا کوئ ٹھکانہ نہ تھا مانگے تانگے کے مکان میں دن گزار رہا تھا ۔مگر وشال دین کی خصوصی نظر عنائت سے اب وہ بھی گھر والا ہو گیا تھا ۔
اب کرموں ترکھان آری تیشہ اٹھائے لوگوں کے گھروں میں جا کر ان کی منجی پیڑھی ٹھوکتا اور وشال دین اس کے گھر میں۔۔۔۔۔۔۔
مگر وہ کہتے ہیں جوانی دا چن چار دن ہی نظر آتا ہے ایسے ہی وشال دین کا چن بھی اس وقت ڈوبنے لگا جب اس کے شینہہ جوان بیٹوں بالے اور شاکی کو پتہ چلا کہ ان کے باپ نے زمین کا ٹوٹہ مفت میں کرموں ترکھان کو دے دیا ہے تو وہ اپنی بےبے کے پیچھے جا پڑے کہ باپ نے ان کے حق وراثت پہ ڈاکہ ڈالا ہے یہ سن کر حاجن کو بھی بہت تپ چڑھی ۔وہ جانتی تھی کہ وشال چودھری تو بنا غرض کسی کو سڑی روٹی کا چھلکا نہ دے ۔ دال میں کچھ تو کالا ہے جو اس نے یہ عنایت کی ہے۔اس نے بھی ہتھیار کس لیے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
وشال دین کے دن شائد ویسے ہی گنے جا چکے تھے۔منہ اندھیرے کھیتون میں ہل چلا رہا تھا کہ پھڑک کر ادھر ہی گر گیا ۔گاماں نائ چودھری کی حجامت بنانے گیا تو اس نے شور مچایا کہ چودھری صاحب تو کھیتوں میں ہی گرے پڑے ہیں فورا ڈسپنسری کے ڈاکٹر کو بلایا گیا ۔ دعائیں دوائیں سب اکارت گئیں اور چودھری صاحب رخصت ہو گئے۔
گاوءں میں کہرام مچ گیا ۔یہ سنتے ہی پینو ترکھانی کی رت تو گویا نالیوں میں ہی سوکھ گئ ۔ مفت میں دی گئ زمین کی قیمت تو پینو ہی جانتی تھی۔جسے اب جوڑ پور ڈھیلے چودھری کی جگہ اس کے دو پتر نظر آ رہے تھے ۔
کرمون ترکھان گھر آیا تو پینو کی حالت دیکھ کر وہ بھی بہت کچھ سمجھ گیا ۔ہمت کر کے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔پینو چولھے کے نیچے سے لکڑیاں کھینچ کر آگ ہلکی کر تے ہوئے کرموں سے کہنے لگی۔”کرم دینا ، ہمارے سر سے چھت پھر تو نہی چھن جائے گی ناں”کرموں بولا”تو فکر نہ کر، میں چودھری کے بھائ و صال دین سے بات کروں گا وہ اپنے بھتیجوں کو سمجھا لے گا ،تو روٹی ڈال ابھی جا کے چودھری کے کلے کرم بھی کرنے ہیں ۔
اگلے دن جب میووں بھری ،نچڑتے ہوئے دیسی گھی سے بنی حلوے کی چھ دیگیں گاوءں بھر میں بانٹی گئیں تو چار یا چالیس کیا، چار سو لوگوں کی گواہیوں نے وشال چودھری کو پکا جنتی بنا دیا ۔
رات کرموں ترکھان اور اس کی بیوی چارپائ پر بڑی دیر تک آنکھیں بند کیے کسمساتے رہے ۔کبھی کرمون کو پینو ، تو کبھی پینو کو کرموں اپنے سے بہت دور کھڑے نظر آئے۔ کرموں کے سامنے ایک طرف گھر کی چھت تھی تو دوسری طرف چاردیواری، آری تیشے سے دونوں کا مان رکھنا ناممکن نہی تو بہت اوکھا ضرور تھا ۔پتہ نہی سوچوں کی گرداب میں ڈوبے اس جوڑے کو کب نیند نے آ لیا ۔آنکھ کھلی تو گاوءں میں مولوی کی آواز پورے جلال سے گونج رہی تھی “فلاح کی طرف آوء،صلاح کی طرف آوء ۔کرموں نے چارپائ پہ بیٹھ کر کچھ دیر سوچا ،مولوی کی بات تو ٹھیک ہے مگر کڑے وقت میں حرام کھانا بھی تو جائز ہے ۔جب ہڈیوں پہ گوشت نہی رہتا تو وہ چٹخنے لگتی ہیں ۔
کرموں نے کوئ لمبی سوچ سوچی اور صبح ہوتے ہی آری تیشہ لیے شہر کی طرف نکل گیا ۔
اب پینو اکیلے بیٹھے گزرے وقتوں کو یاد کرتی رہتی ۔اسے یاد آتا جب وہ بیاہ کر آئی تھی تو اس کی ساس بڑے چاوء سے کہتی “میری بہو تے چنی پھٹی اے(چنی ہوئ کپاس )یعنی صاف ستھری رنگت پہ کہیں کہیں چیچک کا داغ تھا مگر تھی بڑی خوبصورت ۔
مگر نکڑمے کرموں کی تو ساری حیاتی مجھے دیکھنے کی بجائے چھپاتے ہی گزر گئ ،ہائے بیچار ا دیکھ پایا نہ چھپا پایا۔اللہ پاک تو نے اچھا ہی کیا کوئ جی نہی دیا ورنہ وہ بھی کہاں دھکے کھاتا ۔
دروازے پہ آہٹ ہوئ
“کرم دینا،میں ہوں بالا چودھری”
پینو نے جلدی سے چادر سنبھالی اور دروازہ کھولا”جی کرم دین تو شہر چلا گیا ہے “
“کوئ بات نہی پینو تو بھی تو اپنی بھرجائ ہے اپنے چھوٹے دیور سے کیسا پردہ ! لا دے حقہ تازہ کیا ہے تو سوٹا لگوا دے ،پتہ نہی کرموں تمباکو کہاں سے لاتا تھا؟ سنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بڑا ہی ودھیا سواد ہے کرموں کی چلم کا ۔ ۔ ۔ ،بالا پینوں کے ساتھ لگ کر چارپائ پہ بیٹھ گیا اور کہنے لگا “میرے ہوتے ہوئے فکر نہی کرنی بھرجائ، کرموں نہی تو کیا ہوا، میں تو ہوں ناں۔اللہ بخشے ! ابا جی نے جو فیصلہ کیا تھا کچھ اچھا ہی دیکھ ،سوچ کر کیا تھا ۔”بالے نے پینو کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔پینو شکنجے میں پھنسی ہوئ چڑیا کی طرح کسمسائ،چلم تو واقعی ودھیا ہے کرموں کی،رب راکھا،دروازہ بند کرلے پھر آءوں گا کسی روز سوٹا لگانے۔
پینو نے اس کے جاتے ہی ہانپتے کانپتے دروازہ بند کیا اور وہیں دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئ ۔اوہ میرے خدایا! میں کمزور بندی تیرے یہ عذاب کب تک بھگتوں گی اگر میرے لیے زمین نہی تھی تو پیدا ہی نہ کرتا ،پینوں روتے روتے وہیں بیٹھ گئ۔
لوگوں کے منہ میں ابھی حلوے مانڈے اور پائے چنوں کی چپچپاہٹ موجود تھی ۔بالا اور شاکی جدھر سے گزرتے ،واہ چودھری جی کی صدائیں بلند ہوتیں تھیں ۔شاکی کی تو منہ زور بیوی اور تگڑے سالے اسے اپنے ساتھ یورپ لے گئے ۔
کرموں کے بغیر پینوں گلی میں لگے نلکے جیسی ہو کر رہ گئ تھی جس پہ ہر آتا جاتا اپنے ہاتھ صاف کرنا ،کار ثواب سمجھتا۔ گونگا تیلی جو ہاتھ چپڑنے کے لیے تیل نہی دیتا تھا اب کپیاں بھر کے لے آتا اور اس کے چراغ میں ڈالنے کی دعوت دیتا۔
پینو گھر سے باہر نکلتی تو محلے کی عورتیں اسے دیکھتے ہی منہ دوسری طرف کر لیتیں،کسی کے گھر جاتی تو جوان ،بوڑھیاں سب کو اپنے کام یاد آجاتے ، وہ اکیلی بیٹھے رہ جاتی تو اٹھ کر گھر آجاتی اور کرموں کو یاد کر کر کے خوب روتی ۔کرموں تو کہاں چلاگیا یے ،واپس کیوں نہی آتا ؟
اب تو راہ چلتے چھچھورے بھی آوازے کسنے لگے تھے بھابی کوئ ضرورت تےنہی۔
وشال دین کی چوتھی برسی کے ساتھ ہی کرموں کی پہلی برسی بھی ہو گئ ۔پتہ چلا تھا کہ ایک دن مسجد میں چکرا کر گرا اور ایدھی والوں نے لاوارث سمجھ کر دفنا دیا۔غریب کا اتنا ہی رولا ہوتا ہے بس۔
کرموں گھر کی چھت نہ سنبھال سکا اور ساون کی کئ جھڑیوں نے اس کے گھر کی چاردیواری بھی خاصی کمزور کر دی ۔ایک دن دو مزدور گدھوں پہ اینٹیں لاد کر اس کے گھر کے سامنے اتار گئے اور دوسرے دن دو مستری آئے جنھوں نے چار دیواری کو سر سے بھی اونچا کر دیا ۔پوچھنے پہ کہنے لگے کہ جی یہ سب بالا چودھری کا حکم تھا۔
پینو نے اپلوں کی آگ سلگائ حقے میں تازہ پانی اور چلم ڈالی ۔آدھی رات ڈھل چکی تھی جب دروازے پہ ہلکی سی آہٹ ہوئ تو پینو سمجھ گئ کہ بالا چودھری کرموں کی چلم کا سوٹا لگانے آیا ہے اس نے اٹھ کر کنڈی کھول دی۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ