ادبی خبریں

ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام پروفیسر گوپی چند نارنگ کی رحلت پر تعزیتی نشست

جی این کے اردو

25/ جون 2022

پریس ریلیز


ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام پروفیسر گوپی چند نارنگ کی رحلت پر تعزیتی نشست کا اہتمام

مختلف زبانوں کے ادیبوں کی شرکت


نئی دہلی، 24 جون (پریس ریلیز)۔
اردو زبان و ادب کے ممتاز دانشور، محقق، نقاد، ساہتیہ اکادمی کے فیلو و سابق صدر پدم بھوشن پروفیسر گوپی چند کی رحلت پر ساہتیہ اکادمی نے آج 24 جون کو اکادمی آڈیٹوریم، فیروزشاہ روڈ میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا جس میں مختلف زبانوں کے ادیبوں نے شرکت کی۔ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے اپنی تعزیتی تقریر میں پروفیسر نارنگ سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کیا، ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ پروفیسر نارنگ لگ بھگ چالیس برسوں تک اکادمی سے جڑے رہے اور اس دوران مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے انھوں نے اکادمی کی ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ انھوں نے صرف اردو ہی نہیں بلکہ دیگر ہندستانی زبانوں کی فروغ کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس موقع پر ساہتیہ اکادمی کے صدر پروفیسر چندرشیکھر کمبار نے ان کے ساتھ اپنی بیرون ملک سفر کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ دوستوں کے دوست تھے۔ وہ صرف اردو اور ہندستانی زبانوں تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ عالمی منظرنامے پر ایک درخشاں ستارہ تھے۔ پروفیسر نارنگ نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر ایک پہچان دلایا۔

اکادمی کے نائب صدر جناب مادھو کوشک نے کہا کہ وہ ہمیں بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ ان کی کتابیں جتنی ہندوستان میں مقبول ہوئیں اتنی ہی مقبولیت ان کو پاکستان میں بھی ملی۔ ان کی پہچان لوکل سے گلوبل تک کی تھی۔ اُن کا جانا ایسا ہے جیسے صرف ہندستانی ادب کا ایک تناور درخت گرگیا ہو۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ کے بیٹے ترن نارنگ نے امریکہ سے آن لائن شرکت کی اور کہا کہ پروفیسر نارنگ کے مختلف اوصاف کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاپا کو دنیا بھر سے ایوارڈ حاصل ہوئے، دنیا بھر کے لوگوں نے انھیں زندگی میں عزت بخشی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پروفیسر نارنگ نے بھرپور زندگی بسر کی اور آخری وقت میں بھی وہ کسی بیماری کے شکار نہیں ہوئے۔


ساہتیہ اکادمی کے سابق صدر پروفیسر وشوناتھ تیواری نے کہا کہ پروفیسر نارنگ میں انتظامی صلاحیت بھی بھرپور تھی۔ وہ جب کوئی فیصلہ لیتے تو پورے عزم کے ساتھ لیتے تھے۔ وہ ایک زندہ دل انسان تھے جن کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ آئی آئی ٹی دہلی کے پروفیسر، سابق وائس چانسلر سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد پروفیسر احتشام حسنین نے پروفیسر نارنگ کو یاد کرتے ہوئے کہا وہ نارنگ صاحب شخصیت نہیں ایک ادارہ تھے۔ وہ اردو کے واحد ادیب تھے جنھیں ہندوستان اور پاکستان کے صدر نے انعام سے نوازا۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے تو ان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کو سب سے پہلے Honoris Causa ڈی لٹ کی ڈگری تفویض کیا گیا۔ ہندی کے ممتاز ادیب ہریش تریویدی نے نارنگ صاحب سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کی تقریر میں جادو تھا۔ انھوں نے الگ الگ عنوانات پر کتابیں لکھیں۔ امیرخسرو کے نادر نسخوں کو برلن کے لائبریری سے کھوج نکالا۔ وہ ایک مردم شناس شخص تھے۔ کشمیری و اردو کے ممتاز ادیب پروفیسر زمان آزردہ نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ پروفیسر نارنگ آرگنائزڈ طور پر کام کرتے تھے اور ان کی رہنمائی میں کام کرکے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔

فارسی کے ممتاز ادیب پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ نارنگ صاحب میرے استاد تھے۔ انھوں نے اپنے طلبا کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور ہر ممکن مدد بھی کی۔ اس موقع پر انھوں نے پروفیسر نارنگ کا یہ جملہ یاد کرایا کہ اردو سیکولرزم کی زبان ہے، مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہا کہ نارنگ صاحب نے دلوں میں گھر بسائے ہیں۔ پروفیسر نارنگ کی رحلت کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے کام کو آگے بڑھایا جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں نے ہمیشہ ان سے محبت کی ہے اور کرتا رہوں گا۔ پروفیسر ابن کنول نے کہا کہ ابھی 7 مئی کو ہم نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے ایک پروگرام میں پروفیسر نارنگ کی غالب پر ایک عالمانہ تقریر سنی تھی۔ ہمیں بالکل ہی نہیں لگا کہ اتنی جلدی وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ انھوں نے نوجوانوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ گزشتہ پچاس برسوں سے اردو کا نام گوپی چند نارنگ ہوگیا تھا۔ اردو کی پہچان گوپی چند نارنگ سے بن گئی تھی۔ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے اپنی تعزیت میں کہا کہ پروفیسر نارنگ نے اردو کو عالمی سطح پر پھیلانے میں اہم رول ادا کیا۔ وہ ایک لیونگ لجنڈ تھے۔ جینت پرمار نے پروفیسر نارنگ سے اپنے ذاتی رشتے کا ذکر کیا اور کہا کہ انھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے ایک پہچان دلائی۔ ان کا انتقال عالمی سطح پر سانحہئ عظیم ہے۔

چندربھان خیال نے اپنے تعزیتی تقریر میں کہا کہ پروفیسر نارنگ چھوٹوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ انھوں نے دشمنوں کو بھی معاف کا۔ ان کے خلاف بہت سی تحریکیں چلائی گئیں لیکن ان سب سے ان کا قد اور بڑھتا گیا۔ وہ گنگاجمنی تہذیب کے بہت بڑے ستون تھے۔

شین کاف نظام نے کہا کہ ندی تو ایک ہی ہوتی ہے اس کے گھاٹ مختلف ہوتے ہیں۔ پروفیسر نارنگ ایک ندی جیسے تھے جسے سبھی لوگ گھاٹ کی طرح پیار کرتے تھے۔ جانکی پرشاد شرما نے کہا کہ ان کی خدمات اردو تک محدود نہیں ہیں وہ بین لسانی شخصیت کے مالک تھے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اس موقع پر کہا ان کی سحرانگیز خطابت کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر نارنگ ایک نام نہیں بلکہ ایک تحریک تھے، اب کوئی دوسرا نارنگ پیدا نہیں ہوگا۔ گزشتہ پچاس برسوں تک انھوں نے اردو ادب پر حکمرانی کی۔ ان کے انتقال سے ایک زریں دور کا خاتمہ ہوگیا۔ وانی پرکاشن کے پروپرائٹر ارون مہیشوری نے کہا کہ انھوں نے مجھے اور میرے خاندان کو ہمیشہ دعائیں دی۔ وانی پرکاشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی زیادہ تر ہندی کتابیں ہم نے چھاپی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ نارنگ صاحب کو جو علمی اعتبار حاصل تھا کسی دوسرے نقاد کو حاصل نہیں ہوگا۔ انھوں نے مابعد جدیدیت کو اردو میں متعارف کرایا۔ نارنگ صاحب کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے اردو والوں کو نیا ذہن دیا۔ اردو اگر صوت ہے تو نارنگ اس کی آواز ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کے کام کو آگے لے جانا ہے۔ اخیر میں ڈاکٹر اجے مالوی نے پروفیسر نارنگ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانیت کے پیکر تھے۔ ان کی جیسی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ملے۔ اس تعزیتی نشست میں مختلف زبانوں کے ادیبو ں نے شرکت کی۔

مصنف کے بارے میں

GNK Urdu

ایک تبصرہ چھ