افسانہ افسانوی نثر

دست کوزہ گر (تحریر) افسانہ ایونٹ 2022، زیر اہتمام ولر اردو ادبی فورم کشمیر 33

پیش کش: جی این کے اردو

ولر اردو ادبی فورم کشمیر
افسانہ ایونٹ 2022
افسانہ نمبر _33
بینر :- عمران یوسف
افسانہ :- دستِ کوزہ گر
محمد عرفان ثمین
گلبرگہ (کرناٹک ) ، انڈیا

روبی ایک نیوز اینکر اور ٹاک شو ہوسٹ تھی جو ایک بڑے نجی نیوز چینل میں پچھلے ایک سال سے کام کر رہی تھی ۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ حسن کے معاملے میں بھی قدرت نے اُسے فراخ دلی سے نوازا تھا ۔ جب وہ خبریں پڑھنا شروع کرتی تو ناظرین خبروں سے زیادہ اس کی آواز و انداز سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ وہ صحافت کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا تھی اور خبروں میں سچ کے پہلو کو پیش کرنا اس کی ترجیحات میں شامل تھا ۔

روبی ایک پر اعتماد نیوز اینکر تھی ۔ لائیو شو کے دوران کبھی کبھی گڑبڑیاں ہوتی رہتیں ،کبھی الفاظ ادھر اُدھر ہوتے رہتے ،مگر وہ پرسکون رہتی ،کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ ان حالات میں حواس باختہ ہونے سے معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے ۔ کبھی ٹاک شو ز میں مہمانوں کے درمیان غیر متوقع گفتگو ہوتی، کبھی ان بن ہوتی ، مگر وہ اسے خوش اسلوبی سے نپٹ لیتی تھی ۔

روبی کی ان پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے اس کے چینل کے مالک پرمود کمار بہت خوش تھے ۔ وہ فخر کرتے تھے کہ روبی ان کے نیوز چینل میں کام کرتی ہے ۔ مگر ایک بات انہیں بڑی پریشان کرتی تھی ۔ اتنی شاندار اور صداقت پر مبنی رپورٹنگ کرنے کے باوجود بھی ان کے چینل کی جو ٹی آر پی آ رہی تھی وہ اطمینان بخش نہیں تھی ۔ یہ بات پرمود کمارکے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی ۔

’’کچھ نئی اور سنسنی خیزرپورٹنگ کرو روبی ۔ ‘‘وہ اکثر روبی سے کہتے ۔

’’کوئی سنسنی خیز خبر ہو تو ہی رپورٹنگ ہوگی نا سر ۔ ‘‘روبی کا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ۔

’’خبر نہیں ہے تو خبر بناوَ ۔ پھر دیکھنا کیسی کھلبلی مچتی ہے ۔ ‘‘و’اسپتالوں میں آکسیجن کی زبردست قلت‘ مہ میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتے ۔

’’آپ تو سی این این کی طرح کہہ رہے ہیں ، جس نے کہا تھا کہ تم خبر دو ،ہم جنگ کا میدان فراہم کریں گے ۔ ‘‘

’’بالکل ۔ اکیسویں صدی میں جو بھی جنگیں لڑی جائیں گی وہ میڈیا کی بدولت ہی ہوں گی ۔ ‘‘پرمود کمار اس کی آنکھوں میں گھورتے ہوئے کہتے تو روبی بس مسکرا کر رہ جاتی ۔

آج بھی جب پرمود کماراسٹوڈیو میں آئے تو خاصے پریشان لگ رہے تھے ۔ روبی پرائم ٹائم میں مہمانوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی تیاری میں مصروف تھی ۔ وہ سیدھے روبی کے چیمبر میں چلے گئے ۔

’’عالمی وبا کے چلتے خبروں کی یکسانیت سے عوام بوریت محسوس کر رہی ہے روبی ۔ تمام نیوز چینلس پر ایک سی خبریں ہیں ۔ ‘‘

’’جی سر ۔ مگر ہم خبروں کو دلچسپ اور معلوماتی بنانے کے لئے بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔ ‘‘روبی نے فائلس سے نظریں ہٹا کر پرمود کمار کی طرف دیکھا ۔

’’پھر بھی ہماری ٹی آر پی میں کوئی اچھال نہیں ہے ۔ ہ میں کچھ اور کرنا ہوگا ۔ ‘‘انھوں نے ازلی رونا رویا ۔

’’‘کیا کرنا ہوگا ؟‘‘

’’کچھ ایسی نیوز بنانی ہوگی جو تہلکہ مچا دے ۔ ‘‘

’’جو نیوز چینل خبریں بناتے ہیں وہ عام آدمی کی آواز نہیں بن سکتے سر ۔ ‘‘روبی اخلاقیات کا درس دینے لگی ۔

’’بالکل ٹھیک ۔ مگر مسَلہ یہ ہے کہ عام آدمی کی آواز ٹی آر پی کا پیمانہ نہیں ہے ۔ ‘‘پرمود کمار نے قدرے بیزاری سے کہا ۔

’’سر ۔ میرا ماننا تھا کہ ٹی آر پی آپ کی ترجیحات میں نہیں ہے ۔ آج آپ نے مجھے غلط ثابت کر دیا ۔ ‘‘روبی پرمود کمارکے ضمیر کے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔

’’بات ترجیحات کی نہیں ہے روبی ۔ آنے والے دنوں میں اگر ہمارے چینل کی ٹی آر پی میں بہتری نہیں آئی تو میں دیوالیہ ہو جاؤں گا ۔ ‘‘پرمود کمار کا اصل درد ان کی زبان پر آگیا ۔

’’جی ۔ مگر سنسنی کے لئے جھوٹی خبریں پیش کرنا بھی جوکھم بھرا کام ہے ۔ عوام سب باتوں سے واقف ہوتی ہے ۔ ‘‘روبی نے انتباہ کے انداز میں کہا ۔

’’عوام کی یادداشت بڑی کمزور ہوتی ہے ۔ ویسے بھی جھوٹ کا پرچار زور و شور سے کیا جائے تو عوام اسے سچ ماننے لگتی ہے ۔ ‘‘پرمود کمار جھوٹ کو پیر لگانا جانتے تھے ۔

’’اور اگر تمام جھوٹ ختم ہو جائیں تب ؟ ‘‘روبی نے استہزائیہ انداز میں استفسار کیا ۔

’’تب احمقانہ قسم کے سوالات کو اچھالنا چاہئے تاکہ عوام میں اضطراب پیدا ہو ۔ ‘‘یہ پرمود کمار کا تجربہ بول رہا تھا ۔

’’ میں صحافت کے اصولوں سے منہ نہیں موڑ سکتی سر ۔ رہی بات ٹی آر پی کی، تو اس کو بہتر بنانے کے لئے میں بھرپور کوشش کروں گی ۔ ‘‘روبی اپنے اصولوں سے روگردانی نہیں کر سکتی تھی ۔

’’اوکے ۔ مگر ایک بات یاد رہے کہ ٹی آر پی کسی بھی چینل کے لئے آکسیجن کاکام کرتی ہے اور بنا آکسیجن کے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہم survive نہیں کرسکتے ۔ جانتی ہوں سر ۔ ‘‘ روبی نے پرمود کمار کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔

’’گُڈ ۔ ویسے آج پرائم ٹائم میں اپوزیشن کا کوئی نیتا بحث میں آنے کو تیار نہیں ہو رہا ہے کیوں کہ میں نے رولنگ پارٹی کے سب سے تیز طرار ترجمان کو انوائیٹ کیا ہے ۔ سنبھال لینا ۔ ‘‘ پرمود کمار نے دونوں ہتھیلیوں سے تالی بجاتے ہوئے کہاتوروبی کی ہنسی پھوٹ پڑی ۔

’’سر ۔ آپ نے اسے کیوں بلالیا ۔ بحث کے دوران جب وہ ہارنے لگتا ہے تو مسخری شروع کر دیتا ہے ۔ ‘‘

’’لائیو براڈکاسٹنگ میں یہی تو مزے دار بات ہوتی ہے کہ اس میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘پرمود کمار کے چہرے پر بھی مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔

’’مگرا س سے ہمارے پرائم ٹائم میں سنجیدہ ناظرین کی دلچسپی کم ہو سکتی ہے ۔ ‘‘

’’ہو سکتا ہے ،مگر ناظرین کی اکثریت بہرحال محظوظ ہو گی ۔ ویسے بھی شہر کے بزنس ٹاءکون سے اس کے قریبی تعلقات ہیں ۔ ہمارے چینل کواشتہارات دلانے میں اس کا اہم رول ہوتا ہے ۔ ‘‘پرمود کمار ہمیشہ دو اور دو چار کی بات کرتے تھے ۔

’’گویا اب ہمیں کارپوریٹ والوں سے بھی ڈر کر کام کرنا ہوگا ۔ ‘‘روبی کے لہجے میں بیزاری صاف جھلک رہی تھی ۔

’’روبی ۔ تم جو اس شاندار اسٹوڈیو میں بیٹھی ہو ،یہ صرف چینل کی کمائی سے ممکن نہیں ۔ میڈیا اگر کارپوریٹ sector کے تحت کام نہ کرے تو چینل مالی مشکلات کے سبب بند بھی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘صاف گوئی پرمود کمار کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔

’’سر آپ نے تو صحافت کے اصول و ضوابط کا جنازہ نکال دیا ۔ ‘‘روبی نے تاسفانہ لہجے میں کہا ۔

’’اپنے کیریر کے ابتدائی دنوں میں مَیں بھی ایسے ہی اصول و ضوابط کی بات کرتا تھا،بعد میں سمجھ میں آیا کہ یہ سب بے سود ہیں ۔ ‘‘ کرسی سے اٹھتے ہوئے پرمود کمار نے کہا ۔

’’اوکے سر ۔ میں اُسے سنبھال لوں گی ۔ آپ بے فکر رہیں ۔ ‘‘روبی نے بات کو مزید طول دینا مناسب نہیں سمجھا ۔

’’فائن ۔ پرائم ٹائم کا وقت ہو رہا ہے ۔ مہمان بھی آ گئے ہوں گے ۔ ‘‘ اتنا کہتے ہوئے پرمود کمار چیمبر سے باہر نکل گئے ۔

چند روز بعد صبح نو بجے جب راجیش ابھی بستر میں تھے ،ان کے موبائل فون پر رنگ ہوئی ۔

’روبی کالنگ‘موبائل فون کے اسکرین پر نظر پڑتے ہی وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ۔ وہ سمجھ گئے کہ کوئی ایمرجنسی ہے ورنہ روبی عام طور پر اس وقت کال نہیں کرتی تھی ۔

’’ہیلو روبی !‘‘

’’سر ۔ فوراً آفس پہنچئے ۔ بہت بڑی بریکنگ نیوز ہے ۔ ‘‘روبی نے عجلت سے کہا اور پرمود کمارکی بات سنے بغیرفون کاٹ دیا ۔

آدھے گھنٹے بعد پرمود کمارروبی کے ساتھ آفس کے نیوز روم میں موجود تھے ۔

’’سر !پچھلے ہفتے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے جو لاکھوں لوگ ایک جگہ جمع ہوئے تھے ان میں سینکڑوں لوگوں کا کورونا ٹسٹ پازیٹیو آیا ہے ۔ میں ابھی اس نیوز کو بریک کرنا چاہتی ہوں اور آج کے پرائم ٹائم کے لئے بھی یہی نیوز اناوَنس کرنا چاہتی ہوں ۔ ‘‘

’’واقعی بریکنگ نیوزتو ہے ۔ ‘‘ اتنا کہہ کرپرمود کمارکچھ ثانیے خاموش رہے، پھر گویا ہوئے ۔ ’’مگرروبی !یہ نیوز ہمارے چینل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ۔ ‘‘

’’سر، میں نے اس خبر پر بہت محنت کی ہے ۔ بڑی مشکل سے اعداد و شمار اکٹھا کئے ہیں ۔ ‘‘روبی نے میز پر پڑی فائل کی طرف اشارہ کیا ۔

’’ میں تمہارے کام کی قدر کرتا ہوں روبی،مگرالیکٹرانک میڈیا کو ریگیولیٹ کرنے والی اتھارٹی میں ایک خاص نظریے کے لوگوں کی اجارہ داری ہے ۔ میں ان کو ناراض نہیں کر سکتا ۔ ‘‘پرمود کمار نے روبی کواپنی مجبوری سے آگاہ کیا ۔

’’کرنا پڑے گا ۔ چینل مالکان پر نام نہاد مثبت رپورٹنگ کے لئے دباوَ ڈالا جا رہا ہے اور تم جانتی ہو، میں ٹی آر پی کے لئے یا اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔ ‘‘وہی صاف گو انداز ۔

’’مگر میں کسی دباوَ میں کام نہیں کر سکتی ۔ یہ خبر آن ایر ضرور جائے گی سر ۔ ‘‘روبی نے گویا ٹھان لیا تھا کہ سقراط کا پیالہ پینا ہے ۔

’’مگر اتنی بڑی خبر کو ہم کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں ؟ “

’’یہ تو عام بات ہو گئی ہے سر ۔ ‘‘روبی نے حقارت آمیز لہجے میں کہا ۔ ’’جب جھوٹے قصیدے پڑھنے ہوتے ہیں تو ہم سیاسی لیڈرس کے نام کی مالا جپتے ہیں ۔ جب ان کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا ذکر کرنا ہو تو سسٹم سٹم کا کھیل کھیلنے لگتے ہیں ۔ ‘‘

’’روبی ۔ تم اس چینل کی ایک ذمہ دار نیوز اینکر ہو ۔ تمام باتوں سے بخوبی واقف ہو ۔ مجھے اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ‘‘

’’جیسی تمہاری مرضی ۔ ‘‘پرمود کمار نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا ۔ ’’مگر ایک بات کا دھیان رکھنا کہ حکومت میں موجود کسی بھی شخص کو اس کا ذمہ دارمت ٹھہرانا ۔ ‘‘

’’ڈونٹ وری سر ۔ آپ دیکھ لینا ،اس نیوز کے بعد ہمارے چینل کی ٹی آر پی نئے ریکارڈس بنائے گی ۔ ‘‘ روبی نے پر اعتماد لہجے میں کہا مگر پرمود کمار متفکرانہ نظروں سے روبی کی طرف دیکھتے رہے ۔

اگلے روزشام کے وقت روبی اپنے فلیٹ میں بستر پر دراز ہو کر ٹی وی پر نیوز دیکھ رہی تھی ۔

’ملک میں کورونا کی سونامی‘

’اسپتالوں میں آکسیجن کی زبردست قلت‘

’پڑوسی ممالک نے کیا انسانیت کا مظاہرہ ۔ ہزاروں میٹرک ٹن آکسیجن کی پیش کش‘

ہیڈلائنس سن کر روبی نے زبردست قہقہہ لگایا ۔ وہ سوچنے لگی کہ کل تک یہی نیوز چینل ان ممالک کے خلاف منفی پروپیگنڈا چلاتے تھے جن کی تعریف میں آج زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں ۔ کل تک جن ممالک کو انتہا پسندوں کی فیکٹری بتاتے تھے،آج ان کی مدد کو انسانیت کی جیت سے تشبیہ دے رہے ہیں ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہر خبر ان لوگوں کے نزدیک موم کی ناک کی طرح ہے جسے جیسے چاہیں موڑ سکتے ہیں ۔

ہنستے ہنستے اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے لیٹر پر پڑی تو یکایک اس کی ہنسی معدوم ہو گئی ۔ یہ معطلی کا وہ پروانہ تھا جو سچ کو پیش کرنے کے انعام کے طور پر چند گھنٹے قبل اُسے ملا تھا ۔ روبی کو لگ رہا تھا کہ ایک آکسیجن سیلنڈر کی ضرورت میڈیا ہاوَسز کو بھی ہے ۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ